تیز‘ تیز تر‘ تیز ترین۔ یہ ہے اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اختتامی ایام کی طرزِ زندگی۔ جسے دیکھیے وہ کسی نہ کسی حوالے سے تیزی کے رجحان کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔ سبھی عجلت زدہ ہیں۔ عجلت کس بات کی ہے یہ کوئی جانتا ہے نہ جاننے کا خواہش مند ہے۔ تیزی سُودمند ہے مگر وہاں جہاں ضروری ہو۔ ہر معاملے میں تیزی محض خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے ایسی رفتار چاہیے جو کم بھی نہ ہو اور زیادہ بھی نہ ہو۔ معاملہ چلنے کا ہو‘ دوڑنے کا‘ پڑھنے کا یا پھر کسی معاشی سرگرمی میں مصروف رہنے کا ... ہر مرحلے میں معتدل رفتار ہی کام کی ثابت ہوتی ہے۔ سُستی دکھائیے یا تیزی‘ کام بگڑتا ہے۔ کام اُسی وقت بہتر انداز سے انجام کو پہنچتا ہے جب مطلوب یعنی فطری رفتار سے کیا جائے۔ ہر کام‘ زندگی کا ہر معاملہ اِس امر کا متقاضی ہے کہ تمام متعلقہ تقاضے بخوبی نبھانے کی کوشش کی جائے۔ کام سُستی سے بھی بگڑتا ہے‘ تاہم عجلت سے زیادہ بگڑتا ہے۔
دنیا اس مقام پر کھڑی ہے جہاں لوگ ہر معاملے میں تیزی کا‘ بلکہ برق رفتاری کا سکہ چلانا چاہتے ہیں۔ اس تصور کو حرزِ جاں بنالیا گیا ہے کہ کوئی بھی کام اسی وقت بہتر انداز سے انجام کو پہنچے گا جب وہ تیزی سے کیا جائے گا۔ تیزی کیوں ضروری ہے؟ تیزی سے چستی‘ پُھرتی اور استعداد کا تصور وابستہ ہے۔ ہم اگر کہیں تیزی دیکھتے ہیں تو ذہن کے پردے پر یہ خیال ابھرتا ہے کہ وہاں تمام کام تیزی سے تکمیل کی منزل تک پہنچ رہے ہوں گے۔ ہر انسان تیز رفتار زندگی بسر کرنے کا خواہش رہتا ہے۔ حد یہ ہے کہ جو خود بہت سُست رفتار ہوتے ہیں وہ بھی دوسروں میں غیر معمولی تیزی ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ عام ذہن میں یہ خیال انتہائی پختہ ہوچکا ہے کہ تیزی اپنائیے تو کام ہوگا‘ زندگی ڈھنگ سے گزرے گی۔
کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا تیزی سے کام کرنا کام کو معیاری انداز سے تکمیل کی منزل تک پہنچانے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے؟ دکھائی تو ایسا ہی دیتا ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ کسی بھی کام کو معیاری انداز سے تکمیل کی منزل تک پہنچانے کا ایک تسلیم شدہ طریقہ ہوتا ہے جسے اپنائے بغیر مطلوب نتائج آسانی سے حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ مثلاً اگر کوئی کاریگر ایک ٹراؤزر سوا گھنٹے میں سیتا ہے تو غیر معمولی مہارت کی بدولت وہ اس ٹائم فریم میں 15 منٹ کم کرسکتا ہے یعنی ایک ٹراؤزر ایک گھنٹے میں سینے کے قابل ہو جائے گا۔ اب اگر کوئی محض 15 یا 20 منٹ میں ایسا کرنا چاہے تو؟ صرف ناکامی ہاتھ آئے گی۔ کام وقت پر بھی نہیں ہوگا اور معیار بھی بگڑے گا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے جلدی کا کام شیطان کا۔ کسی بھی شعبے میں کوئی بھی ڈھنگ کا کام ایک طے شدہ رفتار سے ہوتا ہے۔ بچے کی ذہنی بالیدگی کے لیے تعلیم مرحلہ وار دی جاتی ہے۔ ایسا تو کہیں بھی نہیں ہوتا کہ کسی بچے کو ذہین پایا جائے تو دو تین جماعتیں skip کرکے اُسے پانچویں سے ساتویں اور آٹھویں سے دسویں جماعت میں ترقی دے دی جائے! دنیا اِس طور نہیں چلتی۔
آپ نے کچھوے اور خرگوش والی کہانی تو سُنی ہی ہوگی۔ خرگوش کو اپنی تیزی اور پُھرتی پر بہت ناز تھا۔ کچھوے کو سُست رفتاری کا طعنہ دیتے ہوئے خرگوش نے ریس کے لیے چیلنج کیا۔ کچھوے نے بہت سمجھایا ''بھائی‘ میرا تمہارا کیا مقابلہ؟ اگر ریس لگانے کا شوق ہے تو گھوڑے سے‘ ہرن سے لگاؤ۔‘‘
خرگوش نہ مانا۔ خیر‘ ریس شروع ہوئی۔ کچھوے نے سُست رفتاری سے آغاز کیا۔ خرگوش نے اُچھل کُود سے ریس شروع کی اور زقندیں بھرتا ہوا آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ بہت آگے جاکر اُس نے سوچا کچھوا تو آئے گا جب آئے گا‘ تب تک کچھ آرام ہی کرلوں۔ ایک درخت کے نیچے وہ لیٹا اور لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ کچھوا دھیرے دھیرے چلتا ہوا اُس درخت تک پہنچا اور خرگوش کو خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹتا پاکر مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ کچھوا بڑھتا ہی چلا گیا اور خرگوش بھرپور نیند کے مزے لُوٹنے میں مصروف رہا۔ اور پھر کچھوا فنشنگ لائن بھی پار کرگیا یعنی اُس نے ریس جیت لی! خرگوش جب بیدار ہوا تو کچھوے کو دور تک نہ پایا۔ اطمینان کی خاطر وہ واپس گیا اور جب کچھوے کو کہیں نہ پایا تو تھوڑا سا متفکر ہوا۔ بھاگم بھاگ فنشنگ لائن پر پہنچا تو کچھوے کو اس حالت میں پایا کہ جنگل کے جانور اُس پر پھول نچھاور کر رہے تھے اور بدھائی دے رہے تھے!
کچھوے اور خرگوش کی یہ علامتی کہانی زندگی کے بیشتر معاملات پر محیط ہے۔ ہمیں معاشرے میں ایسے افراد بھی دکھائی دیتے ہیں جو کسی بھی جواز کے بغیر بہت اُچھل کود کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ اُن میں بہت کچھ کرنے کا جذبہ موجزن ہے اور یہ کہ وہ کچھ نہ کچھ کرکے دم لیں گے۔ یہ اچھی بات ہے کہ انسان چُستی اور پُھرتی کا مظاہرہ کرے۔ مگر سوال کام کرنے کا ہے۔ محض چُستی اور پُھرتی کا مظاہرہ کچھ نہیں دیتا۔ اہمیت اُچھل کود اور ہاؤ ہُو کی نہیں‘ کام کرنے یعنی نتائج پیدا کرنے کی ہے۔ ہمارا معاشرہ رفتہ رفتہ خرگوشوں سے بھرتا جارہا ہے جو شور مچاتے ہیں‘ بھاگ دوڑ کرتے ہیں‘ اُچھل کود کرتے ہیں مگر کام کی بات آئے تو ٹائیں ٹائیں فِش۔ لوگ کام کم کرتے ہیں اور کام کے نام پر دھماچوکڑی زیادہ مچاتے ہیں۔ کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ دنیا کو محسوس ہو کہ کام ہو رہا ہے۔ جب معاملات کی گرد بیٹھتی ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا‘ جو سُنا افسانہ تھا
معیاری زندگی توازن چاہتی ہے۔ ہمیں قدم قدم پر ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہمیں کام کی دُرست رفتار کا اندازہ ہے۔ محض شور مچانے اور ہنگامہ برپا کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ دھماچوکڑی مچانا معاملات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچاتا۔ کسی بھی معاملے میں دکھائی دینے والی رونق کچھ اور ہوتی ہے اور باٹم لائن (حتمی نتیجہ) کچھ اور۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی کیا جارہا ہے اُس کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا۔ خرگوش کی سی طرزِ فکر و عمل اپناکر بہت کچھ کرنے کا تاثر دینے اور واقعی کچھ کر دکھانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ معاشرے میں آپ کو ایسے کئی کچھوے ملیں گے جو اپنی فطری رفتار سے چلتے رہتے ہیں اور خرگوشوں کو پیچھے چھوڑ کر دوڑ میں فاتح ٹھہرتے ہیں۔
زندگی ہم سے خرگوش کی سی طرزِ فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر خرگوش کی سی پُھرتی تو دکھاتے ہیں مگر باٹم لائن کو ذہن نشین نہیں رکھتے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ہم بہت تیزی دکھانے اور دھماچوکڑی مچانے پر بھی مطلوب نتائج پیدا کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اگر خرگوش کی سی تیزی دکھانے پر بھی حاصل کچھ نہ ہو رہا ہو تو کچھوؤں سے سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طور ایک خاص رفتار سے چلتے رہتے ہیں اور منزل پر پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ کہانی ہی نہیں‘ حقیقت بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ سوچے سمجھے بغیر تیزی دکھانے کی پاداش میں خرگوش بالعموم ہار جاتے ہیں۔ اور ایک طے شدہ طرزِ فکر و عمل پر کاربند رہنے کے نتیجے میں کچھوے فتح یاب ٹھہرتے ہیں۔