سانپ نکل گیا ہے اور ہم لکیر پیٹ رہے ہیں ۔ ہم صحافی اکثر یہی کچھ کرتے ہیں۔ لٹیرے اپنا کام چلا لیتے ہیں اور ہمارے جیسے لوئر مڈل کلاس سے اوپر جانے والے ان کی مدد کر کے فخر محسوس کرتے ہیں کہ بڑے صاحب نے ہم سے بھی کوئی کام لیا ! فہمیدہ مرزا فرماتی ہیں سٹیٹ بنک نے کلین چٹ دے دی ہے اور انہوں نے کوئی قرضہ معاف نہیں کرایا ۔ واقعی ؟ پہلے سنتے تھے نیب اور ایف آئی اے وہی کچھ کرتے ہیںجو ایوان اقتدار سے کہا جاتا ہے۔ اب سٹیٹ بنک افسران کی وفاداری کا امتحان ہے۔ اپنے حکمرانوں کے لیے کئی افسران اپنا تن من دھن ان سیاستدانوںپر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں تاکہ بے چارے یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، شریف برادران، مونس الٰہی، امین فہیم اور فہمیدہ مرزا کو کچھ نہ ہونے پائے۔ ستمبر 2012ء میں سٹیٹ بینک نے ہی سینکڑوں صفحات پر مشتمل بینکوں کی دستاویزات قومی اسمبلی میں جمع کرائیں کہ پچھلے چار سالوں میں125 ارب روپے کا قرضہ معاف کرایا گیا ۔ ان دستاویزات کے مطابق ، فہمیدہ مرزا اور ذوالفقار مرزا نے اپنی مرزا شوگر مل کے خلاف 2009ء، 2008ء، 2006ء میں تین قرضے معاف کرائے جن کی کل مالیت 17 کروڑ روپے بنتی تھی۔ وزیراعظم گیلانی کی بیگم نے دو قرضے معاف کرائے۔ ملتان کے ایک خواجہ نے گیلانی کی مہربانی سے پچاس کروڑ روپے قرضہ معاف کرایا۔ بدلے میں بینک کے صدر علی رضا نے ایک سال نوکری میں توسیع لے لی ۔ اب گیلانی نے ملتانی خواجہ سے کیا کچھ لیا ، یہ اور کہانی ہے۔ شیخ ساجد امجد(بلک سٹوریج کراچی) نے بارہ ارب روپے کا قرضہ معاف کرایا۔ قرض معاف کرانے والوں نے شیخ ساجد سے کتنے ارب لیے، یہ ایک اور کہانی ۔ ایک خاتون ثمینہ اسد نے ایک ارب بیس کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرایا ۔ اب فہمیدہ مرزا کہتی ہیں انہیں اسٹیٹ بنک نے کلین چٹ دے دی ہے ۔ کیسے دے دی ہے ؟ چھ ماہ پہلے قومی اسمبلی میں ان کی قرضہ معافی کا ریکارڈ پیش کیا گیا اور اب کہتے ہیں کہ قرضہ معاف نہیں ہوا۔ فرماتے ہیں عدالت کے ذریعے سیٹل کرایا تو دستاویزات میں لکھا ہے کہ انہوں نے اسٹیٹ بنک کے سرکلر29 کے تحت معاف کرایا ہے۔ کوئی بتائے گا فہمیدہ مرزا کتنا ٹیکس ادا کرتی ہیں کہ ہمارے ٹیکسوں سے سترہ کروڑ روپے قرضہ معاف کرایا ، امریکہ میں ذاتی علاج پر چالیس لاکھ روپے خرچ کیے، سرکاری خرچے پر تاحیات نوکر چاکر منظور کرائے، تاحیات اپنا میڈیکل بل منظور کرایا ، پروٹوکول کے لیے 45 لاکھ روپے کی نئی گاڑی خریدی ، ایک سال میں ڈھائی کروڑ روپے کے غیر ملکی دورے کیے، ارکان پارلیمنٹ کے الاونس ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ روپے کیے۔ چالیس سالہ پی آر او نوجوان کو جوائنٹ سیکرٹری بنانے کا منفرد عالمی ریکارڈ قائم کیا، گریڈ سترہ سے اکیس تک116 بھرتیاں کیں۔ الٹا ریٹرننگ افسر کو دبانے کے لیے کہا ان سے وہ سوال و جواب کرے جو ان سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ۔ واقعی ان سے زیادہ پرہیز گار اور متقی کون ہوسکتا تھا جو اتنا کچھ ریاست سے مفت میں لیتا ہو۔ ریٹرننگ افسر نے بھی فہمیدہ مرزا کا چیلنج قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان سے زیادہ متقی، صادق اور امین ثابت کر دیا۔ تالیاں ! چلیں فہمیدہ مرزا تو ایماندار ٹھہریں، نواز لیگ کے ایم این اے انجم عقیل خان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ موصوف نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کے ساتھ چھ ارب روپے کا فراڈ کیا۔ میں نے جنوری 2011ء میں سکینڈل بریک کیا۔ ایف آئی اے نے تفتیش شروع کی تو بارہ صفحات پر مشتمل اعترافی بیان لکھ کر دیا کہ میں نے چھ ارب روپے کا فراڈ کیا ہے اور پیسے لوٹائوں گا ۔ کچھ واپس بھی کیے اور باقی ایف آئی اے اور رحمن ملک کے ساتھ مل کر ہضم کر گئے۔اخباری دوستوں سمیت سب کی چونچ گیلی کرائی۔ ایف آئی اے کا چالان عدالت میں پڑا سڑ رہا ہے۔ انجم عقیل دن دہاڑے اسلام آباد تھانے میں ساتھیوں کے ساتھ حملہ کر کے فرار ہوگئے اور پوری قوم نے ٹی وی پر فرار کا فلمی سین دیکھا ۔ انہیںبھی پولیس فائونڈیشن کولوٹنے اور فرار ہونے کے انعام کے طور پر کلین چٹ مل گئی اور وہ اب الیکشن لڑیں گے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت نواز شریف اور شہباز شریف کے سامنے انجم عقیل خان کے خلاف سکینڈل کی خبریں اور کالم پیش کیے گئے تو فرمایا یہ کون سی بڑی بات ہے، اخبار تو سکینڈل چھاپتے رہتے ہیں۔ ایک قابل احترام کالم نگار کا اردو کالم میاں صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو بولے چھوڑیں جی ان کے کالم کا کیا نوٹس لینا ۔ اس پر شہباز شریف مسکرائے اور بولے میاں صاحب اب ایسے تو نہ کہیں، یہ کالم نگار کبھی آپ کے استاد بھی رہے ہیں ۔ ایک قہقہہ پڑا اور قہقہوں کی گونج میں انجم عقیل خان کو کلین چٹ مل گئی۔ رہے نام اللہ کا۔ دوسری طرف نواز شریف اور شہباز شریف کو اربوں روپے کے قرض واپس نہ کرنے کے باوجود کلین چٹس مل گئی ہیں ۔ حمزہ شہباز نے نواز شریف پر عائد چھ کروڑ روپے کے جرمانے نیب کو قسطوں میں ادا کیے۔ منظور وٹو نے نیب کو چھ کروڑ روپے یہ لکھ کرادا کیے کہ انہوں نے بیت المال کا مال کھایا تھا ، پھر بھی کلین چٹ مل گئی ۔ ہمایوں اختر، گوہر ایوب ، سیف اللہ فیملی نے قرض معاف کرائے، پھر بھی آل کلیئر۔ حاجی غلام احمد بلور ریلوے میں دس ارب روپے چینی انجنوں کے سکینڈل کے ذمہ دار ہیں، اوروہ بھی کلیئر۔ آل کلیئر کی فہرست بہت طویل ہے۔ ریٹرننگ افسر نے امیدواروں سے نہیں پوچھا آپ نے کوئی قرضہ معاف کرایا ، قرضہ واپس نہیں کیا، ٹیکس دیا یا ٹیکس چوری تو نہیں کی۔ آپ پر کوئی مقدمہ تو نہیں ہے ؟ یہ سوالات آرٹیکل 63 کے تحت پوچھے جانے ضروری تھے۔ جب وقت آیا کہ معاشرے کو بنک لٹیروں، ٹیکس چوروں ، فراڈیوں سے نجات دلائی جائے جو سیاست کو کرپشن کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو اس وقت ہی سب نے چپ سادھ لی۔ ایک ریٹرننگ افسر یہ کام کرنے کو تیار نہیں کہ وہ اس اہم مرحلے پر کرپٹ لوگوں کو الیکشن نہ لڑنے دیں تاکہ وہ پارلیمنٹ پہنچ کر نئی لٹ مار نہ کریں اور سیاسی اثرو رسوخ کو اپنی کرپشن چھپانے کے لیے استعمال نہ کریں۔ جو کام ایک ریٹرننگ افسر مقابلے کا امتحان پاس کرنے اور کئی برس عدالت لگانے کے باوجود کرنے کی جرات نہیں کرسکا ، اس کی توقع عوام سے کیسے کی جاتی ہے کہ وہ ہمیں کلین قیادت فراہم کریں گے ؟ لوگ کہتے ہیں کہ فخرو بھائی اس کڑے امتحان میں ناکام ہوئے ہیں ۔ بھلا فخرو بھائی اس رومانس سے باہر نکلتے تو کچھ کرتے کہ وہ سب پارٹیوں کے متفقہ کمشنر ہیں ۔ اب فخرو بھائی سے کیا شکوہ کہ آخر لکھنؤ کے بزرگ کی کہاوت کے بقول ’’مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘ اور ویسے بھی Hobbit فلم کا ایک کردار کہتا ہے: Nothing is free in this world, exept grace of God !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved