تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-11-2018

سُرخیاں اُن کی، متن ہمارے

حکومت کیخلاف تحریک چلانے کے موڈ میں نہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر اور رکن قومی اسمبلی چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک چلانے کے موڈ میں نہیں ہیں‘‘ کیونکہ اپنے خلاف کرپشن کی انکوائری وغیرہ نے سارا مُوڈ ہی آف کر دیا ہے‘ جبکہ ہم میں اب وہ دم خم بھی نہیں ہے کہ اس طرح کی کوئی حرکت کر سکیں‘ اس لیے اپنی کھال میں بنا ہی اچھا لگتا ہے ‘جبکہ پہلے ہم مال مست تھے اور اب کھال مست ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ''حکومت اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے بوجھ تلے دبے‘‘ اگرچہ ہم اپنی غلطیوں کے بوجھ تلے دبنے کی بجائے اُچھل کر باہر آ گئے ہیں ‘یعنی مقدمات اور انکوائریاں ہیں اور ہم۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف کسی مصلحت کے تحت خاموش ہیں‘‘ کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ این آر او کی بھیک بھی مانگی جائے اور ساتھ ساتھ تندس اور تیزی بھی چلتی رہے کہ یہ تو اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا‘ جبکہ ہم یہ کلہاڑی پہلے بھی مار چکے ہیں‘ جس کا اندازا ہمارے پاؤں زخمی دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم کے پاس این آر او کا اختیار نہیں: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور رکن قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کے پاس این آر او کا اختیار نہیں‘‘ ورنہ وہ کب کے دے چکے ہوتے‘ کیونکہ اس کے لیے آہ و زاری ہی اس شدت سے کی گئی ہے کہ دشمن کا بھی دل پگھلا دے‘ سو اب یہ پتا چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ این آر او کا اختیار اگر ہے‘ تو کس کے پاس ہے‘ تاکہ اس سے رجوع کیا جائے ‘جبکہ این آر او کی ایک روشن مثال پہلے بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''احتساب سے نہیں گھبراتے‘‘ کیونکہ اگر گھبرائیں بھی تو اس کا کیا فائدہ ہے کہ اس نے تو ہو کر ہی رہنا ہے‘ جبکہ وزیراعظم باقی سارا کام چھوڑ کر اسی فضول چیز کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور نیب بھی گزشتہ خیرسگالیو کو سراسر نظر انداز کرتے ہوئے ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہے‘ جبکہ ایل این جی والا بم بھی پھٹنے والا ہے‘ اس لیے گھبرانے کی کوئی تُک نہیں بنتی‘ بلکہ گھبراہٹ کو ہم سے گھبرانا چاہئے۔ آپ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
ن لیگ کے قائدین کو این آر او کی ضرورت نہیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اور ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ن لیگ کے قائدین کو این آر او کی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ این آر او موجودہ مقدمات ہی کی حد تک کارآمد ہو سکتا ہے‘ لیکن جو مزید بیشمار مقدمات بن رہے ہیں‘ اُن پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لیے سارے کے سارے مقدمات کے فیصلوں تک انتظار کرنا پڑے گا اور نیک کام میں ویسے بھی جلدی نہیں کرنی چاہیے‘ جبکہ ہمارے قائدین کی ساری عمر نیک کاموں ہی میں گزری ہے‘ تاہم یہ نیک کام کچھ زیادہ ہی ہو گئے تھے‘ اس لیے انہیں مزید نیک کام کرنے کی ویسے بھی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قومی احتساب بیورو مکمل طور پر سیاسی ہو چکا ہے‘‘ کیونکہ اس کا نزلہ سیاسی لوگوں پر ہی گر رہا ہے ؛حالانکہ یہ بیچارے تو سیاست ہی کرتے ہیں ‘جس میں ہر کام کے لیے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
سابق حکمرانوں کے پیدا کردہ مسائل ہم بھگت رہے ہیں: شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ''سابقہ حکمرانوں کے پیدا کردہ مسائل ہم بھگت رہے ہیں‘‘ اور ہمارے پیدا کردہ مسائل آنے والی حکومت بھگتے گی‘ اس لیے ہمارے بعد اپنی باری پر اقتدار میں آنے کی خوشی میں بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے‘ کیونکہ انہیں ہمارے چھوڑے ہوئے مسائل دیکھ کر لگ پتا جائے گا‘ جو کہ ان کے لیے خاصا عبرت ناک معاملہ ہوگا‘ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ مسائل کا مزا جلد از جلد چکھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ''75دنوں کا حساب مانگنے والے چالیس برس کا حساب دیں‘‘ جبکہ حساب کے اسی لین دین میں ہمارا بھی وقت گزر جائے گا اور آنے والی حکومت کا بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سابق حکومت کی شاہ خرچیاں ہیں‘‘ جسے دیکھ دیکھ کر ہمیں رشک بھی آتا ہے‘ لیکن ہمارے پاس ابھی اتنا پیسہ ہی نہیں کہ شاہ خرچیاں کر سکیں‘ جس کے لیے خدشہ ہے کہ کافی انتظار کرنا پڑے گا‘ جبکہ انتظار موت سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں ایک استقبالیے سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران کے ساتھی پنجاب حکومت ریموٹ 
کنٹرول سے چلانا چاہتے ہیں: وجیہہ الدین
پاکستان پیپلز موومنٹ کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہہ الدین 
نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے ساتھی پنجاب حکومت ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ یہ ریموٹ کنٹرول خاکسار کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ پیپلز موومنٹ تو بس برائے نام ہی ہے‘ یعنی یہ وہ نادرِ روزگار موومنٹ ہے‘ جو مُوو کرنے سے قاصر ہے ؛چنانچہ سارا دن مکھیاں مارنے سے بہتر ہے کہ ریموٹ کنٹرول ہی کر لیا جائے؛ اگرچہ اس کے تھوڑا عرصہ بعد میں نے استعفیٰ ہی حسب معمول دے دینا ہے‘ اس لیے امید ہے کہ عمران خان اپنی سہولت کی خاطر یہ پیشکش قبول کر لیں گے‘ جبکہ پیپلز موومنٹ کی جگہ میرا مُوو کرنا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں حکومت کی رٹ نظر نہیں آ رہی‘‘ جس میں میری بینائی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے‘ کیونکہ میری بینائی کافی کمزور ہو چکی ہے اور بعض چیزیں موجود ہونے کے باوجود نظر نہیں آتیں‘ بلکہ اب تو عینک بدلوانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا؛ حالانکہ حکومت کی دُھندلی رٹ تو نظر آنی ہی چاہئے ‘اس لیے میرا خیال ہے کہ عینک کی بجائے کسی دوربین یا خوردبین ہی کا تردد کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
میں چُوم لیتا ہوں اُس راستے کی خاک‘ ظفرؔ
جہاں سے کوئی بہت بے خبر گزرتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved