آنکھیں ترس گئی تھیں کہ حقیقی رہنما ء کو دیکھیں ‘جو اپنے قول و فعل کا پکا ہو اور صحیح معنوں میں قوم کی رہنمائی فرمائے ۔لگتا یہی ہے‘ میری تلاش اور میرا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو ہے اور پرُ امید ہوں ‘اپنی زندگی میں اسے دیکھ سکوں‘آجکل کے دور میں بہت کم لوگ ہیں‘ جو غریب کا سوچتے ہیں۔ بڑی بڑی باتیں اور الیکشن سے پہلے بڑے بڑے دعوے تقریباًـہر سیاست دان کرتا ہے‘ مگر زبان کا مان کوئی ہی رکھ پاتا ہے ۔
ماضی میں حکومتوں نے بے شمار سکیمیں متعارف کروائیں تھیں‘ جن میں پلاٹوں اورقرضوں جیسی سکیمیں سر فہرست ہیں۔ غریبوںکی بنیادی ضروریات کو کچھ حد تک پورا بھی کیا گیا‘مگر اب جو منصوبہ موجودہ گورنمنٹ نے شروع کیا‘ اس کی مثال شاید ہی ملے۔غریب کی اپنی چھت اس کا اپنا مکان ۔سیلاب کے دوران جب تحریک انصا ف کے چیئرمین نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کا رہن سہن دیکھا تو انتہائی تشویش کا اظہار کیا ۔لوگوں سے دریافت کرنے پہ معلوم ہواکہ یہ لوگ عارضی گھر بناتے ہیں اوراس میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ جب سیلاب آتا ہے ‘تو وہاں سے دوسرے علاقوں میں کوچ کر جاتے ہیں۔ گویا ان کی زندگی خانہ بدوشوں جیسی تھی ۔عمران خان نے ان سے سوال کیا‘ آپ لوگ شہروں کی طرف کیوں نہیں چلے جاتے ؟جس پرعوام نے کہا: ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم یہاں سے شہروں کی طرف منتقل ہوں اور وہاں گھر بنا سکیں‘اسی وقت عمران خان نے اعلان کیا تھا‘ اگر پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو گورنمنٹ سب سے پہلے ان غریبوں کے لیے مناسب قیمت پہ گھر بنائے گی‘ جو انہیں آسان اقساط کی صورت میں مالکانہ حقوق پر دیں گے۔
2010ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی اسی طرز کا منصوبہ متعارف کروایا تھا۔ ابتدائی طور پہ یہ منصوبہ لاہور ‘سرگودھا‘جہلم‘ساہیوال اور فیصل آباد میں شروع کیا گیا۔لاہور میں دو فیز آشیانہ قائد اوردوسرا آشیانہ اقبال کے نام سے منسوب ہوئے۔ان میں سے ایک منصوبہ آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکیم خبروں کی زینت بھی بن رہا ہے‘ جس میں سابق وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فوادنیشنل احتساب بیور و میں زیر حراست ہیں اور کچھ دن پہلے اسی کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو بھی گرفتار کیاگیا اوران سے تفتیش کا عمل جار ی ہے۔ 1985ء کے بعد یہ پہلا واقعہ ہے‘ جب پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر کو گرفتار کیا گیا۔یہ کیس 2016ء میں شروع ہوا‘ جب آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کے متاثرین نے نیب میںدرخواستیں دیں ‘ اورجوازیہ پیش کیاگیا کہ اس سکیم میں سرمایہ لگانے کے باوجود گزشتہ سالوں میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی ہے‘ یہاں تک کہ ایک بھی گھر تعمیر نہ ہوسکا تھا۔جب تفتیش کا دائرہ کار بڑھایا گیا‘ تو اس کیس میں مزید پیچیدگیاں اور کرپشن کے شواہد سامنے آئے ۔اس منصوبے میں ایک کامیاب بولی لگانے والی کمپنی )چوہدری لطیف اینڈ سنز )سے خاص احکامات پرٹھیکہ ختم کرکے درجہ چہارم کی کمپنی کاسا ڈویلپر کو دیا گیا‘ جس کمپنی کی سب سے زیادہ شیئرہولڈر بسم اللہ ڈویلپرکے مالک شاہد شفیق کو بھی گرفتارکیا گیا تھا ۔ کامیاب بولی دینے والی کمپنی (چوہدری لطیف اینڈ سنز)کو جرمانے کے طور پہ حکومتی فنڈ سے خطیررقم ادا کی گئی ۔ صرف یہی نہیں اس منصوبے میں تعمیراتی کام کا ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دیا گیا‘ جو کہ بنانے میں ناکام رہی ‘ کنسلٹنسی کا ٹھیکہ 19کروڑاور 20لاکھ روپوں میں دیا گیا‘ جس کا بعد میں تخمینہ نیسپاک نے تقریبا 3کروڑ لگایا ۔
سابق حکومت تو اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکی ‘بلکہ سارا منصوبہ چندبیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی کرپشن کی نظر ہوگیا۔ا ب مالی بحران اور دیگر سیاسی کارکردگی کے فقدان کے ساتھ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کا آغاز یقیناایک حوصلہ مند رہنما کا کام ہے۔ عمران خان نے اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے پہلی تقریر میں اسی منصوبے کے آغاز کا اعلان کردیا تھا ‘ خاص طور پہ اس وقت یہ منصوبہ شروع کرنا‘ جب سیاسی طور پہ آپ پر شدید دباؤ میں ہوں‘ بیوروکریسی کے ساتھ آپ کے معاملات بھی کچھ اچھے نہ چل رہے ہوں ۔آپ کے بٹھائے ہوئے وزیراعلیٰ کوآپ کے ہی حکومت کے ایم پی ایزدِلی طور پر قبول نا کر رہے ہوں‘ بلکہ اس کے خلاف میڈیا ٹرائل چل رہا ہو‘یقینا اس وقت ایسا منصوبہ عمل میں لانا قابل ستائش ہے ۔ امیدہے‘ موجودہ سیاسی قیادت اپنے ان منصوبوں میں تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔