کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اقبال ؔ پہ ہم نظر ِثانی کریں۔ جس نے یہ کہا تھا؎
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
ایک ممتاز مفکر محترمہ سلمیٰ خالد نے ہمیں‘ اس کی دعوت دی ہے۔ اس پہ انشاء اللہ پھر کبھی‘ شاید کل ہی۔
کسی اور سے نہیں‘ زرداری صاحب کو اپنے آپ سے خطرہ لاحق ہے۔ وہ کہتے ہیں‘ میں جانتا ہوں کہ کس سے میں نبرد آزما ہوں۔ کسی اور سے نہیں‘ اپنے آپ سے وہ متصادم ہیں... اور ہار گئے ہیں۔
آئیے اس دانائے راز شیکسپیئر کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اس سے پوچھیں کہ اس طرح کے سانحے کس طرح رونما ہوتے ہیں۔ اقبال نے اس کے بارے میں کہا تھا:
حفظ ِاسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
بروٹس کے ہاتھوں وہ قتل ہو چکا تو سیزرکی لاش پہ کھڑے ہو کر انطونی نے کہا تھا: Are all thy conquests, glories, triumphs, spoils, shrunk to this little measure? کیا یہ ہے آپ کی تمام خیرہ کن فتوحات‘ عظمتوں اور کارناموں کاانجام؟ بہت سی نہیں‘ شیکسپیئر نے شاید ایک ہی کہانی لکھی۔ داستانیں مختلف ہیں مگر خلاصہ وہی ایک۔ اپنی قوت عمل‘ چالاکی‘ تندی اور ہنرمندی سے ایک سورما فتوحات پہ فتوحات حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ آخر کو اس کے تضادات‘ ہمالہ کی مانند راہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ہیبت ناک پہاڑ‘ جس میں کوئی درّہ ‘ بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
اپنے شاعرانہ انداز میں شیکسپیئر نے یہ نکتہ مغرب کے لاثانی مفکّر ہیگل سے بہت پہلے بیان کیا۔ ادبی جمالیات ایک چیز ہے اور زندگی کی سچائیاں دوسری۔ گاہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ خیالات کی وادیوں میں بھٹکنے والے شاعر پہ لیبارٹری میں سرگرداں سائنس دان کی طرح پوری صداقت کا ظہور ہوتا ہے۔
امریکہ کے ڈاکٹر مارکس نے یہ صداقت اکیسویں صدی کے اوائل میں بیان کی کہ آدمی سوچتا نہیں بلکہ دو طرح کے خیالات کا اس پہ ظہور ہوتا ہے۔ دراصل ان میں سے وہ ایک خیال کا انتخاب کرتا ہے۔ ایک مانیٹر اس نے بنادیا‘ آدمی کے سر پہ چڑھا دیا جائے تو اس کے اظہار سے چھ سیکنڈ پہلے سرخ یا سبز بتی روشن ہو جاتی ہے۔ فلاں خاتون سے وہ شادی کرنے کا آرزو مند ہے یا نہیں۔ کاروبار کرے گا یا نوکری۔ واشنگٹن میں جا بسے گا یا لاس اینجلس میں۔ ہماری اولاد ان پہ فدا ہو‘ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: ایک فرشتہ آدمی کی طرف وحی کرتا ہے اور ایک شیطان۔ اکبر اعظم کا شیخ الاسلام ایک خیال کو قبول کرتا ہے‘ دربار داری کو اور لاہور کا درویش دوسرے کو‘ پھر اسے وہ لکھتا ہے۔
اندر آلودہ باہر پاکیزہ تے توں شیخ کہاویں
راہ عشق دا سوئی دا نکّہ ‘ دھاگہ ہوویں تاں جاویں
عشق کا راستہ‘ سوئی کے ناکے کی طرح ہے۔ دھاگا بنو گے تو جا سکو گے۔
سجناں اساں موریوں لنگھ گیوسے
بھلا ہویا گڑ مکھیاں کھادا‘اساں بھن بھن توں چھٹیوسے
ڈھنڈ پرائی کتیاں لکّی‘اساں ہتھ منہ نہ دھتیوسے
کہے حسین فقیر نمانا‘اساں ٹپن ٹپ نکلوسے
اچھا ہوا کہ امرا کے ‘ شاہ دروازوں کی بجائے‘ اب ہم عام لوگوں کی گزر گاہ سے شہر میں داخل ہونے لگے۔ اچھا ہوا کہ گڑ مکھیوں نے کھایا‘ گندگی سے ہم بچ نکلے۔ جوہڑ‘ اس پہ دوسرا جوہڑ‘ پھر اس میں کتوں نے منہ ڈال رکھا ہے۔ ہم نے اس میں ہاتھ منہ نہ دھویا۔ اس غلاظت سے ہم بچ نکلے۔
شاہ حسین کے شارح یہ کہتے ہیں کہ غلاظت سے مراد وہ دربار داری ہے‘ جس کے پیچھے رسوخ اور زر اندوزی کی تند خواہش چھپی ہوتی ہے۔ ان میں کہ بھوک‘ جن کی ہڈیوں تک اتر گئی ہو‘ نسل در نسل جن کے لہو میں سفر کرتی ہو‘ وحشت کچھ اور زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی بھوک جو بجھنے نہیں دیتی۔ انگریزی میں انہیںInsatiables کہا جاتا ہے۔سدا کے پیاسے۔
کہنہ مشق جاوید ہاشمی نے کہا تھا:۔زرداری صاحب کی سیاست ایسی ہے کہ اس پہ پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کوئی مات نہیں دے سکتا اور وہ سبھی کو ہرا سکتے ہیں۔ خود زرداری صاحب اپنے بارے میں یہی کہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ قدرت نے انہیں ہنراور برق رفتار حسیات کی دولت بخشی ہے۔ قیام اور قرار نہیں بخشا۔ ضدی ضرور ہیں مگر یہ ایک خود پسند کی ضد ہے‘ عزم کا نام اسے نہیں دیا جا سکتا۔ ایک دن فوج کو وہ للکارتے ہیں کہ تمہاری میں اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ دوسرے دن دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔اللہ کے آخری رسول ؐ کا ارشاد یہ ہے: دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ زرداری صاحب فرماتے ہیں: اگر بندوں کی خدمت کا کچھ صلہ ہے تو اللہ انہیں معاف کر دے گا۔ ''اگر‘‘ کا کیا سوال‘ مخلوق کی خدمت کا صلہ اٹل ہے اور ایسا کہ عامی کو اولیا کے مقام پہ فائز کرتا ہے۔
ایک سچّے ولی کی صفات کیا ہیں۔ اپنے اندازِ فکر اور طرزِ عمل میں‘ عام لوگوں سے وہ یکسر مختلف ہوتا ہے۔ صاف ستھرے‘ نجات پانے والے مسلمانوں سے ایک قدم آگے۔قرآن کریم میں ایک ایک کر کے‘ اس کی ساری صفات بیان کر دی گئی ہیں۔ برائی کا خیال ‘ ان کے ذہن میں در آئے تو وہ چونک اٹھتے ہیں۔ جاہل جب ان سے الجھنے کی کوشش کریں تو وہ طرح دے جاتے ہیں۔ اپنا غصہ پی جاتے ہیں‘ زمین پہ نرم روی سے چلتے ہیں۔ ایثار کرتے ہیں خواہ تنگ دست ہوں‘ اجلے رہتے ہیں‘ ظاہر میں بھی باطن میں بھی۔
یا للعجب ‘ ایک آدمی ایسا بھی ہے ساری زندگی آخری درجے کی احتیاط اور ذکرِ ا لٰہی میں بسر کرنے والوں کے جو برابر ہے۔ وہ آدمی‘...اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: کھلے اور چھپے‘ دن رات جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ رزق حرام سے خود کو وہ آلودہ نہیں کرتا‘ ظلم کا ارتکاب نہیں کرتا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے‘ رحمۃ اللعالمین کے بعد جو بلند ترین درجے پہ فائز ہیں‘ اللہ سے دعا کی کہ تمام عظمتیں اور ساری نعمتیں‘ ان پہ نچھاور کر دے۔ پیمبر ان کی اولاد میں سے اٹھائے۔ برکت ان کے شہر کو دی ابدالآباد تک کے لیے‘ اس گھر کو اپنا گھر قرار دیا‘ جسے ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند نے تعمیر کیا تھا۔
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں‘ وہ پاسباں ہمارا
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا پوری کی پوری قبول ہوئی۔ ہاں! مگر یہ کہا گیا: ''میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا‘‘۔
عمر بھر جناب آصف علی زرداری نے اگر رزق حلال کمایا اور خلق خدا پہ لٹاتے رہے تو ان کا درجہ اولیاء کے برابر ہے۔ ان کا بھی ‘ میاں محمد نواز شریف کا بھی۔ ان کے بھائی شہباز شریف کا بھی‘ جن کا دعویٰ ہے کہ عمر بھر ایک دھیلے کی کرپشن کے وہ مرتکب نہیں ہوئے۔ ان کے اس دعوے کا ایک معتبر گواہ بھی موجود ہے۔ جس نے اسحق ڈار کو زاہد و متقی وزیر کہا تھا۔سبحان اللہ کیسی کیسی عظمتیں ہیں‘ جو نیک خصلت سرمایہ کاروں کے حصے میں آتی ہیں۔
الزام لگانے والے الزام دھرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ بلاول ہائوس کے ارد گرد کی تیس چالیس عمارتیں زرداری صاحب نے ہتھیا لیں۔ ہتھیائی نہیں‘ خریدیں۔ بس یہ گزارش کہ جس بھائو انہیں ملی تھیں‘ اسی بھائو‘ اس آدمی کے حوالے کر دیں‘ جس کی زندگی کا واحد مقصد خلقِ خدا کی خدمت ہے۔ عدالت کے لیے قابلِ قبول ثبوت تو آج تک کوئی دے نہ سکا۔ان کا دعویٰ ہے کہ اگر کسی مفلس کے اکائونٹ میں چند کروڑ یا چند ارب انہوں نے ڈال دیئے تو کیا برا کیا۔ وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہی قصور ر وار ہے۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اقبال ؔ پہ ہم نظرِ ثانی کریں۔ جس نے یہ کہا تھا؎
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
ایک ممتاز مفکر محترمہ سلمیٰ خالد نے ہمیںبروقت‘ اس کی دعوت دی ہے۔ اس پہ انشاء اللہ پھر کبھی‘ شاید کل ہی۔