تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-11-2018

… اور گوشۂ تنہائی ہو!

ہم معمولات میں الجھ کر کبھی کبھی خاصی طویل مدت تک نئی سوچ سے محروم رہتے ہیں۔ نئے خیالات ذہن کی طرف آتے ہی نہیں۔ بہت سوں کو اس حوالے سے اپنے ''غیر بارآور‘‘ ہونے کا بہت شدت سے احساس ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت سَر پٹخنے پر بھی ذہن کام نہیں کرتا‘ کوئی نیا خیال نہیں سُوجھتا۔ یوں معمولات شدت اختیار کرتے جاتے ہیں اور انسان اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیے بغیر ایک خاص دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ 
جب ہم امکانات کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتے ہیں ‘تب نئے خیالات ہمارے ذہن کی طرف آنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی مسئلے کا کوئی بھی بہتر متبادل حل نہیں سُوجھتا۔ کئی بھی نیا خیال ذہن کے پردے پر اُسی وقت نمودار ہوتا ہے جب ہم خود کو اس کے لیے تیار کرتے ہیں۔ خود کو نئے خیالات کے لیے تیار کرنے کے کئی طریقے اور مرحلے ہیں۔ ایک اچھا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان اپنے شعبے اور ماحول پر نظر رکھے۔ ایک طرف مشاہدے کی شمع روشن رکھی جائے اور دوسری طرف مطالعے کا چراغ بھی جلتا رکھا جائے۔ ایسی حالت میں ذہن غیر معمولی رفتار سے کام کرتا ہے۔ نئے خیالات ذہن کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں اور معاملات کو عمدگی سے نمٹانے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ 
عمل پسند رویے کے ساتھ جینے والوں کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے‘ جو عام آدمی کی زندگی میں نہیں ہوا کرتا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ عام آدمی فکر کی گہرائی سے زیادہ واقف نہیں ہوتا اور اس وادیٔ پُرخار میں قدم رکھتے ہوئے ڈرتا ہے۔ دوسری طرف اُن کے اذہان پر بہت سے دریچے وا ہوتے رہتے ہیں ‘جو کسی نہ کسی حوالے سے اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے معاملات تبدیلی کے لیے تیار رہنے ہی پر انسان کی سمجھ میں آتے ہیں۔ 
جب ہم اپنے کام میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں‘ تب بہت سے غیر متعلق امور ذہن سے خارج ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ذہن نیا سوچتا ہے‘ نئے خیالات کو پروان چڑھاتا ہے۔ انسان مجموعی طور پر جیسی لہر میں بہہ رہا ہوتا ہے ویسے ہی خیالات اُس کے ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے ہیں اور اعمال بھی اُسی رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں۔ تخلیقی ذہن اور رجحان رکھنے والے دن رات ایک ہی لہر میں بہتے ہیں ‘اس لیے اُن کے ذہنوں میں نئی باتیں اُبھرتی ہیں‘ نئے آئیڈیاز پنپتے چلے جاتے ہیں۔ 
فنکاروں اور کھلاڑیوں کی زندگی کا جائزہ لیجیے ‘تو اندازہ ہوگا کہ وہ اپنے کام میں ڈوبے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُن کے لیے فطری ہوتا ہے۔ کارکردگی کا معیار بلند رکھنے کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ غیر متعلق باتوں سے خود کو دور رکھیں‘ کسی بھی ایسی چیز کا خیال تک ذہن میں نہ لائیں جو کسی کام کی نہ ہو۔ ایسے لوگ فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنے شعبے پر بھرپور توجہ دیئے بغیر وہ کارکردگی کا حجم بڑھاسکتے ہیں نہ معیار۔ 
جب انسان اپنے کیریئر اور کارکردگی پر بھرپور توجہ دیتا ہے تب ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھا گیا ہے کہ جب لوگ اپنے کام میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں تب ذہن کی وسعت بڑھتی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں نئے خیالات تیزی سے وارد ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی سُوجھتی رہتی ہے۔ 
اپنے کام میں غیر معمولی دلچسپی لینے والے چاہتے ہیں اُن کے ذہن میں ایسے خیالات ابھرتے اور پنپتے رہیں‘ جو معاملات کو یکسر پلٹ کر رکھ دیں‘ کچھ نیا کرنے کی راہ تیزی سے ہموار کریں۔ آج کی اصطلاح میں ایسے خیالات کو ''گیم چینجنگ آئیڈیاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر شعبے میں ایسے خیالات کی تلاش رہتی ہے ‘جو بہت کچھ بدل دیں۔ متعلقین چاہتے ہیں کہ نئے خیالات کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ یہ سلسلہ صرف اِس صورت میں جاری رہ سکتا ہے کہ انسان اپنے کام میں ڈوبا رہے۔ 
تخلیقی ذہن کی رفتار میں اضافہ کرنے کی کوششیں جب بارآور ہونے لگتی ہیں تب کسی بھی وقت ''آمد‘‘ ہوسکتی ہے ‘یعنی کسی بھی وقت کوئی بھی نیا خیال بالکل‘ اُسی طرح ذہن کے پردے پر نمودار ہوسکتا ہے‘ جس طرح کوئی بم پھٹتا ہے۔ جب خیالات برستے ہیں تب لازم ہو جاتا ہے کہ اُن پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ توجہ نہ دیئے جانے پر خیالات ضائع ہوتے جاتے ہیں۔ ہر وقت سوچنے والوں کے ذہن میں امکانات کے حوالے سے نئے نکات ابھرتے ہیں‘ جو اس حوالے سے پوری تیاری کرتے ہیں وہ ناکامی سے دور اور محفوظ رہتے ہیں۔ ایسے لوگ نئے خیالات کو قلم بند یا ریکارڈ کرتے ہیں۔ اِس صورت میں مزید غور و خوض کے ذریعے اُن خیالات کو پختہ بنانا ممکن ہو جاتا ہے۔ خیالات پختہ ہوں تو اُن پر عمل کے ذریعے کارکردگی کو مطلوب معیار تک لے جانا ممکن ہوتا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ کسی بھی نئے خیال کو کس طور پختگی سے ہم کنار کیا جائے۔ اِس کے لیے پُرسکون تنہائی درکار ہوتی ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو اِس حقیقت سے انکار کرے کہ پُرسکون تنہائی ہی انسان کو زیادہ اور بہتر سوچنے کے ساتھ ساتھ بہتر عمل کے لیے بھی تیار کر پاتی ہے؟ ہر کامیاب انسان کسی نہ کسی مرحلے پر گوشۂ تنہائی ضرور تلاش کرتا ہے۔ تنہائی کے لمحات میں اِنسان پر اپنا وجود کُھلتا ہے۔ محض ایک آدھ گھنٹے کے لیے بھی تنہا بیٹھنا اِنسان کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے جو اپنے ہی اندر ہوتی ہے۔ یہ اندر کی دنیا باہر کی دنیا کو بہتر بنانے کی غیر معمولی صلاحیت و سکت رکھتی ہے۔ سب سے دور ہوکر‘ اپنے وجود کو کچھ دینا اصطلاحاً مراقبہ کہلاتا ہے۔ مراقبے میں اِنسان تادیر خاموش بیٹھ کر اپنے وجود کی گہرائی میں اُترتا جاتا ہے۔ اپنے آپ سے ہم آہنگ ہونے کا یہ عمل ذہن و دل کو پختہ تر کرتا ہے۔ اگر آپ اپنے وجود کی معنویت کا دائرہ وسیع تر کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ماحول سے کچھ دیر کے لیے الگ رہنے کا اہتمام بھی کرتے رہیے۔ اگر کام کے دوران یعنی دفتر کے ماحول میں بھی ذہن پر نئے خیالات کی بارش ہو تو کچھ دیر کے لیے گوشۂ تنہائی میں بیٹھیے تاکہ ذہن کو یکسُوئی میسر ہو اور وہ زیادہ انہماک سے کسی بھی معاملے پر غور کرسکے۔ تخلیقی جوہر کو اپنی دکان کھولنے اور سجانے کے لیے وقت بھی درکار ہوتا ہے اور جگہ بھی۔ جب ہم تنہائی میں ہوتے ہیں تب ذہن ہمیں بتاتا ہے کہ اُس کے پاس کیا کیا ہے اور کیا کیا بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ ''گیم چینجنگ آئیڈیاز‘‘ آسانی سے وارد نہیں ہوتے۔ اس کے لیے ذہن کو بھرپور یکسُوئی درکار ہوتی ہے۔ اور ذہن کی بھرپور یکسُوئی تنہائی کے بغیر ممکن نہیں ہو پاتی۔ تخلیقی ذہن و رجحان رکھنے والے کسی نہ کسی طور ایسا وقت نکالتے ہیں جو تنہائی میں گزارا جائے۔ اِس سے ذہن کی قوت بڑھتی ہے اور وہ تازہ دم ہوکر ایسے تمام معاملات کے حوالے سے سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے جن کے بارے میں سوچنا ناگزیر ہو۔ 
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی کارکردگی کا معیار بلند ہو تو اپنا آپ پہچانئے اور اپنے آپ کو تنہائی میں کچھ وقت دیجیے ‘تاکہ زیادہ اور نیا سوچنے کی گنجائش پیدا ہو۔ ایسا کیے بغیر ذہن کی قوت بحال کی جاسکتی ہے‘ نہ اُس میں اضافہ ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved