معنی اور مفہوم کے اس فرق کی روشنی میں اگر ہم آئین پاکستان کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا جائزہ لیں تو بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آئین تو پاکستان کی پارلیمنٹ نے بنایا تھا۔ لہٰذا وہی ان آرٹیکلز کے معنی پر اتھارٹی مانی جائے گی۔ اب رہی بات کہ ان شقوں سے اپنی اپنی سمجھ کی روشنی میں جو مفہوم اخذ کیے جارہے ہیں ان کی حیثیت کیا ہے تو ان کی حیثیت کچھ بھی ہو ثانوی ہی رہے گی معنی اور مفہوم میں کیا فرق ہوتا ہے؟ برسوں پہلے میں نے معروف سکالر مفتی کفایت حسین کی علم کے موضوع پر ایک مجلس کی ریکارڈنگ سنی تھی۔ انہوں نے بیان کیا تھا کہ بات کہنے والے کے پیش نظر جو مطلب ہوتا ہے اس کو معنی کہا جاتا ہے ا ور اس بات کو سن کر اپنی فہم کے مطابق جو مطلب نکالا جائے وہ اس بات کا مفہوم کہلاتا ہے۔ مفتی کفایت حسین نے معنی اورمفہوم کا فرق قرآن پاک سے رہنمائی حاصل کرنے کے حوالے سے بیان کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے تو اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں یا پھر جس ہستی پر اللہ نے یہ کلام نازل کیا اور معنی بتا دیئے ان کو معلوم تھا۔ باقی سب اپنی اپنی فہم کے مطابق جو کچھ بیان کرتے آئے ہیں وہ مفاہیم ہی کہلاتے ہیں۔ معنی اور مفہوم کے اس فرق کی روشنی میں اگر ہم آئین پاکستان کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا جائزہ لیں تو بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آئین تو پاکستان کی پارلیمنٹ نے بنایا تھا۔ لہٰذا وہی ان آرٹیکلز کے معنی پر اتھارٹی مانی جائے گی۔ اب رہی بات کہ ان شقوں سے اپنی اپنی سمجھ کی روشنی میں جو مفہوم اخذ کیے جارہے ہیں ان کی حیثیت کیا ہے تو ان کی حیثیت کچھ بھی ہو ثانوی ہی رہے گی۔ اب پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے والے ہیں جب یہ مرحلہ مکمل ہوجائے گا تو پارلیمنٹ کو چاہیے کہ ان آرٹیکلز کے معنی کا تعین کردے‘ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو یہ آرٹیکل اسی طرح تنازعات کو جنم دیتے رہیں گے اور لوگ الگ الگ مفہوم نکالتے رہیں گے‘ جس سے محض فساد جنم لے گا اور پھر عدالت عظمیٰ کو آئین کی تشریح کا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ان دفعات کا سہارا لے کر انتخابات میں کاغذات کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ افسروں نے امیدواروں سے ایسے سوالات کیے جیسے اسلامیات کی کتابوں میں ملتے ہیں کہ مرنے کے بعد قبر میں فرشتے پوچھیں گے وغیرہ وغیرہ؛ چنانچہ اس وجہ سے آئین کے یہ آرٹیکل زیادہ تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ ہمارا مذہب دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی تلقین کرتا ہے مگر اس انتخابی عمل میں تو شرکاء کو اپنی عزت بچانا مشکل ہوگیا۔ کس کو کتنا اسلام آتا ہے؟ کونسی دُعا یاد ہے اور کونسی نہیں‘ یا پھر مردے کو کیسے نہلایا جاتا ہے؟ ایسے سوالات پوچھنا انتخابی عمل کا حصہ نہیں کہلا سکتا اور وہ بھی اچانک۔ اگر آپ نے ڈرائیونگ لائسنس بغیر رشوت یا سفارش کے بنوایا ہو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ڈرائیونگ کے ٹیسٹ سے پہلے جو ٹریفک کے اشارے ہیں ان کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور ایک بہت بڑے ڈرائنگ بورڈ پر موجود کئی سو ٹریفک سے متعلق نشانات آپ کے سامنے رکھ کر اس میں آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ کس نشان کا کیا مطلب ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اس ٹیسٹ سے پہلے پچیس روپے قیمت کی ایک کتاب آپ کو دی جاتی ہے جس میں تمام نشانات کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ اس کتاب کی مدد سے مختلف نشانات کے مطالب یاد کرکے پھر ٹیسٹ کے لیے آئیں گے۔ ریٹرننگ افسروں نے اگر ایسے سوالات ہی پوچھنے تھے تو کم از کم یہ تو کیا جاسکتا تھا کہ ان کوسوال و جواب کی شکل میں چھاپ کر امیدواروں کو کچھ دن پہلے ایک کتابچے کی شکل میں فراہم کردیا جاتا اور پھر معینہ وقت پر ان سے سوال پوچھ کر تسلی کر لی جاتی۔ لیکن پھر بھی دھیان اس طرف ہی جاتا ہے کہ آخر ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ توبہ کا دروازہ ہر دم کھلا رہتا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو بہت پسند کرتا ہے۔ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ صحرا میں کسی کو اپنا گم شدہ اونٹ مل جانے کی جس طرح خوشی ہوتی ہے ویسی ہی خوشی پروردگار کو اپنے کسی بندے کے توبہ کرکے پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔ اب جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور اس کی شخصیت میں مذہبی اور شرعی پہلو سے کوئی کمی پائی جاتی ہے تو اس کو عیاں کرنا کسی کو بھی جائز نہیں کیونکہ اس شخص کے پاس اپنی کمی پوری کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہمیں کیا معلوم کب پروردگار اس کو اس توبہ کی توفیق دے دے۔ لہٰذا اس طریقے سے سوالات کرنا کسی طور بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات ماننے والی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی بہت کمی ہے۔ صحیح مذہبی تعلیم کا بھی فقدان ہے اور پھر عمومی طور پر بدعنوانی کی طرف رجحان بہت زیادہ دیکھنے میں آتا ہے۔ جو لوگ اسمبلیوں میں جانے کے خواہشمند ہیں ان پر کرپشن سمیت کئی دیگر گھنائونے جرائم کے الزامات کی گونج مسلسل سنائی دیتی ہے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔ اس کو سوائے پروردگار کے کوئی درست نہیں کرسکتا۔ خداوند تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اب اگر ہماری کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے یا پھر کاغذات کی جانچ پڑتال کی وساطت سے اپنی قوم کے اوصاف کو تبدیل کر لیا جائے تو یہ کسی طور نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے اور اس کے کلمات تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے ہماری قوم کو اجتماعی طور پر اپنے اوصاف بدلنے ہوں گے۔ کیسے؟ کاش میں جانتا یا جان سکتا۔ میں تو جب اس بارے میں سوچتا ہوں تو ذہن میں اندھیرا سا چھا جاتا ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اللہ کا یہ فرمان رہنمائی کرتا ہے کہ صرف کافر ہی اللہ کی رحمت سے نامید ہوتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے حوالے سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان شقوں کا اطلاق اولاً تو ان لوگوں پر ہونا چاہیے جن پر کسی عدالت میں یہ ثابت ہوچکا ہو کہ وہ اچھے کردار کے مالک نہیں یا وہ اسلامی احکامات سے انحراف کے مرتکب پائے گئے ہیں یا یہ کہ وہ ایماندار یا دیانت دار نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ اور ثانیاً ان لوگوں پر جنہوں نے کسی طور خود اپنے اندر ان خامیوں کو قبول کیا ہو۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کسی شخص سے متعلق ایسا فیصلہ ہونے کے کتنے امکانات ہیں جس میں عدالت کسی کے بارے میں ثبوتوں کی روشنی میں ایسا فیصلہ صادر کرے۔ ظاہر ہے ایسے فیصلے خال خال ہی ہوں گے۔ لیکن جہاں تک تعلق ہے خود کسی نے اپنی کسی ایسی خامی کو قبول کیا جو آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت اس کو انتخاب میں حصہ لینے کا نااہل کرتی ہو تو ایسا ایک High Profile کیس الیکشن ٹربیونل میں زیرسماعت ہے۔ دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے جس امیدوار کا یہ کیس ہے وہ ٹیلیویژن پر میڈیا کے نمائندوں کو اپنی اپیل کی سماعت کے لیے منظور ہونے کا جب بتا رہے تھے تو ایسا محسوس ہوا کہ ان کی آواز کانپ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے میرا وہم ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved