تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     10-11-2018

قاسمی صاحب اور پرویزرشید

عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ہے،ماننا تو پڑے گا۔
کون ہے جو اس سے انکار کرتاہو؟ کوئی نہیں۔قانون کی حکمرانی پریقین رکھنے والا اس کاا نکار کیسے کر سکتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ عطاالحق قاسمی ہوں یا پرویزرشید،انہیں بھی اس اصول سے پورا اتفاق ہے۔باایں ہمہ،قانون کی یہ حکمرانی عدالتی فیصلوں سے اختلاف کا حق بھی دیتی ہے۔یہ اپیل کیا ہے؟یہی کہ اگر کسی کو عدالتی فیصلے سے اختلاف ہو تو وہ بالائی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔عدالتِ عظمیٰ فیصلہ دے تو اسی سے نظرثانی کی درخواست کی جا سکتی ہے۔یہ سب اپنی جگہ اور مسلمہ، میرا ذاتی مسئلہ مگراس وقت کچھ اور ہے۔قاسمی صاحب اور پرویزرشیدصاحب سے تعلقِ خاطر مجھے اس تشویش میں مبتلا کرتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ،نظرثانی کی درخواست بھی منظور نہ ہوئی تویہ بیس کروڑ روپے کہاں سے لائیں گے؟
قاسمی صاحب! آپ کیا کریں گے؟
تنخواہ جو آپ کو ملی وہ خرچ ہوگئی۔میں خود تنخواہ دار آدمی ہوں۔ جانتا ہوں کہ اسے لوٹا نا نا ممکن ہے۔آپ کو کالم کے لاکھوں روپے مل رہے تھے۔آپ نے پی ٹی وی میں آنے کے بعد ،وہ بھی واپس کر دیے۔رکھ لیے ہوتے تو آج کام آ جاتے۔پھرآپ وہ پیسے کہاں سے لائیں گے جن کو آپ نے دیکھا نہ چھوا۔جو کبھی آپ کے اکاؤنٹس میں نہیں گئے۔ یہ پی ٹی وی پر آپ کے پروگرام کے پرومو کا خرچ ہے۔یہ پی ٹی وی کیا،تمام چینلزکی تایخ کا پہلا اور یقیناً آخری واقعہ ہوگا کہ ایک اینکر کو اپنے چینل پر اپنے ہی پروگرام کے پرومو کا معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔تاریخ تو پھر اسی طرح بنتی ہے۔ہر تاریخی واقعہ پہلے ایک نیا واقعہ ہوتا ہے۔بعد میں تاریخ بن جا تا ہے۔
میں ایک مدت سے آپ کو پڑھتا ہوں۔آپ نے ایسا مزاح لکھا کہ سبحان اللہ۔ جملہ ایسا کہ پڑھ کربے اختیار قہقہہ لگانے کو دل چاہے۔اردو زبان کا دامن بے مثل مزاح نگاروں سے بھرا ہواہے لیکن ابن انشا اورآپ جیسی بے ساختگی کہاں سے لائیں؟ لگتا ہے لفظ آپ کی گرفت میں آتے ہیں تو انہیں گدگدی ہونے لگتی ہے۔معصوم بچوں کی طرح کھلکھلاکر ہنس پڑتے ہیں۔اب بچوں کو ہنستا دیکھ کر،کون ہے جواپنی ہنسی پر قابو رکھ سکے۔ہمارے ہاں تعریف سخن شناسی کا نہیں، فیشن کا اظہار ہے۔اس کے باوجود آپ کے فن کا اعتراف عام لوگوں میں ہے ا ور فن شناسوں میں بھی۔اگر لوگ آپ کے کام پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں تو حیرت کیسی؟
آپ نے ڈرامے لکھے تو نہال کر دیا۔کم لکھنے والے ہیں جنہوں نے ہماری معاشرت کو اس گہرائی کے ساتھ سمجھا ہوگا۔سماج کے حسن و جمال اور بد صورتی کو جس طرح منو بھائی ا ور آپ نے بیان کیا،اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ ''خواجہ اینڈ سن‘‘ میںمیرا سماج،اس طرح دواں رواں ہے کہ دیکھنے والا آپ کی انگلی پکڑ کر اس کی گلیوں میں کھو جا تا ہے۔
جب ٹی وی ڈرامہ زوال کا شکار ہوا تو میں آپ کو بہت یاد کر تا تھا۔بار ہا دل چاہا کہ اربابِ اقتدار کے پاس جاؤں اور ان سے کہوں کہ ٹی وی کو آپ کے حوالے کریں تاکہ اس کا وہ دور لوٹ آئے جب پی ٹی وی کا ڈرامہ سڑکیں سنسان کر دیتا تھا۔آج اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ فاسد خیال حقیقت نہیں بنا۔ورنہ تجویز کنندگان میں میرا نام بھی ہوتا۔میں کروڑوں روپے کہاں سے ادا کرتا۔میری تشویش یہ ہے کہ اب آپ کہاں سے ادا کریں گے؟
جناب پرویز رشید!سنائیں !آپ کروڑوں کہاں سے لائیں گے؟
میرے دل میں آپ کی بہت قدر ہے۔اپنے نظریات سے ایسی بے لوث وابستگی کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔پھر مشرف کے آمرانہ دور میں،آپ نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا،وہ اب خال خال ہے۔ آپ کی عزتِ نفس پر چرکے لگے‘ اس کے باوجود،آپ نے اپنے ملک سے وفاداری نبھائی۔ عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔وزیر ہوتے ہوئے بھی،سیاست کو کاروبار نہیں بنایا۔آج ،جب یہاں ایک جماعت کے استثنا کے ساتھ،سب چور قرار پائے،کوئی آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، یہ لفظ نہیں کہہ سکتا۔
آپ کوتو معلوم نہیں مگر ایک واقعے نے میرے دل میں آپ کی قدر میں بہت اضافہ کیا۔آپ وزیر اطلاعات تھے تو میں پی ٹی وی میں اینکر تھا۔میں نے ایک روز سرراہ ایک صحافی دوست سے ذکر کیا کہ گزشتہ دو تین سال میں تمام اینکرز کے معاوضوں میں کئی باراضافہ ہوا‘ میں واحد اینکر ہوں جو پرانی تنخواہ ہی پر کام کر رہاہے۔اتفاق سے ایک دعوت میں ہم تینوں اکٹھے ہو گئے۔ میرے دوست نے آپ سے میرے بارے میںشکایت کر دی۔آپ نے کہا:''یہ ایک پڑھا لکھا آدمی ہے۔ایسے آدمی کی معاشرے کو ضرورت ہے نہ اداروں کو۔‘‘میرے بارے میں آپ کے حسنِ ظن سے قطع نظر،آپ کی صاف گوئی مجھے بہت اچھی لگی۔میرے دل میں آپ کی قدر بڑھ گئی۔جب تک آپ وزیر رہے میرے معاوضے میں بھی ا ضافہ نہیں ہوا۔
میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو دو ماہ میں کروڑوں روپے دینا پڑے تو آپ کو کہیں سے قرض لینا ہوگا۔یہ وہ روپے ہیںجو کبھی آپ کے اکاؤنٹ میں نہیں آئے۔جن کے بارے میں آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں۔آپ نے محض یہ خیال کیا کہ پی ٹی وی ایک ثقافتی ادارہ ہے۔عطا الحق قاسمی جیسی قدآور شخصیت ہی سزاوار ہے کہ اسے پی ٹی وی کی باگ سونپی جائے۔یہ خیال آپ کو کروڑوں میں پڑا۔میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے دل میں فاسد خیالات بہت آتے ہیں۔ان کے نتیجے میں کبھی وزارت جاتی ہے اور کبھی کروڑوں روپے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے دل کو ایسے خیالات سے پاک کر لیں۔نہیں معلوم کل کیا قیمت دینا پڑ جائے۔ 
فواد صاحب کے بارے میں ،میں زیادہ نہیں جانتا۔بظاہر ایک سرکاری ملازم ہیں۔معلوم نہیں ادا کر پائیں گے یا نہیں۔'آشیانہ‘ کا حساب دیتے دیتے،اگر کچھ بچ گیا تو شاید! اسحاق ڈار صاحب کے لیے البتہ دو چار کروڑ مسئلہ نہیں ہو ں گے،اگر وہ اپنے اکاؤنٹس تک دسترس رکھتے ہیں۔
یہ اچھا ہوا کہ قاسمی صاحب کوہر ادارے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اب امید ہے وہ ساری توجہ لکھنے پڑھنے پر صرف کریں گے۔ اس کا ایک اضافی فائدہ ہوگا۔ تمام پڑھے لکھے لوگ اب سرکاری ملازمت کی پیش کش پر کانوں کو ہاتھ لگائیں گے، اگرانہیں اپنی عزت کچھ بھی عزیز ہو گی۔ادبیاتِ پاکستان، مقتدرہ قومی زبان اور دوسرے ثقافتی اور علمی ادارے اب ہمارے بیوروکریٹس چلائیں گے۔جب نئے خیال کا گزر نہیں ہو گا تو یہ ادارے بہت آرام سے چلتے رہیں گے،بغیر کسی علمی مداخلت کے۔یہ علم ہے جو مسائل پیدا کرتا ہے۔اس کو اداروں سے دیس نکالا دیناہی اچھاہے۔
فیصلہ نافذ ہو جا ئے گا۔قانون کی حکمرانی اور عدالت کے احترام کاتقاضا یہی ہے؛تاہم عدالتی فیصلہ دور رس سماجی مضمرات کا حامل ہو تا ہے۔تمیز الدین کیس میں دیے گئے فیصلے کے اثرات ساٹھ سال بعد بھی باقی ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے نتائج پر آج بھی بات ہوتی ہے۔یہ فیصلہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔اس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔یہ کیا ہوں گے،میرا خیال ہے کہ اس باب میں زیادہ قیاس آرائی کی ضرورت نہیں۔نوشتۂ دیوار پر قیاس آرائی کیسی؟ 
میری تشویش یہ ہے کہ قاسمی صاحب یا پرویز رشید کروڑوں روپے کہاں سے لائیں گے؟ ان کی طبیعت یہ کبھی گورا نہیں کرے گی کہ وہ نوازشریف صاحب جیسے کسی دولت مند دوست سے رجوع کریں۔سماجیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں تو یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ ایک عام آدمی اگر آگے بڑھنا چاہے تو عزتِ نفس کی حفاظت کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہوگا؟کیا اس کے لیے یہی ایک راستہ ہے کہ وہ ایم اے کرے،کسی کالج میں لیکچرار بن جائے اور خاموشی سے زندگی گزاردے؟اگر صلاحیت ہے توچند غزلیں یا کچھ افسانے لکھ کر چھوڑ جائے تاکہ بعد میں آنے والے اس پر پی ایچ ڈی کریں اور اعزاز پائیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved