تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-11-2018

غیر سیا سی اور نا تجربہ کار ہی ٹھہرے

30 ستمبر کی رات پاکستان بھر کے ٹیلی ویژن چینلز پر یہ خبر انتہائی دلچسپی اور خوشی سے دیکھی اور سنی گئی کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پٹرول ڈھائی روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں ساڑھے چھ روپے تک کی کمی کر دی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اس فیصلے پر عوام کا رد عمل دکھانے کیلئے کسی بھی ٹی وی چینل نے اس رات یا گلے دو چار روز تک اپنا کیمرہ‘ کسی بھی پٹرول پمپ پر عوامی تاثرات دکھانے کیلئے نہیں بھیجا‘لیکن جیسے ہی31 اکتوبر کو پٹرول پانچ روپے اور ڈیزل ساڑھے چھ روپے مہنگا ہونے کا اعلان ہوا‘تو پاکستان کے ہر بڑے شہر کے پٹرول پمپ پر پٹرول لینے کیلئے آنے والے موٹر سائیکل سواروں اور گاڑیوں والوں کے تاثرات لینے کیلئے الیکڑونک میڈیا نے دھاوا بول دیااور ہم آواز ہو گیا کہ مہنگائی کا طوفان آرہا ہے‘ عمران خان نے کیا وعدے کئے تھے اور یہ کیا ہو رہا ہے؟ ساتھ ہی پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کا ہر چھوٹا بڑا لیڈر ‘ٹی وی ٹاک شو زمیں پٹرول کی بڑھائی گئی‘ ان قیمتوں کے کوڑے تحریک انصاف پر برسانے لگااورانہیں یہ موقع کسی اور نے نہیں‘ بلکہ وزیر خزانہ سمیت وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھے غیر سیا سی لوگوں کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ملا۔الغرض مروجہ سیاست میں تحریک انصاف کی حکومت کو اگر مس فٹ حکومت کہا جائے‘ تو غلط نہ ہو گا۔ انگریزی کا مشہورمقولہYou asked for it تحریک انصاف پر لاگو ہوتا ہے۔
اگرپاکستان میں تیس برس کا طویل تجربہ رکھنے والوں‘ عوام کو بیوقوف بنانے والوں اور ان کے جذبات سے کھیلنے کا فن جاننے والوں کی حکومت ہوتی ‘تو جو فیصلہ تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے30 ستمبر کو کیا‘ وہ نہ کیا جاتا‘ بلکہ پٹرول کی قیمتوں کو اسی طرح بر قرار رکھتے ہوئے پٹرول ڈھائی روپے سستا نہ کیا جاتا ‘ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی ساڑھے چھ روپے کمی نہ کی جاتی‘ تو اور 31 اکتوبر کو پٹرول کی موجودہ قیمتیں بڑھانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ڈیزل کی وہ قیمت جو 30 ستمبر کو 6.50 روپے فی لیٹر کم کی گئی تھی‘ تیس برس کا تجربہ رکھنے والی حکومت ہوتی ‘تو ان قیمتوں کو برقرار رکھتی اور اس طرح31 اکتوبر کو وہی کم کی گئی قیمت دوبارہ نافذ کرنے پر عمران خان کو تنقید اور تبدیلی کے نعرے کو ہدف تنقید بنانے کی نوبت ہی نہ آتی۔
ایک ٹی وی چینل پر یونیورسٹی اور کالج کے طالب علموں اور عام آدمیوں سے 31اکتوبر کو پٹرول کی بڑھائی جانے والی قیمتوں پر رد عمل پوچھا گیا‘ تو یہ جملہ تمام دن اور اگلی رات تک بار بار ٹی وی چینلز نے دکھایا کہ '' ہم نوجوان تو سمجھتے تھے کہ عمران خان تبدیلی لائیں گے‘ لیکن آتے ہی پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر انہوں نے ہم سب کو مایوس کر دیا ہے‘‘۔اب اس سوال کا جواب عوام پر ہی چھوڑ دیا جائے‘ تو بہتر ہو گا کہ پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو وہ کن نظروں سے دیکھتے ہے۔دیکھا جائے‘ تو کوئی اضافہ نہیں ہوا ‘پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں وہی ہیں‘ جو عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے وقت تھیں ‘جو کم کی گئیں‘ انہیں ہی دوبارہ نافذ کیا گیا‘ اس طرح ابھی تک وہی قیمتیں نافذ ہیں۔ سوائے‘ پٹرول کے ڈھائی روپے کے ۔
پنجاب میں جب میاں شہباز شریف کی حکومت تھی‘ تو اورنج لائن ٹرین کی تیاری کیلئے پہلی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی تو ایک سیکرٹری کی زبان سے نہ جانے کیسے نکل گیا '' سر! بہت سے چھوٹے چھوٹے شہروں میں سیوریج اور پانی کی پائپ لائنیں بچھادی جائیں ‘تو اورنج ٹرین پر خرچ کی جانے والی آدھی سے زائد رقم سے ہر قصبے اور تحصیل کیلئے پانی اور سیوریج کا انتظام انتہائی بہترین ہو سکتا ہے‘جس پر خادم اعلیٰ کہنے لگے: اورنج ٹرین تو سب پاکستانی دیکھیں گے ‘یہ زمین کے اند رپھینکے گئے پائپ کون دیکھے گا؟ اور یقین کیجئے شہباز شریف نے جو کچھ بھی کہا۔ وہ انہوں نے پنجاب کی عوام کی نفسیات جاننے کی وجہ سے کہا‘ کیونکہ اپنی نجی محفلوں میں وہ اکثر کہا کرتے کہ1993ء میں ہمیں جو ووٹ لاہور اور پنجاب بھر کے دوسرے علاقوں سے ملا‘ اس کا سہرا جیل روڈ پر بنایا گیا ہمارا انڈر پاس اور چوبرجی چوک کے ارد گرد کی دکانوں اور مکانوں کو گرانے کے بعد اس کے گرد نئی سڑک کو بنانے کی وجہ ملا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی سیا سی ناتجربہ کاری کی بات کریں‘ تووزیر اعظم ہائوس میں موجود بھینسوں کو ملکی خزانے پر بوجھ سمجھتے ہوئے انہیں بیچنے کا فیصلہ ہوا اور وہ تمام بھینسیں نیلام کر دی گئیں۔ اس دن سے لے کر آج تک آصف علی زرداری کی قیا دت کو سلام کرنے والے مولانا فضل الرحمن اور ولی خان گھرانے کے ساتھ ساتھ پی پی پی کے لیڈران اور ان کے اراکین اسمبلی اور مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے ورکروں نے آسمان سر پر اٹھایا ہو ا ہے کہ بھینسیں بیچ کر قرض نہیں اتارے جاتے!۔
ابھی کل ہی دنیا ٹی وی کے ہر دلعزیز پروگرام ''مذاق رات‘‘ میں مدعو کئے گئے نواز لیگ کے ایک رکن صوبائی اسمبلی بھی یہی فرما رہے تھے کہ تحریک انصاف کے نو عمر بچے بتائیںکہ بھینسیں بیچنے کے بعد انہوں نے ملک کا کون سا قرض اتارا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ یہ سطریں پڑھنے والوں نے بھی عمران خان کی حکومت پر نواز شریف دور حکومت میں وزیر اعظم ہائوس کے اصطبل میں رکھی جانے والی ان بھینسوںکی نیلامی پرپی پی پی اور نواز لیگ کی مشترکہ تضحیک کے کوڑے برستے دیکھے اور سنے ہوں گے۔اب کیا کیا جائے کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری صاحب سمیت وزیر اعظم عمران خان کی غیر سیاسی اور ناتجربہ کار ٹیم‘ جن کے نزدیک( میرے جیسے لوگ سخت ناپسندیدہ قرار دیئے جا چکے ہیں) کوئی بھی ٹی وی ٹاک شو اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث کے دوران یہ نہیں بتاتا کہ چلیں مان لیتے ہیں کہ ان پانچ یا آٹھ بھینسوں کی نیلامی سے ملک پر واجب الادا قرض نہیں اتارا گیا ‘لیکن ان بھینسوں پر اٹھنے والے سالانہ اخراجات بند ہونے کی وجہ سے لیا جانے والا قرضہ تو کم ہو ہی گیا ہے۔
میاں نواز شریف دور کے وزیر اعظم ہائوس کے سالانہ بجٹ کو سامنے رکھیں‘ تو کیا ان بھینسوں کی دیکھ بھال کیلئے کوئی ملازم نہیں تھا؟کیا تحریک انصاف کی کسی بھی قسم کی لیڈر شپ کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ہر بھینس کے ساتھ ایک ملازم رکھا ہوا تھا؟ اور ان ملازمین پر ایک سپر وائزر بھی تعینات تھا اور ان بھینسوں کی صحت اور دودھ کا معیار جانچنے کیلئے با قاعدہ ایک جانوروں کا ہسپتال تھا ‘جہاں ایک مستند ویٹرنری ڈاکٹر اور اس کا ایک اسسٹنٹ اور ساتھ ہی بھینسوں کے اس چھوٹے سے ہسپتال کیلئے ایک نائب قاصد تعینات تھا۔ کیا تحریک انصاف کے غیر سیا سی اور عمران خان کے سامنے نمبر ٹانکنے والے ذمہ داروں نے قوم کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بات ساہیوال کی ان نیلی بار کی آٹھ بھینسوں کی نہیں‘ جن کو بیچنے سے حکومت پاکستان کے خزانے میں چوبیس لاکھ روپے جمع ہوئے ہیں ‘بلکہ ان بھینسوں کی صحت اور دیکھ بھال کیلئے رکھے گئے دس سے زیادہ سٹاف کی تنخواہوں اور مراعات پر ہر ماہ اٹھنے والے لاکھوں روپوں کی بچت کی بھی ہے۔ اب اگر ویٹرنری ڈاکٹر سمیت دس ملازمین پر اٹھنے والی ماہانہ تنخواہیں چار لاکھ ہو تو ایک سال اور پانچ سال کی کتنی ہوں گی؟ بات تنخواہوں کی بھی نہیں ‘بلکہ ان بھینسوں کی بہترین اور صاف ستھری خوراک پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ بھی بتا نے کے علا وہ یہ بھی بتا دیا جاتا کہ ان کا صحت مند دودھ لینے کیلئے ان کو غیر ملکی مستند دی جانے والی ادویات پر نواز شریف دور کے پانچ سالہ عرصے میں اس ملک کے غریب اور مقروض عوام کے ٹیکسوں سے کتنے اخراجات اٹھائے گئے؟تو بھی اس اقدام کو نہ سراہا جاتا۔
اگر تیس برس کے تجربے والی سیا سی حکومت ہوتی ‘تو وہی کچھ کرتی ‘جو اس نے1993 ء میں آصف زرداری کے گھوڑوں کے ائر کنڈیشنڈ اصطبل کیلئے جام‘ شہد اور مربع جات کے حوالہ جات دیتے ہوئے کیا تھا‘ لیکن پی ٹی آئی والے غیر سیا سی اور نا تجربہ کار ہی ٹھہرے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved