تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     12-11-2018

آنسو

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا جواب اہلِ علم ہی دے سکتے ہیں ۔ وہ لوگ جو اللہ کے نور سے دیکھتے ہیں ۔ جب کہ ہم عام دنیا دار لوگ ان چیزوں کے بارے میں اندازے ہی لگا سکتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ کے نور سے دیکھنے والے کتنے ہیں ؟ ہزاروں‘ بلکہ شاید لاکھوں میں ایک۔ تو کیوں نہ ہم عام دنیا دار بھی اپنی استعداد کے مطابق خدا‘ زندگی ‘ آدمؑ ‘ نفس اور شیطان کے بارے میں سوچنے کی کوشش کریں ۔ ہو سکتاہے کہ ہماری کسی سوچ میں اللہ برکت ڈال دے ۔اس کوشش میں خدا کے ساتھ کچھ تعلق پیدا ہوجانے کا کچھ امکان تو ہے ۔ہو سکتاہے کہ اس کوشش میں ہماری عقل خدا کی طرف متوجہ اور یکسو ہو جائے ۔ پھر یہ کہ سوال اٹھانا لازم ہے ۔ ہو سکتاہے کہ کوئی پڑھنے والا ہم سے بہتر جواب دے سکے ۔ 
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اللہ نے آدمی کو فرشتوں پہ فوقیت کیوں دی ۔ اس میں ایسی خاص بات کیا تھی ؟ خطا کا پتلا ‘ جو بھول جاتا ہے ‘ پھسل جاتا ہے ۔ جو مسلسل کھائے پیے بغیر عبادت نہیں کر سکتا ۔ روزانہ جسے چھ سات گھنٹے سونا ہوتاہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ وہ کون سے اسما تھے‘ جو آدمؑ کو سکھائے گئے اور جس کی بنیاد پر انہوں نے فرشتوں کو شکست دی ۔ اصل بات یہ تھی کہ آدمؑ میں کئی ایسی خوبیاں تھیں ‘ جو ان سے پہلے کسی مخلوق میں نہیں تھیں ۔ تخلیق کرنے والا تو اللہ ہی تھا‘ لیکن ایجاد کرنے والا ایک موجد بھی اپنی ہر تخلیق کو ایک برابر نہیں گنتا ۔ ہر تخلیق کا‘ ہر ایجاد کا اپنا ایک وزن ہوتاہے ‘ جو اس کی خصوصیات پر منحصر ہوتاہے ۔ آدمؑ میں ایسی کئی خوبیاں تھیں ۔ پہلی بات یہ تھی کہ ان میں artificial intelligenceتھی ۔ artificialاس لیے کہ یہ آدمؑ کی اپنی مِلک نہیں تھی ‘بلکہ خدا کی طرف سے انہیں تحفے میں دی گئی تھی ۔ اس مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ان میں ایسی قابلیت پیدا ہوئی کہ انہیں وہ سارے اسماء سکھائے جا سکتے تھے ‘ جو فرشتے اپنی اربوں برس کی زندگی میں بھی نہ سیکھ سکے ۔اسی ذہانت کا کرشمہ یہ ہے کہ انسان تیراکی‘ ڈرائیونگ ‘ پیرا گلائیڈنگ اور فٹ بال سمیت جس چیز پر بھی توجہ دے‘ اسے چند مہینوں میں سیکھ لیتاہے ۔ 
اللہ نے انسان کو ایک اورانتہائی خوبصورت صلاحیت یہ دی تھی کہ پیدائشی طور پروہ نیکی اور بدی میں سے ایک کا انتخاب کرسکتا تھا۔ جب کہ کیمیا کا اصول یہ ہے کہ ایک عنصر ہمیشہ ایک ہی خاصیت ظاہر کر سکتاہے ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک دفعہ تو وہ ایک خاصیت ظاہر کرے اور دوسری دفعہ اس کے برعکس خاصیت ظاہر کرے۔ تو انسان کا جسم اور دماغ بھی ان 92عناصر سے مل کر بنا ہے ‘لیکن اس میں کشمکش ساری زندگی جاری رہتی ہے ۔ گناہ اور نفس اسے اپنی طرف کھینچا ہے‘خدا اور اس کی ہدایت اپنی طرف۔ 
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
یہاں پر اس عظیم کیمیا دان کی کاریگری پر دل اش اش کر اٹھتا ہے کہ جس نے ہمارے جسم میں عناصر کو ایسے جو ڑا کہ اس میں متضاد خصوصیات پیدا ہو گئیں ۔ گناہ کی طرف رجحان بھی اور نیکی کی خواہش بھی ۔
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں 
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے 
آدمؑ میں دومیں سے ایک کا انتخاب کرنے کی صلاحیت اس مصنوعی ذہانت ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی‘ جو خدا نے انہیں عطا کی ۔ خدا نے انسان کی آزمائش کے لیے جو طریقِ کار رکھا ‘ وہ بہت دلچسپ ہے ۔ خدا نے انسان کے دماغ میں مختلف کیمیکل رکھے ۔ جسم میں nervesرکھیں ۔ nervesکے ذریعے دماغ پیغام جاتاہے تو یہ کیمیکلز خارج ہوتے ہیں ۔ ان کیمیکلز کے اخراج سے انسان کو لذت حاصل ہوتی ہے ۔ دوسری طرف عقل میں ایسی روزشنی پیدا کی کہ جب یہ عقل خدا کے بارے میں سوچتی ہے تو یہ مبہوت رہ جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ خدا نے دنیا میں ہر جگہ اپنی نشانیاں رکھ دیں اور خود حجاب اختیار کیا ۔یہ نشانیاں اس قدر واضح تھیں کہ ایک معمولی فہم رکھنے والا انسان بھی انہیں دیکھ سکتا تھا ۔ ایک شخص جوان پڑھ ہے ‘ ٹھیلا لگاتا ہے ۔ وہ بھی اگر ذرا سی بھی کوشش کرے گا ‘تو خدا کی طرف جانے والے نشان اسے نظر آنا شروع ہو جائیں گے ۔ایک ان پڑھ بھی سوچ سکتاہے کہ زمین پر موجود ان گنت جانداروں میں سے صرف انسان ہی لباس پہنتا ‘ اپنے مردے دفناتا اور ٹریفک سگنل پر رکتا ہے ۔ اسی سے صاف پتا چل جاتاہے کہ انسان ایک خاص مخلوق ہے ‘ جسے خصوصی طور پر عقل دی گئی ہے ۔ تو انسان کے کاسہ ٔ سر میں موجود یہ عقل ہی خدا کے وجود کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ جنہیں ان پڑھ دیہاتیوں سے لین دین کا موقع ملا ہو ‘ انہیں اس بات کا علم ہے کہ وہ کم تیز طرار نہیں ہوتے ۔ عقل اتنی ہی ہوتی ہے ‘ صرف اس کی dimensionsبدل جاتی ہیں ۔
آدمؑ کی ایک اور انمول خاصیت یہ تھی کہ ان پہ ندامت طاری ہوتی ہے ۔ ایک ایسی کیفیت انسان ابھی تک مصنوعی ذہانت والے پروگرامز میں نہیں رکھ سکا کہ جہاں اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے ‘اپنے خالق کے سامنے وہ آنسو بہانے لگیں ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جب آدمی اپنی غلطی پر نادم ہوتا ہے اور جب اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور جب وہ توبہ و تلافی کا راستہ ڈھونڈنا شروع کرتا ہے تو اس وقت شاید خدا بہت فخر سے فرشتوں کی طرف دیکھتا ہوگا۔ اس لیے کہ یہ واحد مخلوق ہے ‘ جسے اپنی مرضی سے ایک راستہ چننے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ جسے عبادت پر مجبور نہیں کیا گیا۔ جس میں خواہش رکھی گئی ہے ۔ جو ایک نیلے سیارے پر اپنی زندگی گزارنے کے لیے وسائل ڈھونڈتے ہوئے وحشیانہ جبلتوں کی مدد سے بقا کی جنگ لڑتا ہے ۔ وہ وحشیانہ جبلتیںجو اس زمین پر زندگی پیدا ہونے کے بعد80کروڑ سال تک جنم لیتی رہیں ‘ پھر بھی خدا اسے یاد رہتا ہے ۔ جب آدمی تھک جاتا ہے ‘ جب اسے گزری زندگی خسارا لگنے لگتی ہے ۔تو اس کی آنکھ سے ایک آنسو بہہ نکلتا ہے ۔ 
آنسو کیا ہوتاہے ؟ اپنی غلطی اور ناکامی کا اعتراف ۔ انسان سوچتا ہے تو دل کرتا ہے کہ قربان جائے اس پر وردگار کے ‘ جس نے آنسو تخلیق کیا ۔ آنسو کیا ہے ؟ کیسی تخلیق کرنے والی ذات ہے وہ کہ جس نے شرمندگی ظاہر کرنے کے لیے آنکھ سے پانی کا ایک قطرہ ٹپک جانے کا سسٹم تخلیق کیا ۔اس سے بڑی کاریگری اور کیا ہو سکتی ہے ؟ 
جیسے ہی یہ آنسو ٹپکتا ہے ‘ وہ رحمن و رحیم معاف کرنا شروع کرتا ہے ۔ ایک دو دن نہیں ‘ 70سالہ زندگی کے گناہ معاف کر دیتاہے ۔ اپنی غلطی کا اعتراف اور معافی ‘ خدا کو یہ اس قدر پسند ہے کہ توبہ کرنے والے کو وہ معاف ہی نہیں کرتا ‘بلکہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے ۔ انسان کو اتنی ذہانت دی گئی کہ کائنات کو دیکھتے ہوئے خدا کو پہنچان سکے‘ لیکن یہاں آکر یہ لگتاہے کہ یہ علم نہیں‘ بلکہ صرف ایک آنسو تھا ‘ جس کی وجہ سے خدا نے انسان کو فرشتوں پہ فضیلت دی ۔ 
یہ آنسو کیا ہے ؟ میری نظر میںیہ انسان کی طرف سے اپنے خالق‘ اپنے معبود‘ خدائے بزرگ و بر تر کے سامنے total surrenderہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved