تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     08-11-2018

افغان تنازعہ

روس نو نومبر کو ایک ایسے وقت میں افغان امن مذاکرات کی میزبانی کر رہا جب امریکی سترہ سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمہ کیلئے طالبان کو امن مذاکرات کی میز تک لانے میں سرگرداں ہے۔ افغان گورنمنٹ کی مفاہمتی کونسل کا چار رکنی وفد ماسکو امن کانفرنس میں شرکت پہ آمادگی ظاہر کر چکا ہے اور طالبان مزاحمت کار اگرچہ اسے باضابطہ امن مذاکرات نہیں سمجھتے تاہم انہوں نے بھی ماسکو امن مذاکرات میں شرکت کا عندیہ دیا ہے۔ روس نے پاکستان سمیت خطہ کے دیگر ممالک جن میں چین، ایران، انڈیا اور چاروں وسط ایشیائی ریاستیں شامل ہیں‘ کو بھی امن مذاکرت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ بعض تجزیہ کار یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان کے صف اول کے کمانڈر ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے افغانستان میں سیزفائر اور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ کے ساتھ براہ راست جاری امن مذاکرت سے جو امیدیں وابستہ کر لیں تھی ماسکو مذاکرات اس امن عمل کو ڈی ریل بھی کر سکتے ہیں۔ بلا شبہ جب تک جنگ نہیں رکتی اس وقت تک مذاکرات کے عمل کو با معنی نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ افغانستان پر اشرف غنی حکومت کا کنٹرول ختم ہو رہا ہے، گزشتہ چند ماہ کے دوران سرکاری فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، اکتوبر میں الیکشن کے روز کابل کے متعدد پولنگ سٹیشنوں پہ دہشتگردانہ حملوں کے علاوہ عام انتخابات سے دو دن قبل قندھار صوبہ کے گورنر کمپائونڈ میںامریکی ریزولٹ سپورٹ کمانڈر جنرل آسٹن سکاٹ ملر کی موجودگی میں گارڈ کی مبینہ فائرنگ سے گورنر آغا گل شیر اور پولیس چیف عبدالرزاق سمیت خفیہ ایجنسی کے مقامی سربراہ کی ہلاکت کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی نگرانی میں کام کرنے والی افغان گورنمنٹ مملکت کو مستحکم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اقتدار سنبھالتے ہی صدر ٹرمپ نے جنگ سے نکلنے کی پالیسی ترک کر کے، جیتنے کیلئے لڑنے، کی حکمت عملی اختیار کرکے افغانستان میں فوج کی تعداد بڑھانے کے علاوہ میدان جنگ کے کمانڈروں کو وسیع اختیارات دے کر جنگ کا مومینٹم بڑھا دیا، اس جارحانہ مہم کے نتیجہ میں افغانستان کے دس ہزار سویلین متاثر ہوئے جن میں 3500 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؛ چنانچہ امریکی فورسز نے ''جیتنے کیلئے لڑنے‘‘ کی پالیسی ترک کر کے ''مارو اور نکلو‘‘ کی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کی۔
اخبار گارڈین نے لکھا ہے کہ امریکی تہری مصیبت میں پھنس چکے ہیں، وہ جنگ جیت سکتے ہیں نہ اسے روک سکتے ہیں اور نہ ہی جنگ کو چھوڑ کے نکل سکتے ہیں۔ سیرین وار کی مانند افغان جنگ بھی الجھ گئی ہے۔ نہایت پیچیدہ تر صورت حال کے پیش نظر امریکہ جس طرح شام سے اپنی فوجیں نکالنے کیلئے بے قرار ہے اسی طرح افغانستان میں بھی وہ مزید قیام نہیں کرنا چاہتا۔ امر واقعہ یہی ہے کہ اس وقت امریکی سرپرستی میں قائم اشرف غنی گورنمنٹ افغانستان کے بڑے حصہ پہ عملداری کھو چکی ہے۔ کابل سے 75 کلومیٹر کے فاصلہ پہ واقع غزنی شہر کے بڑے حصے پر طالبان جنگجوئوں کا کنٹرول اہمیت کا حامل ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ 1979ء کی روسی جارحیت سے لے کر اکتوبر 2001ء کے امریکی حملے کے وقت تک افغانستان کنج تنہائی میں سلگتا رہا‘ اس لئے افغان وار کی مہیب حرکیات دنیا سے پوشیدہ رہیں لیکن آج افغانستان میں 24 ملین لوگ موبائل فون اور 3.5 ملین انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ لاکھوں شہری فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے دوستوں سے ویڈیو چیٹ میں مصروف ہیں۔ افغانستان کے پہاڑوںمیں لڑی جانے والی جنگ میں شریک امریکی فوجی، طالبان جنگجو، کارکن صحافی اور عام شہری سوشل میڈیا کے ذریعے اجتماعی زندگی کے شب و روز، جنگ کے مظاہر، چھوٹے بڑے حادثات اور جنگ بارے اپنے احساسات کو باآسانی دنیا والوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ وہاں سوشل میڈیا کے ذریعے ابلاغ کے رجحان میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے، چنانچہ آج دنیا والے افغانستان کے وار زون میں باآسانی جھانک سکتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے طالبان اور امریکی فوج کے سوشل میڈیا کے لب و لہجہ سے اندازہ ہوتا تھا کہ دونوں متحارب قوتیں سیزفائر کی طرف بڑھ رہی ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پہ جونہی امریکہ و طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوا‘ ملک میں امن و امان کی حالت پہلے سے زیادہ دگرگوں ہو گئی، افغانستان میں طالبان جنگجوئوں اور داعش کے درمیان اپنی اپنی دہشت پھیلانے کا مقابلہ نہایت تیزی کے ساتھ سماج کے معصوم عناصر کو نگل رہا ہے۔ گزری ہوئی عیدالفطر کے تین ایام میں جب طالبان عسکریت پسندوں نے مختصر جنگ بندی کر کے امریکیوں کو براہ راست مذاکرات پہ آمادہ کیا تو افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے خاتمہ کی امید پیدا ہو گئی تھی لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود کہ جنگ بجائے خود باہمی تعاون کے امکانات کو ختم کر دیتی ہے، امن مذاکرات میں شریک فریقین نے مستقل سیز فائر پر اتفاق نہیںکیا؛ چنانچہ مذاکرات کے پہلو بہ پہلو تشدد کے ایسے ہولناک مناظر ابھرے جنہوں نے بات چیت کی افادیت کو صفر کر دیا۔ مذاکرات کا پہلا دور شروع ہوتے ہی افغانستان کے شہر غزنی پہ شب خون اور فریاب و کابل میں خودکش حملوں میں دو سو سے زیادہ شہری مارے گئے۔ افغانستان پہ حملے کو القاعدہ کے خلاف امریکی جنگ کا ابتدائی میدان سمجھا گیا۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا تھا کہ ''ہم نے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف عالمی جنگ شروع کردی ہے‘‘ لیکن امریکی یلغار کو اٹھارہ سال بیت جانے کے باوجود عالمی طاقتیں افغانستان کی شورش پہ قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، یہاں سول وار کے دائرے بتدریج وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔ سقوط کابل کے ایک سال بعد2002 ء میں شروع ہونے والی طالبان کی مسلح مزاحمت 2006ء تک پورے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق انہی پانچ سالوں میں افغان اور نیٹو فورسز پر حملوں میں 400 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا اور ان حملوں میں اموات کی تعداد 800 فیصد تک بڑھ گئی، خاص طور پر2005 ء اور 2006ء کے دوران خود کش حملوں کی تعداد27 سے بڑھ کر 139تک اور ریموٹ کنٹرول بم حملے787 سے بڑھ کر1677 تک جا پہنچے، جنگجوئوںکی طرف سے فورسز پہ گوریلا حملوں میں تین گنا اضافہ ہوا، ایک سال میں ایسے اٹیک 1558 سے بڑھ کر 4542 تک پہنچ گئے۔ صرف 2006-07میں دہشت گرد حملوں میں 27 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ امریکی ماہرین کے سامنے یہ سوال اہم تھا کہ ان حملوں میں اتنی تیزی سے اضافہ کیسے ہوا؟ سول وار کے حوالے سے 1945 سے لیکر اب تک کی جتنی بھی تھیوریز اور تجربات موجود تھے، ان میں سے کسی ایک تھیوری کا اطلاق بھی افغان خانہ جنگی پہ نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر ماہرین کا خیال تھا کہ نسلی تعصب دنیا میں بھڑکنے والی شورشوں کا بنیادی محرک بنا، دوسرا وسائل پہ تصرف کی حرص یا پھر کمزور انتظامیہ جو شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے ذریعے خانہ جنگی کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔ القاعدہ کی لیڈرشپ کا طالبان پہ گہرا نظریاتی اثرا تھا، القاعدہ کے زیر اثر طالبان نے افغانستان کے بڑے حصہ پر مضبوط حکومت قائم کر رکھی تھی‘ لیکن دو ہزار ایک کے امریکی حملے کے نتیجہ میں طالبان حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ریاست کا بنیادی ڈھانچہ بکھرگیا، بعد میں امریکی سرپرستی میں بننے والی افغان گورنمنٹ ریاستی ڈھانچے کی دوبارہ استواری میں کامیاب نہ ہو سکی اور شاید یہی کمزوری اس شورش کا بنیادی محرک بنی ہو۔ اب افغان حکومت کی فورسز اتنی کمزور ہیں کہ وہ بنیادی ڈھانچے سے محروم اس ملک میں امن قائم نہیں رکھ پائیں گی، اسی لئے شورش پسند گروپ اس انارکی سے فائدہ اٹھا کے جنگ کو طول دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر ہم دنیا میں تیزی سے پھیلتی جنگوں کی حرکیات کی طرف دیکھیں، تو ہمیں اس تباہی کا اصلی محرک عالمی جارحیت ہی نظر آئے گی، بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کی اکثریت مقامی سیاست کو عالمی سیاست سے الگ کرکے دیکھتی ہے، ان کا خیال ہے کہ مقامی سیاست میں ریاستی اتھارٹی گورنمنٹ کے سرکاری اداروں کی وساطت سے لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو کنٹرول کر سکتی ہے‘ لیکن عالمی سیاست میں ایسا کوئی انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہوتا جو طاقتور ممالک کی جارحیت روک کے دنیا بھر میں امن و امان کی صورت حال کو مستحکم بنا سکے۔ ہمارے پاس کسی چھوٹی ریاست کو طاقتور ملکوںکی جارحیت سے بچانے کا کوئی میکانزم موجود نہیں، لہٰذا بڑی طاقتوں کی جارحیت کے خلاف مزاحمتی تحریکیں سماج پہ سرکاری اداروں کی گرفت کمزور کر رہی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved