تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-11-2018

کاک ٹیل

عطا قاسمی
عطا کے خلاف فیصلہ اس کے لیے تو مایوس کن ہوگا ہی، اس کے دوستوں کے لیے کچھ زیادہ ہی ہے۔ تاہم اُس کے پاس اپیل کا آپشن موجود ہے جس میں یہ فیصلہ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں تک (تقریباً) دس کروڑ کی ادائی کا سوال ہے تو اس کا حکم سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے ہونا چاہیے تھا ‘ جن کے خلافِ قانون اور زبانی حکم پر یہ تعیناتی کی گئی تھی کیونکہ عطا تو اپنا گھر بیچ کر بھی یہ رقم ادا نہیں کر سکتا۔ تاہم اس فساد کی ساری جڑ چونکہ میاں صاحب ہیں، اس لیے شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ یہ رقم صاحبِ موصوف خود ادا کریں کہ حقِ دوستی کا تقاضا بھی یہی ہے اور اس سے میاں صاحب کو کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑے گا اور اگر بالآخر عطا ہی کو ادا کرنی ہے اور اپیل میں بھی یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے تو بھی اسے گھر بیچنے کی غلطی ہرگز نہیں کرنی چاہیے بلکہ بہتر ہوگا کہ چپکے سے جیل چلا جائے، اور اگر اسے اڈیالہ جیل میں رکھا جاتا ہے تو وہاں میاں صاحب سے بھی آنکھیں چار ہوں گی۔ اسے کہتے ہیں، کرے کوئی، بھرے کوئی۔
ایک شعر کا معاملہ
اگلے روز شعر و شاعری کے حصے میں ضمیر طالب کا ایک شعر نقل کیا تھا جو اس طرح سے تھا
یہ جو چپ رہ کے بول سکتا ہوں
تیری آنکھوں سے سیکھا ہے میں نے
بظاہر تو شعر ٹھیک ٹھاک ہے اور میں کوئی اُستادی بگھارنے کی بھی کوشش نہیں کر رہا کیونکہ میں، خود بے اُستاد ہوں۔ نوجوان شعرا کو شاید اس سے کچھ فائدہ پہنچ سکے کہ اس میں تھوڑی تبدیلی سے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ گڑ بڑ (اگر کوئی ہے) تو اس کے مصرع ٔ ثانی میں ہے ایک تو ''سے‘‘ اور ''سیکھا‘‘ کی س کے ٹکرانے سے عیب تنافر کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور دوسرے ''سیکھا‘‘ کا الف گر رہا تھا۔ چنانچہ میں نے تھوڑی مرمت کر کے اسے اس طرح چھاپا تھا ؎
یہ جو چُپ رہ کے بول سکتا ہوں
تیری آنکھوں سے میں نے سیکھا ہے
اس طرح ایک تو یہ دونوں نقائص دُور ہو گئے، دوسرے مصرع اوّل کی طرح پروز آرڈر میں بھی آ گیا جس سے شعر کی خوبی میں اضافہ ہوا۔
سُرخاب کا نزول اور دیگر معاملات
سُرخاب صاحب کئی ماہ کی غیر حاضری کے بعد تھوڑی دیر تشریف لائے اور ادھر اُدھر مٹر گشتی کے بعد واپس چلے گئے۔ دوسرایہ انکشاف بھی ہوا کہ پیپل کے پتّے جب نکلتے ہیں تو گلابی رنگ کے ہوتے ہیں اور اپنا سائز مکمل کر کے دوسرے پتوں کی طرح سبز ہو جاتے ہیں۔ سٹرس کے پھلوں نے رنگ بدلنا شروع کر دیا ہے۔ سب سے پہلے گریپ فروٹ اور کھٹی اپنا رنگ بدلتے ہیں، بلکہ جھڑنا بھی شروع ہو جاتے ہیں، کِنوں اور موسمبی کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ البتہ لیموں ابھی تک اُسی طرح گہرے سبز ہیں۔ اس بار پھل بھی زیادہ آیا ہے۔ گلاب کے دو پودوں پر پھول آئے ہیں جو کسی نہ کسی طرح شاخ تراشی سے رہ گئے تھے۔ دوسرے پودوں پر شاخیں، پتّے اور پھول شاید اب مارچ اپریل ہی میں آئیں۔ پرندے، پیڑ اور گھاس خیریت سے ہیں۔ واک کا دائرہ بڑھا دیا ہے جس سے بہتر محسوس کرتا ہوں، مزید برآں ؎
اور کیا چاہیے کہ اب بھی، ظفر
بھوک لگتی ہے، نیند آتی ہے
عیادت
معلوم ہوا ہے کہ ہمارے سینئر ادیب نقاد اور افسانہ نگار جناب سلیم اختر شدید علیل ہو کر ہسپتال میں ہیں۔ کنول فیروز کے رسالے ''شاداب‘‘ کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ حضرات ناصر زیدی اور افتخار مجاز بھی بیمار ہیں محترمہ فہمیدہ ریاض اور سلیم کوثر کی صحت اب بہتر ہے البتہ سمیع آہو جا کی صورتِ حال جوں کی توں چلی آ رہی ہے، ان سب کی جلد صحت یابی کے لیے قارئین سے دُعا کی اپیل ہے۔
اور اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
وہ نیند اُڑ چکی ہے جو آئی نہیں کبھی
وہ خواب کھو گیا جو دکھایا نہیں گیا
ازبر تھا سارا عشق سبق سارا یاد تھا
اُس نے کہا سناؤ، سُنایا نہیں گیا
آنکھوں کو کھولیے کہ انہیں موند لیجیے
ویسے بھی کچھ نہیں تھا اور ایسے بھی کچھ نہیں (مقصود وفا)
طولِ کلام کے لیے میں نے کیا سوال
وہ مختصر جواب سے آگے نہیں بڑھا
اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
خطا وار سمجھے گی دُنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے (شہزاد نیر)
میں اُن دنوں میں بھی خود سے گریز پا نکلا
وہ جن دنوں مرا دُنیا سے عشق چل رہا تھا (غضنفر ہاشمی)
گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا
تو نے ہمیں کہیں سے نکلنے نہیں دیا (سعد اللہ شاہ)
دیکھ پھر سے ہُوا ہے عشق مجھے
دیکھ پھر سے ہرا بھرا ہوں میں
جاں ہتھیلی پہ تھی پتنگوں کی
جانے اُس شمعدان میں کیا تھا
اب تو آسیب ہے مرے گھر میں
قبل اس کے مکان میں کیا تھا (نوید فدا ستّی)
آج کا مطلع
جو آرہا ہے نظر وہ نظر کے ساتھ نہیں
ہمارا خواب کہیں بھی خبر کے ساتھ نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved