تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     12-11-2018

سربراہِ حکومت کا دورئہ چین

1949ء میں اپنے قیام سے لے کر اب تک عوامی جمہوریہ چین کی خارجہ پالیسی کا یہ ایک منفرد اور مستقل خاصہ رہا ہے کہ اُس نے دیگر ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو اُن ممالک میں حکومتی تبدیلیوں یا اُن کے اندرونی معاملات کی وجہ سے کبھی متاثر نہیں ہونے دیا۔ افریقہ اور ایشیا‘ خصوصاً جنوبی ایشیا کے ممالک میں چین کو ایک عرصے سے جو پذیرائی حاصل ہے، اُس کے پیچھے یہی عنصر کار فرما ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال پاک چین تعلقات ہیں۔ 1960ء کی دہائی سے اب تک پاکستان میں کبھی نمائندہ جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں اور کبھی فوجی آمرانہ‘ مگر دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد، تعاون اور دوستانہ تعلقات میں نہ صرف گرمجوشی بدستور قائم رہی بلکہ وہ مزید گہرے اور وسیع ہوتے گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پہلی ہے، جس کے وقت میں برسوں سے قائم ان مضبوط رشتوں کی پائیداری کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے‘ اور عمران خاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں جن کے دورئہ چین کے بارے میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ وہ کامیاب رہا ہے یا نہیں؟ حالانکہ چینی وزارت خارجہ کے تازہ ترین بیان میں اسے ایک ''کامیاب‘‘ دورہ قرار دیا گیا ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس دورے کو بارآور قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود بعض حلقے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ وزیراعظم پاکستان اس دورے سے جو نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے‘ اُس میں وہ ناکام رہے ہیں۔ 
وزیراعظم عمران خاں کے دورئہ چین کے کیا مقاصد تھے؟ کیا وہ اُنہیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں؟ اور مستقبل میں پاک چین تعلقات کی نوعیت اور سمت کیا ہوگی؟ اس کالم میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وزیراعظم کی چین روانگی سے قبل حکومت کے چند اعلیٰ اور ذمہ دار حکام نے جو بیانات دیتے، اُن کی روشنی میں اس دورے کے تین مقاصد تھے: ملک کو درپیش شدید مالی بحران سے نکالنے کیلئے مالی امداد کا پیکیج حاصل کرنا، سی پیک کے بعض منصوبوں پر نظرثانی کرنا اور غربت اور کرپشن کے خاتمہ میں چین کے کامیاب تجربے سے استفادہ کرنا۔ دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، اور دونوں جانب سے جو بیانات جاری کئے گئے ‘اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان کو فوری طور پر درکار سعودی طرز کا مالی پیکیج نہیں مل سکا؛ البتہ چین نے ''اصولی طور‘‘ پر پاکستان کو موجودہ مالی مشکلات پر قابو پانے اور مستقبل میں ایک مستحکم معیشت کے قیام میں مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے ضروری تفصیلات طے کرنے کے حوالے سے چین نے دونوں ملکوں کے درمیان ماہرین کی سطح پر بات چیت کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز کے جواب میں پاکستانی ماہرین کے ایک وفد‘ جس میں سٹیٹ بینک کے گورنر اور وفاقی سیکرٹری خزانہ شامل تھے، نے بیجنگ میں چینی حکام سے گفتگو کی۔
مشترکہ اعلامیہ میں سی پیک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے اس کے پہلے مرحلے کی کامیاب تکمیل پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اسے بغیر کسی تبدیلی کے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سی پیک کو سکیل ڈاؤن‘ اس کے کچھ منصوبوں کو ترک کرنے یا ان پر عمل درآمد کو کچھ عرصہ کیلئے ملتوی کرنے کی جو تجاویز حکومتی حلقوں کی طرف سے پیش کی جا رہی تھیں، وہ قبل از وقت ‘ناقابل عمل اور ناقص معلومات پر مبنی ثابت ہوئیں۔ وزیراعظم اور اُن کے وفد کو سی پیک پر اپنے تحفظات کو ایک طرف رکھ کر چین کے ساتھ مل کر سی پیک کی اہمیت اور اسے دونوں ملکوں کے مفادات کے لئے ضروری قرار دے کر اسے جاری رکھنے کا عہد کرنا پڑا۔ مشترکہ اعلامیے اور چین کے اعلیٰ حکام کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کو پاکستان کی مالی مشکلات پر تشویش ہے اور اس کیلئے انہوں نے پاکستان سے درآمدات کو تین گُنا بڑھانے کی پیشکش کی ہے۔ اب یہ پاکستان کا کام ہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر کے اور چین کو برآمد کئے جانے والے مال کی پیداوار بڑھائے تاکہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ پورا ہو سکے۔ جہاں تک غربت اور کرپشن کا تعلق ہے، پاکستان اس بارے میں چین کے تجربات سے یقینا بہت کچھ سیکھ سکتا ہے‘ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ چین میں غربت، معاشی ناہمواری اور کرپشن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی‘ کیونکہ یہ مسائل مارکیٹ اکانومی کے تحت ترقیاتی عمل کی ناگزیر پراڈکٹ ہیں؛ البتہ چین میں ان خرابیوں کو ختم کرنے کیلئے پوری سنجیدگی کے ساتھ عمل ہو رہا ہے‘ لیکن پاکستان اور چین میں فرق یہ ہے کہ چین میں کرپشن کے خلاف مہم سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے نہیں چلائی جاتی‘ نہ ہی اس میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ چین نے اس شعبے میں پاکستان کی مدد کیلئے کرپشن کے خلاف مہم کا ماڈل بھی پاکستان کے حوالے کیا ہے۔ تینوں مقاصد کے حوالے سے اگر ہم وزیراعظم کے دورے کا جائزہ لیں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دورہ ناکام رہا ‘بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ دورہ مفید رہا ہے تو زیادہ مناسب ہوگا‘ کیونکہ اس دورے سے پاک چین تعلقات خصوصاً سی پیک کے بارے میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات نے جو غلط فہمیاں پیدا کی تھیں، وہ کافی حد تک دور ہو گئی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس دورے کے بعد چین اور پاکستان کی قیادت باہمی تعلقات اور سی پیک کے مسئلے پر ایک پیج پر آ گئی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم کے سب سے اہم مشیررزاق داؤد ‘جو چین کے دورے پر وزیراعظم کے ہمراہ تھے، بھی اب پاک چین تعلقات اور سی پیک پر چینی حکومت کے مؤقف سے متفق نظر آتے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ تجارت میں اگر پاکستان کو ایک بہت بڑے خسارے کا سامنا ہے تو اسے دور کرنے کا واحد اور بہترین حل وہی ہے جو چینی وزیراعظم نے ہمارے وزیراعظم کو بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ چین کے لئے پاکستانی برآمدات میں اضافہ کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب پاکستان اپنے ہاں پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرے۔ دوسرے الفاظ میں گیند اب پاکستان کی کورٹ میں ہے۔ اگر کچھ حلقوں کی طرف سے اصرار کیا جا رہا ہے کہ یہ دورہ ناکام رہا، تو اس کی ذمہ داری خود پاکستان کی حکومت کے سر ہے‘ جس کے اہم رہنماؤں نے میڈیا کے ذریعے ایک 'ہائپ‘ پیدا کر دی تھی۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ دورہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا‘ وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر دورے کے بعد کچھ لے کر آیا جائے‘ چینی نائب وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ چین پاکستان کی مالی اور معاشی مشکلات دور کرنے میں کیا کر سکتا ہے اس کی تفصیلات طے کرنا ضروری ہے۔ ابھی اس مقصد کیلئے پاکستانی وفد بیجنگ نہیں پہنچا تھا کہ وزیر خزانہ نے کہا کہ چین کی طرف سے پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا مالی پیکیج زیر غور ہے‘ بلکہ اس کا فیصلہ ہو چکا ہے‘ چینی اسے جان بوجھ کر برملا نہیں بتا رہے کیونکہ چین کا طریقہ یہی ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خاں کا یہ دورئہ چین محض علیک سلیک یا کرٹسی کال کا دورہ نہ تھا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا شیڈول پانچ دن پر محیط تھا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دورے کے دوران میں پاکستان اور چین کے درمیان نہ صرف باہمی مسائل بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر مشترکہ چیلنجوں پر سیر حاصل اور ہمہ گیر بات چیت اور تبادلۂ خیال مقصود تھا۔ پاکستان کے اندر اور ارد گرد جو حالات ہیں اُن کا تقاضا بھی یہی تھا‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم اور ان کا وفد مناسب تیاری کے بغیر ہی چین کے دورے پر چلا گیا‘ حالانکہ اس قسم کے اہم دورے سے پہلے ماہرین کی سطح پر اُن تمام اُمور پر بحث کی جاتی ہے اور ایک ایسی لائن پر اتفاق کر لیا جاتا ہے، جس کا اعلان اعلیٰ ترین سطح پر دورے کے اختتام پر کیا جاتا ہے۔ چینی حکومت کی اس معاملے میں تیاری مکمل تھی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ معاملات میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لیکن ایک مخلص دوست کی حیثیت سے انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سی پیک اور تعلقات کے دوسرے شعبوں میں پاکستان کے جو بھی تحفظات ہوں گے چین اُن پر بحث کرنے اور دور کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ تو ہمارا کام ہے کہ ان تحفظات کو واضح طور پر اور ٹھوس شکل میں چینی حکومت کے سامنے پیش کریں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ آج کا چین 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں والا چین نہیں ۔ اگرچہ پاکستان کیلئے خیرسگالی اور حمایت میں کوئی فرق نہیں پڑا‘ مگر علاقائی مسائل پر چین کی پالیسی اور حکمت عملی وہ نہیں جو پچاس، ساٹھ سال پہلے تھی۔ پاکستان کو اس کا مکمل ادراک ہونا چاہیے اور اس کے مطابق نہ صرف خطے کے بارے میں بلکہ چین کے ساتھ تعلقات میں پالیسی کو ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved