تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-04-2013

جرابوں کی تبدیلی

دوسری جنگ عظیم کے دورا ن اتحادی فوجیوں کی ایک انفنٹری یونٹ کسی پہاڑی چوٹی پر مورچہ زن تھی اور جاپانی فوجوں کی طرف سے اس چوٹی پر قبضہ کرنے کے لیے شدید حملے جاری تھے جن کی وجہ سے کوئی ایک ماہ سے یہ یونٹ تقریباً محصور ہو کر رہ گئی تھی اور اسے زمینی یا فضائی کسی بھی راستے سے کسی قسم کی کمک نہیں پہنچ رہی تھی۔ یونٹ کمانڈر نے دو ماہ کے لیے خوراک کا ذخیرہ تو رکھا ہوا تھا لیکن بھاری فوجی بوٹوں کے ساتھ پہنی جانے والی جرابوں اور وردیوں کا سٹاک موجود نہیں تھا‘ جس سے فوجی جوانوں کے کپڑوںاور خاص طور پر ان کی جرابوں سے بد بو کے بھبکے اس بری طرح اُٹھ رہے تھے کہ خندقوں میں فوجیوں کا سانس لینا بھی محال ہوتا جا رہا تھا۔ جب یہ محاصرہ دو ماہ تک جاری رہا تو فوجی وردی اور جرابوں کو تبدیل کرنے پر اصرار کرنے لگے۔ ایک صبح یونٹ کمانڈر نے جوانوں کو خوش خبری دی کہ کل جرابیں تبدیل کر دی جائیں گی؛ چنانچہ فوجیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اگلے دن صبح صبح یونٹ کمانڈر نے حکم جاری کردیا کہ ا پنی جرابیں تبدیل کرانے کے خواہش مند فوجی جوان اور افسر ایک دوسرے کی جرابوں سے اپنی جرابیں تبدیل کر لیں۔ مانسہرہ کے حالیہ جلسہ عام میں جناب نواز شریف نے قوم سے جس تبدیلی اور معاشی دھماکہ کا وعدہ کیا ہے‘ لگتا ہے کہ وہ بھی برطانوی فوج کے اس کمانڈر کی طرح کا ہے‘ کیونکہ سننے میں آ رہاہے کہ جنرل بٹ نے جب جناب نواز شریف کو تبدیلی لانے کا یہ بیش قیمت اور انوکھاواقعہ سنایا تو انہیں یہ طریقہ اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے فوری طور پر ٹرپل سنچری مکمل کرنے کا حکم جا ری کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے جنرل مشرف کے تین سو سے زائد ارکان کو نواز لیگ میں شامل کر کے قوم سے کیا جانے والا تبدیلی کا وعدہ انتخابات مکمل ہونے سے پہلے ہی پورا کر دیا ۔۔۔ شاید اسی لیے میاں صاحبان نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ’’ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں‘‘۔ نواز لیگ کے ماتھے کا جھومر بننے والی جنرل مشرف کی فوج ظفر موج میں امیر مقام، لیاقت جتوئی، گوہر ایوب خان ،ماروی میمن، ہمایوں اختر جیسے لوگ دکھائی دیتے تھے تو قومی تعمیرِ نو بیورو کے دانیال عزیز، وقاص اکرم شیخ اور زبیدہ جلال کی بد قسمتی پر رحم آتا تھا اور لوگ سوچتے تھے کہ ان بے چاروں سے کیا قصور سر زد ہوا ہے‘ لیکن آخر وہ کمی بھی پوری ہو گئی اور تین دن پہلے زبیدہ جلال ، دانیال عزیز اور وقاص اکرم شیخ نے بھی مسلم لیگ (مشرف نواز )میں شامل ہو کر تبدیلی کا خواب پورا کر دیا ہے۔ جنرل مشرف کی کابینہ میں وزیر تعلیم رہنے والی زبیدہ جلا ل کی شکل میں جنرل مشرف کے بچ جانے والے آخری اثاثے نے بھی جب میاں نواز شریف اورشہباز شریف کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کیا تو مجھے قومی اسمبلی میں نواز لیگ او ر جماعت اسلامی کے لیڈران کا شور و غوغا یاد آ گیا۔ ووٹ دینے والے عوام کا حافظہ چونکہ کمزور ہے اس لیے انہیں یاد کرا دیتا ہوں کہ یہ وہی زبیدہ جلا ل ہیں جس کے بارے محترم اسحاق ڈار اور جماعت اسلامی کے معزز اراکین‘ جو اب زبیدہ جلال سے اتحاد کرنے جا رہے ہیں‘ نے قومی اسمبلی کے ایوان میں آسمان سر پر اٹھا لیا تھا کہ زبیدہ جلال نے بحیثیت وزیر تعلیم میٹرک کے نصاب سے قرآن پاک کی سورۃ توبہ کو خارج کروا دیا ہے۔ اس بات کی قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے آج بھی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اور دانیال عزیز کے بارے میں تو آج تک یہی کہا جاتا رہا ہے کہ قومی تعمیرِ نو بیورو کے نام پر ملک کا اربوں روپیہ ہضم کر گئے ہیں‘ شاید ہڑپ کیے گئے مال میں سے حصہ وصول کرنے کے لیے ان کو پناہ میں لے لیاگیا ہے۔ کیا قوم کے نوجوان‘ جنہوں نے آنے والی زندگیوں کو اپنے لیے آسان بنانا ہے‘ ان کو قبول کریں گے‘ اگر عقیدے اور نظریے لباس کی طرح صبح و شام بدلنے کی چیزیں ہیں یا موسم کی تبدیلی کے ساتھ ان میں تغیرات بھی ضروری ہیں تو پھر یاد رہے کہ مفادات کی قربان گاہوں پر مصالحت اور مصلحت کے خار دار جھاڑ ہی اُگیں گے اور فرد سے لے کر جماعت تک اور معاشرے سے لے کر ریاست تک کوئی چیز بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ نو جوان نسل کو اپنا ووٹ استعمال کرتے ہوئے یہ حقائق اپنے سامنے ضرور رکھنا ہوں گے‘ ورنہ انتخابی امیدواروں کے اشتہارات پر کالی سیاہی سے لکھے جانے والے جھوٹے نعرے ملک کے خوبصورت چہرے کو بد نما بنا دیں گے۔ انتخابی امیدواروں کی اکثریت کو دیکھا جائے تو کل اور آج کا منظر ایک ہی ہے‘ صرف الفاظ کا پھیر ہے۔ سیا ستدانوں کی طرف سے ووٹ دینے والوں کی تذلیل کل بھی کی جاتی تھی‘ آج بھی کی جا رہی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پیسہ پیسہ کر کے جمع کی گئی رقموں کو ’’قرض اتارو‘ ملک سنوارو‘‘ کے نام پر لوٹنے والے ایک بار پھر معاشی دھماکہ کرنے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ آج قوم کا ہر فرد گزشتہ پچیس سالوں میں وقفے وقفے سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے نعروں کے غل غپاڑے اور رنگ برنگے جھنڈوں کے سائے تلے حیران و پریشان کھڑا ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے۔ ہمارا وہ کل کیسا ہو گا جس کی خاطر ہماری مائیں کبھی بجلی‘ کبھی پانی‘ کبھی گیس اور کبھی تندور کی روٹی کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں گھنٹوں سڑکوں پر ذلیل و خوار ہوتی رہی ہیں؟ نہ جانے کتنی مائوں نے بچوں کی بھوک سے بدحواس ہو کر دریائوں میں چھلانگیں لگا دیں! نہ جانے کتنی بہنوں نے اپنے خاندان کی بھوک مٹانے کے لیے عزتیں لٹانے کی بجائے خود کشیاں کر لیں! عوام کی بوٹیاں نوچنے اور ان کے خون کو جونکوں اور چمگادڑوں کی طرح چوسنے والے پھر ’بدلا ہے پنجاب‘ جیسے نئے نعرے کے ساتھ انہی بد بو دار جرابوں کی سڑانڈ سے عوام کے ہوش وحواس اُڑانے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔ ایک طرف نت نئے بھیس بدلنے والے ان سیا سی لیڈروں کا گروہ ہے تو دوسری طرف مصلحت اندیش علماء۔۔۔۔ کیا ملک کا نو جوان اور با شعور شخص بھول گیا ہے کہ یہی تو وہ’’ مہربان‘‘ ہیں جو پچیس سالوں سے ان کے والدین کو اور انہیں چاند دکھانے کے وعدے کرتے رہے لیکن دن میں تارے دکھا دیئے۔۔۔۔ کیا مومن ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسا جا سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved