تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-11-2018

سرخیاں‘ متن اور تنقیدی آئینے

نیب پوچھ گچھ کر رہا ہے‘ بتایا نہیں کرپشن کہاں کی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نیب پوچھ گچھ کر رہا ہے‘ بتایا نہیں کرپشن کہاں کی‘‘ حتیٰ کہ یہ بھی نہیں بتایا کہ کرپشن کہاں نہیں کی‘ کیونکہ میں تو کام میں مصروف ہی اتنا رہا ہوں کہ کوئی ہوش ہی نہ رہتا تھا کہ کہاں سے کم آ رہا ہے اور کہاں سے زیادہ‘ بلکہ کئی منصوبوں میں تو ٹھیکے دار حضرات اور افسران ہی سب کچھ ہڑپ کر جاتے تھے اور میں دیکھتے کا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا؛ چنانچہ میں اس کا حساب ہی نہیں رکھ سکا تھا اور درگزر سے بھی کام لیا‘ کیونکہ ٹھیکیدار بھی اپنے تھے اور افسر بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''میرے راہداری ریمانڈ کے دوران بھی نیب والے مجھ سے تفتیش کرتے رہے‘‘ جو کہ انتہائی زیادتی ہے؛ حتیٰ کہ یہ اختیارات کو بھی کرپشن کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں‘ جن کا دینے کا مجھے اختیار نہیں تھا۔ اس لیے ان اختیارات پر عمل کرنے والوں کو بھی پکڑا جانا چاہئے تھا‘ تاہم یہ بھی اچھا ہی ہوا ورنہ وہ فہد حسین فہد اور احد چیمہ کی طرح سلطانی گواہ بن جاتے اور خود چھوٹ جاتے۔ آپ اگلے روز عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مجھے گرفتار کرنے کے لیے راستہ ڈھونڈا جا رہا ہے: زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''مجھے گرفتار کرنے کے لیے راستہ ڈھونڈا جا رہا ہے‘‘ حالانکہ معاملہ ہی اس قدر صاف ہے کہ راستہ ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ جبکہ صراطِ مستقیم بھی اسی کو کہتے ہیں ‘جبکہ میں خود بھی سیدھے راستے پر چلنے والا ہوں اور میرے سارے فرنٹ مین بھی؛ البتہ ایان علی کے وعدہ معاف گواہ بننے کی خبروں سے خاصی حیرت ہوئی ہے اور پریشانی بھی ‘لیکن اسے یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھٹو کیس میں وعدہ معاف گواہ بنے تھے۔ بھٹو کے ساتھ ساتھ وہ بھی ٹانگ دیئے گئے تھے۔ اس لیے اُسے بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاست وہ کرے ‘جسے آتی ہو‘‘ جیسا کہ میں اور نواز برادران کو ایک ہی کام آتا تھا‘ جو ہم نے اُسے اُس کی انتہائوں تک پہنچا دیا تھا۔ آپ اگلے روز نواب شاہ میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
فواد بیان بازی کی بجائے کام کر کے دکھائیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''فواد بیان بازی کی بجائے کام کر کے دکھائیں‘‘ اگرچہ میں بھی بطور وزیر اطلاعات بیان ہی دیا کرتی تھی‘ جبکہ کام صرف میرے قائدین ہی کرتے تھے اور انہیں کام کرتے دیکھنے میں بھی مصروف رہا کرتی تھی جو کہ بجائے خود ایک کام ہے‘ کیونکہ وہ کام ہی ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر صرف خاموش ہی رہا جا سکتا ہے‘ جبکہ فواد چوہدری کی قسمت میں تو اس طرح کا کام دیکھا بھی نہیں ہے جس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بنائے بغیر حکمرانوں کو خلاء میں نہیں جانے دیں گے‘‘جبکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمیں خلاء میں بھیجنے کے دوران کوئی حکومتی نمائندہ بھی ہمارے ہمراہ ہوگا۔ اس لیے ہم اکیلے ہی وہاں خیر و عافیت سے پہنچ سکتے ہیں اور ہم انہیں اس میں حصہ دار نہیں بننے دیں گے۔ خاطر جمع رکھیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
حکمران بڑا کشکول اٹھا کر بھیک مانگ رہے ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''نئے پاکستان کے حکمران بڑا کشکول اٹھا کر بھیک مانگ رہے ہیں‘‘ جو کہ ہمارے نزدیک انتہائی قابلِ اعتراض بات ہے‘ جبکہ اتنا بڑا کشکول اٹھانے کی بجائے چین کا دورہ کرنیوالے چھوٹے چھوٹے کشکول اٹھا کر بھی جا سکتے تھے‘ کیونکہ اس میں جو درجن بھر لوگ شامل تھے‘ اتنے ہی چھوٹے چھوٹے کشکول بھی کام دے سکتے تھے‘ جبکہ اتنا بڑا کشکول دیکھ کر تو خیرات دینے والا ویسے ہی ڈر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکمرانوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس جانے کی بجائے اللہ کے در پر جھکنا چاہئے تھا‘‘ اگرچہ ہم بھی اللہ کے در پر جھکتے ہیں‘ لیکن ابھی تک ہماری حکومت قائم نہیں ہو سکی‘ کیونکہ اللہ میاں کے در پر جھکنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں اعمال نامہ بھی ہونا چاہئے ‘جو کہ کچھ اتنا قابلِ رشک نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک حلف برداری تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
تنقیدی آئینے
یہ شاعر علی شاعر کے تنقیدی مضامین اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے‘ جو ان کے اپنے ہی اشاعتی ادارے رنگِ ادب پبلی کیشنز‘ کراچی نے چھاپا اور اس کی قیمت 900 روپے رکھی ہے۔ کتاب سفید کاغذ پر نسبتاً بڑی تقطیع میں چھاپی گئی ہے۔ انتساب جمیل جالبی کے نام ہے اورضخامت 264 صفحات ہے۔ ابتدا میں مطالعاتِ شاکر کنڈان میں سے اقتباس درج کیا گیا ہے۔ پس سر ورق مصنف کی تصویر اور صبا اکرام اور اے خیام کی توصیفی آراء درج ہیں۔ جن ادیبوں کو موضوع بنایا گیا ہے؛ ان میں حمایت علی شاعر‘ پروفیسر سحر انصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ڈاکٹر معین الدین عقیل‘ راجا رشید محمود‘ امجد اسلام امجد‘ ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ رفیع الدین رازؔ‘ سعید الظفر صدیقی‘ سہیل غازی پوری‘ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘ جان کاشمیری‘ لیاقت علی عاصم اور دیگران پر مضمون اور اعجاز رحمانی‘ شاعر صدیقی‘ عابد معیزاور ریاض ندیم نیازی کے انٹرویوز شامل ہیں۔ آخر پر مصنف کا تعارف درج ہے‘ جس کے مطابق آپ سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ 100 سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں اور چھ مختلف ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ وجہِ شہرت شاعری اور تنقید نگاری ہے۔ دیگر اصناف سخن میں افسانہ نگاری‘ ناول نگاری اور صحافت شامل ہیں ‘جبکہ کتابی سلسلہ رنگِ ادب کراچی کے مدیر اعزازی بھی ہیں۔
آج کا مطلع
یہی نہیں کہ لہکتی ہوئی ہوا چُپ ہے
کئی دنوں سے ہمارا وہ بے وفا چُپ ہے

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved