قرض نا دہندہ ہونے کے الزامات ، شہباز شریف کی ہیجانی پریس کانفرنس اور قانونی چارہ جوئی کی دھمکی ، بالآخر شریف برادران الیکشن کے لیے اہل ٹھہرے۔ قانونی موشگافیوں سے بے خبر میرے جیسے عامی الجھ گئے ۔کیا شریفین نے قرضہ لیا تھا؟ جی ہاں بالکل، مثلاً اتفاق فائونڈریز پر تین ارب ۔ کیا واپس کیا ؟ بالکل نہیں ۔اپنے ادارے انہوںنے قرض دینے والوں کے سپرد کر دئیے کہ بیچ ڈالیے اور اپنی رقم وصول کیجئے۔ جیسا کہ تہلکہ خیز حقائق بے نقاب کرنے والے محترم رئوف کلاسرہ نے بیان کیا ، میاں صاحبان کے رشتہ دار میاں معراج دین عدالت تشریف لے گئے کہ متنازعہ جائیداد بیچی نہیں جا سکتی ؛چنانچہ لاہور ہائی کورٹ نے حکمِ امتناعی جاری کیا ۔ جائیداد قرقی سے بچ گئی ۔قانوناً شہباز شریف درست فرما تے ہیں کہ وہ قرض نا دہندہ نہیں ۔خادمِ اعلیٰ نے نامور صحافی کو سمجھایا کہ ڈھائی ارب روپے والی جائیداد آج دس ارب کی ہو چکی۔ بیچ ڈالی جائے تو قرضے کے تین اور سود کے پانچ ارب ادا کر کے بھی بینکوں کو دو ارب لوٹاناہوں گے۔ معلوم نہیں کہ اپنے رشتہ دار کو سمجھا کر وہ جائیداد بکوا کیوںنہیں دیتے کہ دو ارب روپیہ وصول فرمائیںتاکہ مزید کاروبار کی راہ ہموار ہو۔ صرف یہی نہیں ، اور بہت سے قصے ہیں ۔ مثلاً اسلام آباد سے لاہو رجانے والی موٹروے جی ٹی روڈ سے 100کلومیٹر طویل ہے ۔ ایسا معمّہ کہ عقل گریبان پھاڑ کے جنگل کا رخ کرے۔ جتنی طویل سڑک ، اتنا زیادہ کمیشن ۔ کہا جاتا ہے کہ کم و بیش ایک ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ انہوںنے فرمائی ہے اور ثبوت جا بجا بکھرے ہیں ۔ عمران خان نے ایک تندور کا افتتاح کیا تو جواباً پنجاب حکومت نے اربوں روپے لٹا دئیے ۔ میٹرو بس کا جوازتھا بھی توعمران خان کی سیاسی اٹھان کے بعد لیپ ٹاپ اور سولر لیمپ کیوں ؟اور شہباز شریف تو بجا لیکن نواز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز شریف نے کس حیثیت میں اپنے ہاتھوں سے وہ تقسیم کیے ؟ الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں تو اور کیا ؟ کاغذات وصول فرمانے والوں کو یہ حقائق نظر نہیں آئے ، جو یہ بھی جانتے تھے کہ کون سا امیدوار پانی چوری میں ملوّث ہے؟ سب معلوم تھا لیکن کس کی مجال ہے کہ رکاوٹ کھڑی کرے۔یوں بھی میاں صاحبان کے ساتھ لاڈلے بچے کا سا سلوک ہوتاہے ، جس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔شفقت فرمانے والوں میںوہ بھی شامل ہیں کہ نام لینے والے کو گھسیٹ کر جیل پھینک دیا جائے۔ بہر حال راستہ اب صاف ہے۔ پیپلز پارٹی نیم جاں ہے ۔ رہا عمران خان تو اس کے پاس وقت ہی کتنا تھا۔ڈیڑھ برس پہلے 30اکتوبر کے جلسے میں وہ اکیلا کھڑا تھا ۔ حدّنگاہ تک خلق امنڈ آئی تو گدھ جمع ہو گئے ۔ ظاہر ہے کہ سب کی مرادیں پوری نہ ہو سکیں ۔ روتے پیٹتے، بددعائیں دیتے ، جس راستے وہ تشریف لائے تھے ، اسی سے واپس ہوئے۔ یوں بھی عمران خان کا سیاسی فہم اتنا ہے کہ شیخ رشید جیسے جذبات فروش کے ساتھ تشریف فرما ہوتے ہیں اور یہ موقع انہیں عنایت کرتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی کمر پر سوار ہو کر ایوان کا رخ فرمائیں۔ عمران خان کو سیاست کے کوچے میں گھسیٹا کس نے تھا؟ جیسے میاں محمد نواز شریف کی تشریف آوری کا باعث جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے ، اسی طرح عمران خان کو یہ ترغیب میاں نواز شریف ، بے نظیر بھٹو اور ضیاء الحق کے کارناموں نے دی؛اگرچہ وہ کسی سے انتقام کی خاطر وارد نہ ہوئے تھے ۔ شریف برادران کو اقتدار اب ایسا یقینی دکھائی دیتاہے کہ پانچ برس تک ہم خیال گروپ کی مدد سے حکومت چلانے والوں نے انہیں دھتکار دیا ہے ۔واحد رکاوٹ عمران خان ہیں اور اگر تحریکِ انصاف ایک بڑی لہر نہ اٹھا سکی تو جناب نواز شریف کو وزیر اعظم بننے سے کوئی نہ روک سکے گا۔ انہیں پیشگی مبارک‘ لیکن بروقت مطلع کیا جاتاہے کہ وہ ایک عبوری وزیر اعظم ہوں گے ۔ اس لیے کہ ان پر مہربان ہستیاں اس وقت تک رخصت ہو چکی ہوں گی۔ فی الحال تو میڈیا ان کی نوازشات تلے دبا ہے لیکن نئے کارنامے سامنے آئیں گے تو زیادہ دیر وہ خاموش نہ رہے گا ورنہ خلقِ خدا میڈیا کو سنگسارکردے گی ۔ پیپلز پارٹی کی خامیاں ان گنت ہیں لیکن تنقید وہ سہہ لیتی ہے ۔ شریف برداشت کر ہی نہیں سکتے ؛لہٰذا میڈیا سے ان کی ٹھن جائے گی۔ معاشی صورتِ حال اس قدر ابتر ہے کہ مکمل نیک نیتی اور مکمل قابلیت رکھنے والی حکومت بھی پانچ برس میں بمشکل اسے پٹڑی پر ڈال سکے ؛لہٰذا خود کشیاں ہوں گی او رخود سوزیاں ۔پیداوار اور کاروبار کے لیے بجلی اور گیس درکار ہے ۔سولر لیمپ کی صورت میں بجلی کے مسئلے کا جو حل جناب شہباز شریف نے نکالا ہے ، اس سے کم عمر طلبہ ہی بہل سکتے ہیں۔ صنعت کاروں کو سولر لیمپ دئیے گئے تو وہ انہیں حکومت کے منہ پر دے ماریں گے۔ گوادر بندرگاہ چین کو دینے کا فیصلہ جناب نواز شریف غلط قرار دیتے ہیں تو ایران سے گیس کیا خاک درآمد کریں گے ، جس کے خلاف امریکہ پوری شدّت سے ڈٹا ہے ۔آرمی کی قیادت بدل جائے گی اور اتنا صبر قطعاً نہیں کرے گی۔ اپوزیشن عمران خان کی ہوئی تو ایوان اور سڑکوں پر ایک طوفان ہوگاجو حکومت کو روند ڈالے گا۔ اقتدار کے سپنے ضرور دیکھئے حضور لیکن رختِ سفر بھی باندھیے اور گھوڑے تیار رکھیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved