تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-11-2018

سوالات

میں جب روزانہ رات کو سونے لگتا ہوں تو اس وقت بھی کئی سوالات میرے دماغ میں آتے ہیں اور جب صبح اٹھتا ہوں تب بھی۔ اور صرف رات اور صبح پر ہی کیا موقوف؟ سارا دن بھی یہی حال رہتا ہے۔ ادھر ادھر سے متعلق سوالات۔ غیر متعلق سوالات۔ لا ینحل مسائل بارے سوالات۔ ایسے سوالات جن سے میرا دور پار کا بھی کوئی واسطہ نہ ہو۔ ملکی حالات بارے۔ عالمی صورتحال بارے۔ اُمہ کے بارے میں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ مجھ جیسے بے علم ‘عاجز پر یہ سوالات کی فوج آخر ہمہ وقت کیوں حملہ آور رہتی ہے؟ اوپر سے مصیبت یہ کہ ان میں سے بیشتر، بلکہ تقریباً سارے سوالات کا نہ میرے پاس کوئی جواب ہوتا ہے اور نہ کوئی حل۔ لیکن اپنی اس معذوری، لاچاری اور بے بسی کے باوجود میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ان سوالات کے طفیل میں یہ ضرور جان سکتا ہوں کہ میں اپنے مالک کے کرم کے طفیل ابھی سوچ سکتا ہوں۔ سوال کا ذہن میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ رب العزت نے ابھی اس قابل رکھا ہے کہ میں چیزوں بارے سوچ سکتا ہوں۔ ذہن میں اٹھنے والے سوالات کم از کم یہ تسلی ضرور دیتے ہیں کہ ابھی سوچ کا در کھلا ہے۔ یہ بھی اس قادرِ مطلق کا احسان ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی بھلا اور کیا ہوگی کہ سوچ کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔
لیکن یہ سوچ بعض اوقات عاجز بڑا کرتی ہے۔ ایسے ایسے سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ بیان کریں تو مصیبت آجائے۔ کسی سوچ پر بغاوت کا اطلاق ہوتا ہے اور کسی پر توہین عدالت کا۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ابھی گرفت کرنے والوں کی سوچ پر پہریداری قائم نہیں ہوسکی ورنہ اس وقت یہ عاجز بیک وقت کئی قسم کی سزائیں بھگت رہا ہوتا۔ اپنے بارے میں کیونکہ مجھے کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی نہیں ہے اس لئے اس بچت پر اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ ابھی اس نے صاحبانِ اقتدار اور دنیاوی جزا اور سزا کے نظام کو محض سوچ کی بنیاد پر ٹرائل کرنے اور سزا دینے کا اختیار نہیں بخشا۔ سو رات دن سوچتا ہوں اور جس قدر ممکن ہو لکھ کر اپنے مالک کے ہاں سرخرو ہونے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ عالم الغیب ہماری ساری حقیقت اور اوقات جانتا ہے۔ نیتوں کا اس سے زیادہ راز جاننے والا بھلا اور کون ہے؟
لیکن بعض اوقات معاملہ یوں آن پڑتا ہے کہ سوال اٹھائے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ گزشتہ روز (آج یہ گزشتہ بھی گزشتہ سے پیوستہ ہوچکا ہے) کے اخبار میں ایک چارٹ تھا اور اس چارٹ میں ملکی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تفصیل درج تھی۔ اس تفصیل میں سپریم کورٹ آف پاکستان، شرعی عدالت، چاروں صوبوں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے علاوہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے وفاقی علاقے کی ضلعی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد بھی تھی اور گزشتہ سالوں سے اس کا موازنہ بھی۔ یہ موازنہ یکم جون 2009 اور 31 دسمبر 2017 اور پھر 30 ستمبر 2018 کے حوالے سے تھا۔
صرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت زیر سماعت مقدمات کی تعداد 40243 ہے۔ 31 دسمبر 2017 کو یہ تعداد 38539 تھی۔ یعنی گزشتہ دس ماہ میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد میں 1704 کا اضافہ ہوا ہے۔ یکم جون 2009 کو یہ تعداد 19055 تھی۔ یعنی جون 2009 سے ستمبر 2018 تک تو سال میں یہ تعداد دو گنا سے زیادہ ہوگئی ہے۔ مخلوق خدا عشروں سے اپنے مقدمات کے فیصلوں کی منتظر ہے۔ سپریم کورٹ تک پہنچنے والے اکثر مقدمات سول کورٹ، سیشن کورٹ اور پھر ہائی کورٹ سے چلتے چلتے جب سپریم کورٹ پہنچتے ہیں تب تک دیوانی مقدمات میں مدعی کی دوسری نسل عدالتوں میں جوان ہوچکی ہوتی ہے اور اپنے مرحوم بزرگوں کے دائر کردہ مقدمات بھگتا رہی ہوتی ہے لیکن عدالتیں بھی کیا کریں؟ ان پر بوجھ ہی بہت زیادہ ہے۔ 
یہ بات بالکل درست ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے ہائیڈل بجلی کی پیداوار اور پانی کے ذخائر کے معاملے میں انتہائی سے زیادہ نااہلی دکھائی۔ ڈیم ملکی معیشت میں دو حوالوں سے براہ راست حصہ ڈالتے ہیں۔ سستی بجلی کی فراہمی اور پانی کے ذخائر میں اضافہ۔ لیکن جلدی اور نسبتاً سستے بن جانے والے تھرمل بجلی کے پراجیکٹس گزشتہ حکومتوں کی ترجیح رہے ہیں۔ اس میں کمیشن اور کک بیک کی سہولت علیحدہ ہے۔ کمیشن وغیرہ تو خیر یہ فنکار حکمران ڈیم سے بھی نکال لیتے لیکن اس کی تعمیر کی مدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ شروع کوئی کرتا ہے اور افتتاح کسی اور حکومت کا مقدر بنتا ہے۔ اس حوالے سے '' نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ کے مصداق، سابقہ حکمرانوں نے تھرمل اور کرائے کے بجلی گھروں سے کام چلانا شروع کر دیا۔ انڈین سرمائے سے کام کرنے والی بعض این جی اوز نے مقامی لوگوں کو بزرگوں کی زمین، آبائو اجداد کی قبروں اور آبائی گھروں کی بربادی کے نام پر اکسایا اور گزشتہ پچاس سال میں ایک بھی قابل ذکر ڈیم نہ بننے دیا۔ کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا اور باقی ڈیم کمیشن کی۔
اب سپریم کورٹ نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کے نام پر فنڈ اکٹھا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ فنڈ چھ جولائی کو قائم کیا گیا اور ملک کے طول و عرض سے اس فنڈ میں عطیات کے علاوہ بیرون ملک سے بھی عطیات آنے شروع ہوگئے۔ اوپر سے عمران خان نے بھی اس فنڈ میں عطیات کی اپیل کر دی۔ امید تھی کہ امریکہ اور یورپ وغیرہ میں بسنے والے پاکستانی ‘جن کی غالب اکثریت تحریک انصاف کی حامی اور عمران خان کی مداح ہے اس فنڈ میں غیر معمولی عطیات بھیجیں گے لیکن یہ خیال بھی خام ثابت ہوا۔ اور کم از کم پیسے بھیجنے کے حوالے سے مغرب میں بسنے والے پاکستانیوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ چھ جولائی 2018 کو قائم ہونے والے اس فنڈ کو اب تک (مورخہ 5 نومبر 2018 تک) کل 122 دن گزر گئے ہیں اور ان ایک سو بائیس روز میں سات ارب 37 کروڑ نو لاکھ پچاس ہزار پانچ سو دس روپے (7,37,09,50,510) جمع ہوئے ہیں۔ اس رقم میں بھی کسی ایک ادارے کا سب سے بڑا عطیہ پاک فوج کی جانب سے ایک دن کی تنخواہ کی مد میں دیئے جانے والے ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے ہیں۔ یہ رقم کل جمع شدہ رقم کا اکیس فیصد ہے بیرون ملک رہائشی پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقم بظاہر کروڑوں میں ہے لیکن جمع شدہ عطیات سے موازنہ کریں تو یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ یہ رقم پانچ کروڑ روپے سے بھی کم ہے یعنی کل جمع شدہ رقم کا اعشاریہ چھ فیصد۔ ویسے تو منطقی طور پر یہ بات طے ہے کہ اس فنڈ میں جمع ہونے والی رقم کی شرح اب روز بروز کم ہوتی جائے گی کہ اب اس فنڈ میں مختلف اداروں کی جانب سے عطیہ کی جانے والی بھاری رقوم شاید دوبارہ نہ مل سکیں۔ سرکاری اور دیگر پرائیویٹ اداروں کے ملازمین بھی روز روز اپنی ایک دن کی تنخواہ اس فنڈ میں عطیہ نہیں کریں گے لیکن اگر ہم فرض کرلیں کہ اس فنڈ میں عطیات اسی رفتار سے آتے رہیں گے تو بھی صورت حال کچھ اچھی نہیں۔ بلکہ خاصی خراب اور حوصلہ شکن ہے۔
کل 122 دن میں سات ارب 37 کروڑ نو لاکھ پچاس ہزار اور پانچ سو دس روپے جمع ہوئے ہیں۔ فی یوم کے حساب سے یہ رقم چھ کروڑ چار لاکھ سترہ ہزار چھ سو ستائیس روپے بنتی ہے۔ ڈیم کے لئے کل چودہ سو ارب روپے چاہئیں۔ اگر عطیات اسی رفتار سے آتے رہے تو مبلغ چودہ سو ارب روپے تیئس ہزار ایک سو بہتر دن میں وصول ہو جائیں گے یعنی تقریباً ساڑھے تریسٹھ سال میں، بشرطیکہ اس دوران ڈیم کی تعمیر کے اخراجات میں ایک پیسہ بھی اضافہ نہ ہو۔
میرا خیال ہے کہ اس کام کو بہرحال جاری رکھنا چاہئے لیکن اس دوران مقدمات کو نمٹانے کی رفتار بڑھا دی جائے تو مجھے یقین ہے یہ کام بھی ناممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ قارئین! معاف کریں۔ میں نے کہا ہے ناں کہ میرے ذہن میں ایسے سوال آتے رہتے ہیں جن کا میرے پاس نہ کوئی جواب ہے اور نہ کوئی حل۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved