تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     09-11-2018

منو بھائی زندہ ہیں!

''منو بھائی کا حکم ہے کہ آصف عفان سے کہو کل شام سندس فاؤنڈیشن ہر سال کی طرح ضرور پہنچے، نہ پہنچنے کی صورت میں وہ خواب میں آ کر وہ خود ہی پوچھ لیں گے کہ کیوں نہیں آیا‘‘؟ ان الفاظ کے ساتھ گزشتہ روز یاسین خان نے دعوت نامہ دے کر تاکید کی کہ مہمانوں کی طرح نہیں میزبان بن کر مقررہ وقت سے پہلے آنا‘ جس طرح منو بھائی کی زندگی میں باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ 
میرے جیسے خاکسار سمیت سہیل وڑائچ، خالد عباس ڈار، سہیل احمد (عزیزی)‘ خواجہ سلمان رفیق اور چند دیگر احباب کو منو بھائی اپنی زندگی میں ہی پابند کر گئے تھے کہ سندس فاؤنڈیشن میں زیر علاج تھیلیسیمیا کے بچوں کو کبھی مایوس نہ کرنا۔ ان کی خدمت اور صحت کیلئے جب بھی آواز دی جائے تو ''لبیک‘‘ کہنا۔ 
بلاوا ہو منو بھائی کا اور حاضری نہ ہو... ایسا تو قطعی ممکن نہیں۔ حسبِ پروگرام سندس فاؤنڈیشن پہنچا تو تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کی کثیر تعداد اُجلے اور زرق برق ملبوسات میں ہاتھوں میں پھول لیے دردِ دل رکھنے والے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو خوش آمدید کہنے کیلئے ان کی آمد کے منتظر تھے۔ اس کے علاوہ سندس فاؤنڈیشن کے معاملات اور اخراجات رواں دواں رکھنے کیلئے منو بھائی کے درجنوں کارکن اور پیروکار بھی انتہائی گرم جوشی سے مہمانوں کے استقبال اور خاطر تواضع کے انتظامات میں مصروف تھے۔ چوہدری سرور پہنچنے کے بعد سب سے پہلے سندس فاؤنڈیشن میں موجود ان بچوں کے پاس گئے جو اس وقت انتقالِ خون کے عمل سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے بچوں کی خیریت دریافت کی، تحفے تحائف تقسیم کیے اور متاثرہ بچوں کی حوصلہ افزائی کی۔ 
گورنر پنجاب نے حاضرین محفل کو مخاطب کرکے منو بھائی کے اس کارِ خیر اور مشن کو آگے بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا: بلا شبہ منو بھائی وہ کام کر گئے ہیں کہ کوئی بھی ذی شعور اور دردِ دل رکھنے والا شخص ان کے نام کے ساتھ مرحوم لگانے کی ''جرأت‘‘ اور ''ہمت‘‘ نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر متاثرہ بچے اور ان کے والدین‘ جو اس مرض کے عذاب کو مسلسل جھیل رہے ہیں، جو روز جیتے اور روز مرتے ہیں، منو بھائی ان کے دِل و دماغ سے کیسے دور جا سکتے ہیں؟ منو بھائی کے روشن کیے ہوئے چراغوں کی روشنی آج بھی ان معصوم بچوں اور ان کے اہلِ خانہ کے چہروں پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان بچوں کی اُمیدوں کے چراغ انشاء اﷲ ہمیشہ روشن رہیں گے۔ منو بھائی زندہ ہیں... اور زندہ رہیں گے۔ اس کارِ خیر کا کارواں رواں دواں رہے گا۔ 
گورنر پنجاب کو یہ بھی بتایا گیا کہ ''نئے پاکستان‘‘ نے سندس فاؤنڈیش کی مالی معاونت بند کر دی ہے جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کے علاج معالجہ میں دشواری کا سامنا ہے‘ جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ متعلقہ حکام سے خود بات کریں گے اور فنڈز کی بحالی اور فراہمی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ 
تقریب میں منو بھائی کے ذکر پر ان کی اہلیہ آنٹی اعجاز آبدیدہ اور جذباتی ہو گئیں۔ موقع پر موجود ان کے صاحبزادے کاشف منیر، صاحبزادی سجل ناصر، بہو فوزیہ کاشف، داماد ناصر جمیل نے انہیں حوصلہ اور سنبھالا دیا۔ آنٹی اعجاز بھی انتہائی شفیق اور حوصلے والی عظیم خاتون ہیں۔ ان کے گھر کے صدر دروازے سے لے کر کچن تک تمام دروازے ہمارے لیے ہمیشہ کھلے رہے۔ برادرِ محترم آغا اسلم (مرحوم) اور میں جب بھی ان کے گھر جاتے تو پہلے کچن میں جا کر ہانڈیاں جھانکتے کہ آج کیا پکایا ہے اور پھر فریج سے اپنی مرضی کا پھل اور دوسری چیزیں لے کر منو بھائی کے پاس آ بیٹھتے۔ 
تقریب کے اختتام پر علی رؤف نے کہا کہ ابھی نہیں جانا‘ ''بابے‘‘ (منو بھائی) کے کمرے میں بیٹھ کر ان کی من پسند کافی پیتے ہیں۔ میں لا جواب ہو کر منو بھائی کے کمرے میں آ گیا۔ اس کمرے کے دروازے پر منو بھائی کے نام کی تختی آج بھی ان کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے۔ پھر خالد عباس ڈار، سہیل احمد (عزیزی)، شہباز میاں، عامر مرزا، شاہد قادر اور خالد رحمان بھی منو بھائی کے کمرے میں ''حاضری‘‘ کیلئے آ گئے۔ وہاں بیٹھ کر منو بھائی کے ساتھ اپنی اپنی یادیں اور باتیں شیئر کرتے رہے۔ محفل میں ہر شخص کا دعویٰ اور اعتماد یہی تھا کہ منو بھائی سے اس کا تعلق غیر معمولی اور دوستانہ تھا۔ 
میرے لیے یہ اَمر بھی باعث تفاخر اور باعث اعزاز ہے کہ وہ مجھے اپنا ''یار‘‘ کہتے اور یاری کے تمام تر تقاضوں کے عین مطابق مجھے زبان و بیان کے حوالے سے کھلی آزادی بھی دے رکھی تھی‘ جس کا میں نے ہمیشہ ''ایڈوانٹیج‘‘ لیا۔ یہ ان کی محبت اور شفقت تھی کہ انہوں کبھی عمروں کے فرق اور منصب کو تعلق کے درمیان حائل نہیں ہونے دیا۔ چند دن غیر حاضری کیا ہوتی فون آ جاتا اور اپنے مخصوص انداز میں کہتے ''کتھے رہ گیا ایں یار، آیا نئیں‘‘ جواب میں ہمیشہ یہی کہتا ''بابا جی! کوتاہی ہو گئی، جلد حاضر ہوتا ہوں‘‘ اور پھر وہ دئیے گئے وقت پر میرا انتظار کرتے، تاخیر ہونے پر فون کرکے پوچھتے ابھی تک کیوں نہیں پہنچا۔ 
برادرم نوید چوہدری کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کی صدارت انہوں نے میرے اصرار اور فرمائش پر کی۔ یہ اُن کی زندگی کی آخری تقریب تھی، جبکہ فریکچر اور دیگر بیماریوں کے باعث طبیعت کافی ناساز تھی۔ وہ میرے اور عامر مرزا کے ساتھ تقریب میں آئے، ان کی وہیل چیئر کو دوستوں نے اٹھا کر سٹیج پر رکھا۔ اس طرح نوید چوہدری کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کو چار چاند لگ گئے۔ 
ایک مرتبہ میں ان کے پاس بیٹھا تھا اور گپ شپ چل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اچانک بے چین اور دماغی طور پر کہیں کھوئے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا: طبیعت تو ٹھیک ہے‘ تو بولے ''یار کوئی بچہ رو رہا ہے‘‘ میں نے کان لگائے تو مجھے کسی بچے کے رونے آواز نہیں سنائی دی لیکن ان کے اصرار تھا کہ کوئی بچہ رو رہا ہے۔ پھر بے اختیار کھڑے ہو گئے اور مجھے کہنے لگے: باہر چلو۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر لے آیا۔ وہ اپنی کان سنی آواز کی سمت خود ہی چل پڑے اور ٹھیک اُس بیڈ پر جا کر رُکے جہاں ایک پانچ سالہ معصوم بچہ رو رہا تھا اور پاس بیٹھی اس کی ماں اسے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ بچے کی ماں سے پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے؟ اس کے ماں بولی: جب بھی اِسے انتقالِ خون کیلئے لاتی ہوں تو ''انفیوژن سیٹ‘‘ کی سوئی کی تکلیف سے تڑپ اٹھتا ہے۔ منو بھائی بچے کے سرہانے ہی بیٹھ گئے۔ اس کے لیے جوس منگوایا اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک بچہ چپ نہیں ہو گیا۔ جب واپس اپنے کمرے میں لوٹے تو میں نے ان کے چہرے پر جو اطمینان اور سکون دیکھا وہ قابل بیان نہیں۔
منو بھائی بیس سال سندس فاؤنڈیشن سے منسلک رہے۔ آخری چار سال تو انہوں نے سندس فاؤنڈیشن کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ بیماری ہو یا کمزوری، سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا بارش کوئی رکاوٹ ان کے حوصلے اور جذبے کے آگے نہ ٹھہر سکی۔ تھیلیسیمیا کے بچوں کی فنڈ ریزنگ کیلئے وہ کئی کئی دِن سفر میں رہتے اور ان کی کوشش ہوتی کہ ان بچوں کیلئے بہترین سہولیات اور علاج معالجے کا بندوبست کیا جا سکے تاکہ ان کی تکالیف میں کمی ہو اور ان کی زندگی آسان اور معیاری ہو سکے۔ اکثر بین الاضلاعی دوروں کے بعد طبیعت ناساز ہونے پر انہیں چند دِن کیلئے ہسپتال میں زیرِ علاج بھی رہنا پڑتا۔ 
گزشتہ دو دہائیوں میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچے 7/8 سال سے زیادہ نہیں جی پاتے تھے‘ مگر اب یہ 30/40 سال زندگی گزار لیتے ہیں۔ جدید تکنیکی ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں اور اُمید کی جا رہی ہے کہ یہ اوسط عمر 40/60 سال تک ہو جائے۔ 
سندس فاؤنڈیشن جہاں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو تھیلیسیمیا سے آگاہی اور بچاؤ کی تعلیم دیتا ہے وہاں کوالیفائیڈ سٹاف کی نگرانی میں ''تھیلیسیمیا‘‘ سے متاثرہ بچوں کو خون کے سرخ خلیے اور ''ہیموفیلیا‘‘ سے متاثرہ بچوں کو خون کے سفید خلیے خوشگوار اور آرام دہ ماحول میں مفت فراہم کرتا ہے۔ رجسٹرڈ بچوں کو خون کے خلیوں کی فراہمی کے ساتھ ''تھیلیسیمیا‘‘ اور ''ہیموفیلیا‘‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پیچیدگیوں اور جملہ امراض سے بچاؤ کیلئے بھی تمام بہترین سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ 
سندس فاؤنڈیشن کی بے مثال خدمات کا منہ بولتا ثبوت یہ بھی ہے کہ بہت جلد ''منو بھائی ہسپتال‘‘ کے منصوبے پر کام شروع ہونے جا رہا ہے‘ جس میں ایک چھت تلے کینسر سمیت، خون سے متعلق تمام موذی اور جان لیوا بیماریوں کا علاج جدید ترین ٹیکنالوجی سے کیا جائے گا اور ''منو بھائی زندہ رہیں گے‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved