تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-11-2018

کہکشاں اور ستارے

زندگی کا معاشی پہلو ہمارے پورے وجود پر حاوی ہوکر رہ گیا ہے۔ یہاں یہ جملۂ معترضہ ذہنوں میں ابھر سکتا ہے کہ ایسا کب نہیں تھا۔ انسان جب سے رُوئے ارض پر ہے تب سے معاشی امور زندگی کے بیشتر معاملات پر انتہائی متصرف رہے ہیں۔ بات حیرت انگیز ہے ‘نہ افسوسناک۔ معاش کا معاملہ زندگی کے ہر پہلو کو کسی نہ کسی شکل میں متاثر کرتا ہی ہے۔ حد یہ ہے کہ مذہبی اور روحانی پہلو بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہ اعتراض البتہ کیا جاسکتا ہے کہ معاملہ کردار اور مزاج کی پختگی کا ہے۔ 
آج کی کاروباری دنیا بہت سے معاملات میں انوکھی ہے۔ کل تک جن اصولوں کی بنیاد پر کاروباری دنیا کی عمارت کھڑی تھی وہ اب فرسودہ ٹھہرے ہیں۔ اور ایسا تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ کل تک کاروباری دنیا کے معاملات زندگی سے ہٹ کر کوئی سلسلہ معلوم ہوتے تھے۔ جن کے ہاتھ میں معاشرے کے معاشی امور ہوا کرتے تھے وہ تمام معاملات کو اس طور چلاتے تھے گویا اُن کا معاشرے سے کوئی براہِ راست تعلق نہ ہو اور اُنہیں کہیں سے ''مشن‘‘ دے کر بھیجا گیا ہو! معاشی سرگرمیوں کا ہر حصہ اس طور انجام تک پہنچتا تھا ‘جیسے وہ معاشرے کی عمومی روش سے ہٹ کر کوئی بہت انوکھا معاملہ ہو۔ 
صدیوں یہ سلسلہ رہا کہ کام کرنے والوں سے کام تو لیا جاتا تھا‘ مگر وہ معیشت کا باضابطہ حصہ نہیں گردانے جاتے تھے۔ بظاہر غلام نہ ہوتے ہوئے بھی عام آدمی سے کام اسی طور لیا جاتا تھا‘ گویا غلام ہو۔ معاشروں کی عمومی روش ہی کچھ ایسی تھی کہ لوگ غلاموں کے سے انداز سے کام کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ کچھ یوں بھی تھا کہ علوم و فنون نے ترقی نہیں کی تھی۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے معاشی سرگرمیوں کا جاری رکھنا بھی دردِ سر سے کم نہ تھا۔ ایسے میں عام آدمی خوفزدہ رہتا تھا کہ کب سلسلۂ معاش تھم جائے اور دو دن جینا بھی دشوار ہو جائے۔ یہی خوف اُسے استحصال کے خلاف کچھ کہنے سے بھی روک دیتا تھا۔ 
ڈھائی تین صدیوں کے دوران فطری علوم و فنون میں غیر معمولی‘ بلکہ حیرت انگیز پیش رفت ممکن ہوئی ہے‘ تو انسان کے لیے بہت سے معاملات میں باضابطہ سوچ کا اپنانا بھی ممکن ہوسکا ہے۔ کاروباری دنیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ امریکا اور یورپ میں جدید فطری علوم و فنون سے متعلق پیش رفت کا دائرہ اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ پوری دنیا اُس کے مثبت اور منفی دونوں ہی نوع کے اثرات سے دور نہیں۔ جب معاشی سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر مربوط کرنا ممکن ہوا تو عام آدمی کے لیے بھی یہ ممکن ہوا کہ زیادہ اور بڑا سوچے۔ سوچ میں وسعت آئی تو لیاقت بھی بڑھی اور یوں کام کرنے کی سکت اور لگن دونوں کا گراف بلند کرنا بھی ممکن ہوا۔ 
جدید کاروباری دنیا جن اصولوں کی بنیاد پر کام کر رہی ہے‘ وہ تسلیم شدہ اور کارگر ہیں۔ یہ اصول راتوں رات مرتب اور مروّج نہیں ہوگئے۔ دو ڈھائی سو سال کے عمل میں بہت کچھ تبدیل ہوا اور ہزاروں سال سے حرزِ جاں بنی ہوئی بہت سی باتیں یوں ترک کردی گئیں گویا اُن کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ امریکا اور یورپ نے اس دوران پوری دنیا کو بتایا ہے کہ اگر زندگی کا ڈھانچا پورا کا پورا تبدیل کرنا ہو تو ایسا بھی ممکن ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بات تبدیلی کی ہو رہی ہے‘ اثرات کی نہیں۔ امریکا اور یورپ نے اپنے ہاں جو کچھ بھی تبدیل کیا‘ اُس کے اثرات کی نوعیت پر بحث کی جاسکتی ہے اور کی جاتی رہی ہے۔ 
آج کی کاروباری دنیا کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کام اِتنے بڑے پیمانے پر کیا جائے کہ چھوٹے اداروں کے لیے برقرار رہنا اور پنپنا انتہائی دشوار ہو جائے۔ بہت سے حد تک یہ عمل فطری نوعیت کا بھی ہے۔ جب بہت بڑے پیمانے پر کچھ تیار کیا جاتا ہے‘ تو لاگت کم رہ جاتی ہے اور معیار بلند ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معیار کی یکسانیت برقرار رکھنا ممکن ہو جاتا ہے‘ جسے عرفِ عام میں ''اسٹینڈرڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
آج کی کاروباری دنیا میں دوسرے بہت سے امور کے ساتھ ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھا جاتا ہے کہ جن سے کام لیا جارہا ہے‘ وہ خود کو محض ملازم یا کولھو کے بیل نہ سمجھیں۔ معمولی دکان سے بہت بڑے کارپوریٹ ادارے تک ... کوئی بھی ملازم پوری دل جمعی سے اُسی وقت کام کرتا ہے جب اُسے محض پُرزہ سمجھ کر ایک طرف نہ رکھا جائے‘ بلکہ پوری مشینری کا لازمی جُز گردانتے ہوئے بھرپور احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔ کسی بھی معاشی سلسلے سے جُڑا ہوا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اُسے بھی احترام کی نظر سے دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بارآور اور مفید بنانے پر توجہ دی جائے۔ جب تک کسی کو اہم نہ گردانا جائے تب تک اُس میں کام کرنے کی بھرپور لگن پیدا نہیں ہوتی۔ ہر انسان فطری طور پر اِس امر کا خواہش مند ہوتا ہے کہ محض اُس کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے‘ بلکہ وجود کی افادیت بھی قبول کی جائے۔ اپنی لیاقت اور سکت کے دائرے میں ہر انسان معاشرے کے لیے کچھ نہ کچھ کر ہی رہا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اگر تسلیم کیا جائے ‘تو بات کچھ اور ہو جاتی ہے۔ تسلیم کیے جانے پر انسان کا خُون بڑھتا ہے‘ کام کرنے کی حقیقی لگن پیدا ہوتی ہے۔ 
اکیسویں صدی میں کاروباری دنیا کا ماحول بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ آج انسانی وسائل کی ترقی سے متعلق معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ ادارہ ہر ملازم کی مہارت اور استعدادِ کار سے بھرپور استفادہ چاہتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہر ملازم کو کام کرنے کی بھرپور تحریک دی جاتی رہے۔ کام کی تحریک دینے کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ کسی بھی شخص کو محض ملازم کی حیثیت سے قبل نہ کیا جائے‘ بلکہ پوری ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔ جب پے رول پر موجود ہر شخص کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ٹیم کا حصہ ہے اور اُس کی بات سُنی بھی جاتی ہے‘ تب وہ خود کو ادارے کی مجموعی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کا ذمہ دار محسوس کرتا ہے اور اس حوالے سے اپنے آپ کو بروئے کار لانے پر مائل بھی ہوتا ہے۔ 
کسی بھی کاروباری ادارے کے لیڈر پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ٹیم کے ہر فرد کو یہ احساس دلائے کہ وہ ادارے کی کارکردگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت اور استعداد فرد میں پہلے ہی ہوتی ہے۔ جب اُسے ٹیم کے اہم رکن کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے‘ تب دل کو عجیب سی طمانیت محسوس ہوتی ہے اور وہ زیادہ پُرعزم و پُرجوش ہوکر اپنی کارکردگی کا گراف بلند کرنے پر متوجہ ہوتا ہے۔ 
جدید کاروباری رجحانات میں اِس امر کی غیر معمولی اہمیت ہے کہ جُز کو کُل کا حصہ گردانا جائے‘ یعنی فرد کو پوری ٹیم کے لیے ناگزیر قرار دیا جائے۔ ٹیم کا حصہ قرار دیئے جانے پر فرد کے لیے اپنی طے کردہ حد سے بھی کچھ آگے جاکر کام کرنا ممکن ہو پاتا ہے۔ ادارہ سمندر کی طرح ہوتا ہے‘ جس میں فرد کو تیرنا ہوتا ہے نہ کہ ڈوبنا۔ کہکشاں ستاروں سے بنتی ہے ‘مگر ہر ستارہ اپنی شناخت بھی تو چاہتا ہے۔ ہر کاروباری ادارہ بھی کہکشاں ہے؛ اگر ستاروں کی انفرادی شناخت بھی باقی اور توانا رہے تو زیادہ چمکنے کی تحریک ملتی ہے۔ بصورتِ دیگر ستاروں کے دل بُجھ سے جاتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved