8 اکتوبر2018 ء کو آسیہ بی بی کو ہائی کورٹ سے دی جانے والی سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ معزز عدالت نے محفوظ کر لیا تھا‘ جس کا اعلان یکم نومبر کو کیا گیا۔کیا ملکی اور ارد گرد کے حالات کو دیکھتے ہوئے ملک کی سکیورٹی سے متعلق اہم ترین اداروں میں سے کسی ایک کا فرض نہیں تھا کہ وہ متعلقہ ذمہ دار شخصیت کو لکھے جانے والے خط میں درخواست کرتے ہوئے بتاتے کہ مذہبی جماعتوںکی قیا دت آسیہ کیس کے سنائے جانے والے ممکنہ فیصلے سے اپنے وکلاء کی عدالت کو دی جانے والی بریفنگ کے ذریعے با خبر ہو چکے ہیں اور اس فیصلے کی اطلاعات ملک کی دو اہم دینی اور سیا سی جماعتوں پی پی پی اور نواز لیگ کو مل چکی ہے ۔
یہ خارج از امکان نہیں کہ مذکورہ دونوں جماعتوں نے 31 اکتوبر کو مولا نا فضل الرحمن کی بار بارکی درخواست کے با وجود ان کے کان میں یکم نومبر کو سجائے جانے والے معرکے کی سرگوشی کر دی ہو ۔نیب اور قانون کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ان دو سیا سی سربراہان اور ان کے خاندان کو ان کے سینئر وکلاء نے عدالتی کارروائی کے دوران دیئے جانے ریمارکس سے یا کسی اور ذرائع سے اخذ کی ہوئی اطلاع کی بنا پر انہیں بتا دیا ہو کہ امکان ہے کہ فیصلہ آسیہ کے حق میں آ ئے گا ‘جس پر کچھ حساس اداروں نے کوشش کی ہو کہ یہ فیصلہ چند ماہ کیلئے ملتوی کر دیا جائے‘ کیونکہ وزیر اعظم چین اور کچھ دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کیلئے جا نے والے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ اس فیصلے کے بعد مذہبی جماعتیں اور نواز لیگ سمیت پی پی پی کے لوگوں سے پاکستان کے اس مشن کو نقصان پہنچے ۔جب بیرونی سرمایہ کار وزیر اعظم پاکستان سے کہہ دیں کہ پہلے اپنا گھر تو سنوارو‘ جہاں آپ ہمیں آنے کا کہہ رہے ہیں۔ اب یہ صرف اور صرف فرض ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی کوئی درخواست کی گئی تھی۔
چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ کسی سکیورٹی ایجنسی کی بھیجی گئی کوئی درخواست ‘اگر تھی اور وہ رد کر دی گئی تھی‘پھر چاہئے تو یہ تھا کہ وہ ادارہ یا لوگ ‘جو ملک اور اس کے ارد گرد کے حالات کی مکمل خبر رکھتے ہیں ‘تو پھر ایسا ادارہ جسے تحریک لبیک‘ مولانا فضل الرحمن اور نواز لیگ کے کارکنوں کی پس پردہ کی جانے والی تیا ریوں کی مکمل اطلاع ہو گئی تھی‘ تو پھر ملک کو اندرونی اور بیرونی خطروں سے محفوظ رکھنے کیلئے اپنی جان کی بازی لگادینے کا حلف اٹھانے والوں نے ایک بار پھر تمام صورت حال کی درخواست کرنی چاہئے تھی کہ حضور جیسا کہ پہلے آپ سے عرض کر چکے ہیں‘ کچھ دن یہ فیصلہ نہ سنائیں ‘کیونکہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ دشمن کس طرح اس فیصلے کے بعد پورے ملک میں آگ اور خون کا طوفان اٹھانے کیلئے تیار ہو رہا ہے۔ ایک جانب دشمن اس کے ایجنٹ اور فاٹا سمیت بلوچستان اور کراچی میں طاقتور بیرونی ایجنٹ ہمارے سر پر چڑھا بیٹھا ہے اور دوسری طرف اسلحے اور بڑے بڑے ڈنڈوں سے لدے ہوئے ٹرالر موٹر ویز اور جی ٹی روڈز کے قریب آبادیوں میں کھڑے کر دیئے گئے ہیں اور نواز لیگ کے لوگوں کو ہدایات دی جا چکی ہیں کہ ہمارے آدمی اس فیصلے کے بعد تحریک لبیک کے اند رگھس کر جلائو گھرائو کریں گے ۔
فرض کر لیتے ہیں کہ یہ فریاد پہنچ بھی گئی ہو تو ممکن ہے کہ اس پر غور نہ کیا گیا ہو۔اب جب کہ ہم مفروضوں پر بات کر رہے ہیں‘ تو اگر ایک لمحے کیلئے ہی سہی فرض کر لیا جائے کہ سات دنوں بعد پھر منت سماجت کی گئی ہو کہ حضور اس فیصلے کو تین ماہ کیلئے روک دیا جائے ‘تویہ ملک پر احسان عظیم ہو گا اور اگر واقعی ہی کسی نے تیسری مرتبہ اس قسم کی کوشش کی ہو گی‘ تو پھر یہی فرض کیا جا سکتا ہے کہ ان کی یہ تیسری درخواست بھی اس قابل نہ سمجھی گئی ہو کہ یہ تو ایسی رپورٹس دیتے ہی رہتے ہیں‘ کچھ نہیں ہو گا۔ لگ رہا ہے کہ یہ سب کچھ کسی آسیب کے سائے تلے یا دن میں دیکھے گئے ‘خواب جیسے باتیں کر رہا ہوں کہ کوئی فیصلہ مؤخر کرنے کی اپیلیں کئے جا رہا ہو اور اسے سن ہی نہ رہا ہو۔مجھے تو اس پر یقین نہیں آ رہا ‘کیونکہ خوابوں اور آسیب کی کہانیوں پر اب کون یقین کرتا ہے۔خواب تو دن میں سب سے زیا دہ دیکھے جاتے ہیں او رجب ہر طرف سڑکیں بند ہوں کہیں آ جا نہ سکیں سٹور اور مارکیٹس بند ہوں تو پھر سوائے دن رات سونے کے انسان اور کیا کرے اور دن کو جتنی دیر بھی ہم سوئے رہتے ہیں ۔ایک کے بعد دوسرا خواب آتا رہتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سنانے سے پہلے آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جاتا‘ تاکہ تحریک لبیک والوںکو تسلی ہو جاتی ۔بات کچھ دل کو لگتی نہیں‘ لیکن سوچا جا سکتا ہے کہ یہ کوشش تحریری طور پر کی گئی ہو اور اس کی اجازت نہ ملی ہو۔ مجھے تو بالکل بھی یقین نہیں آتا کہ تین خطوط لکھنے کے بعد کسی نے فیصلے سے پہلے رات فون پر بھی درخواست کی ہو کہ جناب یہ فیصلہ فروری تک ملتوی کر دیں ‘کیونکہ فیصلہ سنانے کے بعد حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ یہ ملک کسی حادثے کا شکار ہو کر نہ جانے کتنے سال پھر پیچھے چلا جائے۔ فیض آباد میں دھرنے والوں نے سکیورٹی ایجنسیاں اور معزز عدلیہ بارے جو کچھ کہا ہے‘ وہ نا قابل بیان ہے۔ یقین کیجئے‘ مجھے سیا چن اور لائن آف کنٹرول سمیت بلوچستان میں اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھے ہوئے سکیورٹی ایجنسیوں کے افسران نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ جب ہمارے چیف کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جا رہی تھی‘ تو غم اور غصے سے ہمارابرا حال تھا۔گالیاں دینے والوں کو کیسے بتائیں کہ ہم تو منتیں کرتے رہے کہ یہ فیصلہ روک لو۔ جذباتی اور نا سمجھ لوگ سکیورٹی ایجنسیوں کو آسیہ کے فیصلے سے منسلک کرتے ہوئے یا تو خود سازش کر رہے ہیں یا اس سازش کا اپنے بھول پن میں شکار ہو رہے ہیں۔ ان چند دنوں میں سکیورٹی ایجنسیاں کے بہت سے افسروں اور جوانو ں سے بات ہوئی ‘کچھ سے فون پر اور کچھ سے براہ راست ۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب دس سال پہلے آسیہ کو پکڑا گیا‘ تو کیا اس کی ذمہ دار سکیورٹی ایجنسیاں تھی؟ نواز شریف پانامہ کی وجہ سے نا اہل کیا جائے‘ تو سکیورٹی ایجنسیاں ذمہ دار۔ عمران خان الیکشن جیت جائے ‘تو سکیورٹی ایجنسیاں ذمہ دار۔ شہباز شریف پکڑا جائے تو سکیورٹی ایجنسیاں ذمہ دار۔ کراچی میں امن نہ ہوتو سکیورٹی ایجنسیاں ذمہ دار۔ فالودے والے‘ رکشہ والوں کے تین تین ارب روپے کے جعلی اکائونٹ پکڑیں جائیں‘ تو سکیورٹی ایجنسیوں کی حرکت؛ اگر کراچی کا امن بحال ہو جائے تو سکیورٹی ایجنسیاں مجرم۔ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کیلئے گوریلا جنگ شروع کر دیں‘ تو سکیورٹی ایجنسیاں ذمہ دار۔ان علیحدگی پسندو دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے‘ تو سکیورٹی ایجنسیاں ذمہ دار...
کراچی اور بلوچستان میں بھارتی ایجنٹوں کی آئے روز کی قتل و غارت کرنے والوں کی سرکوبی کی سکیورٹی ایجنسیاں مجرم۔ لال مسجد والے ہر کسی کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیں تو سکیورٹی ایجنسیاں مجرم‘اگر سکیورٹی ایجنسیاں انہیں روکنے کیلئے بھیجی جائے تو تب بھی سکیورٹی ایجنسیاں مجرم۔ بھارتی نیوی کمانڈر کلبھوشن یادیو پکڑا جائے تو مودی کی ناراضی کی وجہ سے سکیورٹی ایجنسیاں مجرم۔ الیکشن ڈیوٹی کے دوران اپنے ووٹ پر مہر لگانے کیلئے کھڑی خاتون کے شیر خوار بچے کو ایک ہاتھ سے سہارا دینے والے سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکار کی تصویر آ جائے‘ تو سکیورٹی ایجنسیاں مجرم۔
الغرض آسیہ بی بی کے نام پر تحریک کو ہائی جیک کرنے کیلئے پنجاب سمیت دوسرے صوبوں میں سیاسی جماعتوں نے اپنے ورکروں کو جگہ جگہ ہنگاموں اور املاک کی توڑ پھوڑ کیلئے بھیجا‘ تو بھی سکیورٹی ایجنسیاں مجرم اورتوڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کی جائے‘ تو بھی سکیورٹی ایجنسیاں مجرم۔بس کوئی الزام رہ نہ جائے جو ‘ان پر نہ لگایا جائے۔ہمیں ایسی سوچ پر شرم آنی چاہیے۔