کون ہے‘ جو داد کا طالب نہیں؟ کس کے دل میں یہ تمنا نہیں کہ لوگ خوب سراہیں؟ سراہے جانے کی چاہ میں لوگ خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں۔ قابلِ ستائش ٹھہرنے کے لیے لیاقت اور لگن کافی نہیں‘ محنت بھی بہت کرنا پڑتی ہے۔ محنت کے نتیجے ہی میں آپ کی کارکردگی نمایاں ہوکر‘ ابھر کر سامنے آتی ہے اور لوگوں کو اندازہ ہو پاتا ہے کہ آپ کیا کرسکتے ہیں۔ آپ کو داد اسی بنیاد پر تو ملتی ہے کہ آپ میں کیا کچھ کر گزرنے کی صلاحیت ہے۔ عمومی سطح پر رہتے ہوئے کچھ یا بہت کچھ کرنا آپ کو قابلِ دید بناتا ہے ‘نہ قابلِ داد۔
اگر داد کی طلب ہے‘ تو کچھ ایسا کیجیے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز اور بلند کرے۔ سیدھی سی بات ہے‘ دنیا کو اس بات سے کیا غرض کہ آپ کیا چاہتے ہیں‘ کیا پانے کی تمنا ہے‘ کس طرح کی آسائشیں حاصل کرنے کی آرزو ہے۔ دنیا آپ میں اُسی حد تک دلچسپی لے گی‘ جس حد تک آپ دنیا کے لیے قابلِ توجہ ٹھہریں گے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ آپ ایسا کچھ کریں ‘جو دوسروں کے لیے کسی نہ کسی حیثیت میں مفیدہو‘ قابلِ غور ہو۔
ہم زندگی بھر جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی اعتبار سے دوسروں کے لیے کام کا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو‘ تو کوئی بھی ہمیں بالکل قبول نہ کرے۔ ہم جب دوسروں کے کام آتے ہیں‘ یعنی اُن کے لیے کام کے ثابت ہوتے ہیں‘ تب ہی معاملات درست انداز سے آگے بڑھتے ہیں۔ انسان جب تک سانس لیتا ہے کام کرتا ہے۔ یہی اُس کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ جو لوگ کام کو عظمت کے حصول کا ذریعہ سجھتے ہیں‘ وہ مرتے دم تک اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر متوجہ رہتے ہیں۔
کام کرنے کی تحریک کس حقیقت سے ملتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے‘ کیونکہ ہم میں سے بیشتر کو کام کرنے کے لیے مسلسل تحریک درکار ہوتی ہے۔ کام کرنے کی تحریک نہ ملے تو ڈھنگ سے کچھ کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ہم زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں‘ مگر سوال یہ ہے کہ کسی بھی کام کو اُس طور کیسے کیا جائے‘ جس طور وہ کیا جانا چاہیے۔ کم ہی لوگ اس نکتے پر غور کرتے اور معاملے کو سمجھ پاتے ہیں۔
ڈھنگ سے کام کرنے کی تحریک دو صورتوں میں ملتی ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان سراہے جانے کے لیے کام کرے اور لوگ سراہیں۔ اس دنیا میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں ‘جس کے دل میں سراہے جانے کی آرزو انگڑائیاں نہ لیتی ہو۔ جب کوئی سراہتا ہے تو ہمارا خون بڑھ جاتا ہے۔ کام کرنے کی غیر معمولی تحریک ہمیں اُسی وقت مل پاتی ہے‘ جب کوئی ہمارے وجود‘ صلاحیتوں اور کام کرنے کی سکت کو سراہتا ہے۔ جب کوئی سراہتا ہے تو خون بڑھ جاتا ہے‘ دل خوشی سے کِھل اٹھتا ہے‘ رگ رگ میں تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے‘ انگ انگ میں عجیب سی توانائی رواں ہو جاتی ہے۔
چاہے جانے کے ساتھ ساتھ سراہے جانے کی خواہش بھی ہر دل میں ہر وقت انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ جو لوگ بظاہر ستائش کے طالب دکھائی نہیں دیتے اور سراہے جانے پر خوش بھی نہیں ہوتے ‘وہ بھی دل ہی دل میں عجیب سی طمانیت ضرور محسوس کرتے ہیں۔ ستائش کسی پر خوش گوار اثرات مرتب نہ کرے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ستائش سے بظاہر بے تعلق و بے نیاز افراد بھی چاہتے ہیں کہ کوئی کارکردگی کی بنیاد پر سراہے!۔
مگر کیا ہم صرف داد کے طالب ہوتے ہیں؟ اور کیا محض داد ہمارے لیے کافی ہے؟ ان دونوں سوالوں پر ہر اُس انسان کو ٹھنڈے دماغ سے غور کرنا چاہیے ‘جو زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کا خواہش مند ہو۔ ہم میں سے کون ہے‘ جو یہ نہیں چاہتا کہ زندگی زیادہ سے زیادہ بارآور ہو‘ ہمیں زیادہ سے زیادہ ملے اور دنیا کو ہم کچھ زیادہ دینے کے قابل ہو پائیں؟ بھرپور زندگی بسر کرنے کی خواہش کم و بیش ہر دل میں ہوتی ہے اور پروان بھی چڑھتی رہتی ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا ہم سب کا فرض ہے کہ کیا ہماری کارکردگی صرف داد کے لیے ہونی چاہیے۔ داد کی طلب بھی بالکل فطری امر ہے ‘مگر زندگی مجموعی طور پر اِس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔
ہم جوکچھ بھی کرسکتے ہیں‘ اُسے بہترین انداز سے انجام تک پہنچانے پر ہمیں کیا درکار ہوتا ہے؟ معاوضہ اور داد۔ دونوں ہی معاملات میں ہم پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔ ایک طرف تو ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی ہم کریں اُس کا بھرپور معاوضہ ملے اور دوسری طرف بھرپور داد کی بھی طلب رہتی ہے۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کا معاوضہ تو ملنا ہی چاہیے اور معاوضہ جامع ہونا چاہیے‘ یعنی جتنا اور جیسا کام اُتنا اور ویسا معاوضہ۔ ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ جب ہمیں کام کا بھرپور معاوضہ مل ہی گیا تو داد کیوں ملے؟ انسان معاوضہ پانے کے بعد بھی داد کا طالب رہتا ہے۔ یہ بھی فطری امر ہے۔ معاوضے سے انسان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اُصولی طور پر تو کسی بھی انسان کو بھرپور معاوضہ ملنے پر داد کا طالب نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اگر کسی کے لیے بلا معاوضہ کچھ نہیں کرتے ‘تو پھر داد کیوں ملے؟ مگر داد و ستائش فطری امر ہے۔ داد کے بغیر ہمارا پیٹ نہیں بھرتا۔
معاوضے کے ساتھ داد کا خواہش مند ہونا تو عام ہے‘ مگر ایک بہت بڑی حقیقت کو بالعموم نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی تو ہوتا ہے کہ کسی کو بھرپور محنت کے باوجود معقول معاوضہ مل پاتا ہے نہ داد۔ اس کے باوجود کام کرنے کا جذبہ زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔ بھرپور لگن برقرار رہتی ہے اور کام جاری رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ... یہ سوال آپ کے ذہن میں ضروری ابھرتا ہوگا یا یہ سطور پڑھ کر ضرور ابھرا ہوگا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ معاوضے اور داد سے بھی بڑھ کر ایک حقیقت ہے ‘جو نظر انداز کردی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے اپنے کام پر فخر ہونا۔ ہر انسان کے لیے اُس کی صلاحیت اور سکت سرمایہ و ذریعۂ افتخار ہے۔ کسی بھی حوالے سے کی جانے والی محنت کا کچھ معاوضہ ملے یا داد ... اس سے بہت پہلے خود متعلقہ فرد کے دل کو سکون بھی تو ملنا چاہیے‘ فخر بھی محسوس ہونا چاہیے کہ ڈھنگ سے کچھ کیا ہے۔ یہ عزتِ نفس کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی شخص جو کچھ کرتا ہے ‘وہ کسی اور کی نظر میں اہم ہو نہ ہو‘ خود اُس فرد کی نظر میں تو لازماً اہم ہونا چاہیے۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہی حقیقی معاوضہ ہے اور یہی حقیقی ستائش۔
اگر آپ عمومی سطح سے بلند ہوکر‘ بھرپور لگن کے ساتھ اپنی صلاحیت اور سکت کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں تو معاوضے اور داد کی خواہش سے کہیں بڑھ کر آپ کو اپنی کارکردگی پر فخر محسوس کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جو کچھ آپ پورے انہماک اور محنت سے کرتے ہیں ‘اُس پر سب سے زیادہ آپ کو فخر محسوس ہونا چاہیے ‘تاکہ مزید کام کرنے کی لگن برقرار رہے۔ بھرپور صِلہ ملتا ہے یا نہیں اور خوب تالیاں بجائی جاتی ہیں یا نہیں‘ اس فکر میں غلطاں رہنے سے کہیں بڑھ کر آپ میں اس بات کا احساس پایا جانا چاہیے کہ جو کچھ آپ نے پوری لگن‘ توجہ اور محنت سے کیا ہے‘ اُس پر فخر کرنا آپ کا حق اور فرض ہے۔ آپ کی یہی روش آپ کو اپنی نظر میں بلند کرکے مزید محنت کرنے کی لگن اور سکت عطا کرتی رہے گی۔