مملکت خداداد کی معیشت اور مسائل کو جس بے دردی اور بے حیائی سے ''بھنبھوڑا‘‘گیا ہے‘ اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ غضب خدا کا دس ممالک سے سات سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی تفصیلات حکومت حاصل کر چکی ہے۔ ہزراہا جعلی اکائونٹس کا انکشاف ہوا ہے جن کے ذریعے وطن عزیز سے ہونے والی منی لانڈرنگ ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب کا کہنا ہے کہ حاصل کردہ معلومات کے مطابق پاکستان سے 5.3ارب ڈالر بیرون ممالک لے جائے گئے ہیں‘ جو سات سو ارب بنتے ہیںاور جو کل اور اصل رقم کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ملزمان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے تک تمام ناموں کو صیغہ راز میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سب سے مشکل ہدف اقامہ ہولڈرز کے حوالے سے پیش آرہی ہے اور اصل شناخت تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ تفتیش کا دائرہ جب ملزم تک پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص فلاں ''بڑے آدمی ‘‘کا ڈرائیور یا منشی ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر کے مطابق بیرون ملک منتقل سات سو ارب روپے میں سوئس جائیدادیں اور برٹش ورجن آئر لینڈ سے تفصیلات ملنے کے بعدیہ رقم غیر معمولی حد تک بڑھ جائیں گی۔ تمام بڑے مگرمچھوں کو نوٹس بھجوا دئیے گئے ہیں اور کچھ ممالک میں ان کی رقوم بھی منجمد کروا دی گئی ہیں۔ نوٹسز کے جواب موصول ہونے کے بعد باقاعدہ ریفرنس بھی دائر کئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایم کیو ایم بھی بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہے‘ اس حوالے سے جلد اہم پیشرفت کا امکان ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت جن شخصیات کو جمہوریت کا بخار چڑھا ہوا ہے‘ وہی ان وارداتوں کی ذمہ دار ہیں‘ جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کا کہنا ہے کہ پچھلے دس سال میں پاکستانیوں نے دبئی میں پندرہ ارب ڈالر کی جائیدادیں بنائی ہیں۔ احتساب تو بہرحال ہو گا اور حساب بھی دینا پرے گا۔دوسری طرف سٹیٹ بینک آف پاکستان پر بھی ایک سوالیہ نشان انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے کہ سرکاری بینک کس طرح بوگس دستاویزات اور سٹاک کے عوض کس طرح اربوں کے قرضے جاری کر تے رہے ہیں۔ ایف بی آر‘ ایس ای سی پی اور ایف آئی اے کے علاوہ دیگر ادارے کہاں سو رہے ہیں؟ نوٹسز گئے ہیں ان کا جواب آئے گااور پھر نیب میں ریفرنس دائر کئے جائیں گے۔ یہ ''گورکھ دھندہ‘‘تو معلوم نہیں کب شروع ہو اور کب ختم ہو اور اس کے کیا نتائج نکلتے ہیںیہ تو وقت ہی بتائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سارے کا سارا گند نیب نے ہی صا ف کرنا ہے ‘ ساری کرپشن ‘ بدعنوانی اور لوٹ مار کی تفتیش اور تحقیق نیب نے ہی کرنی ہے‘ تو پھر دیگر متعلقہ ادارے کس مرض کی دوا ہیں؟ ان اداروں کا کیا جواز ہے؟معاملہ نیب تک آنے کی نوبت ہی کیوں آتی ہے منی لانڈرنگ بوگس قرضے بے نامی اکائونٹس اور جائیدادوں سے متعلق ذمہ دار سرکاری ادارے اگر اپنی ذمہ داری اور فرائض میں غفلت نہ برتیںتو صورتحال یقینا اتنی تشویشناک نہ ہو۔ ایف بی آر‘ ایف آئی اے‘ ایس ای سی پی‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان ‘ محکمہ مال اور دیگر متعلقہ محکموں کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ منی لانڈرنگ ‘ بوگس قرضے‘ بے نامی اکائونٹس اور جائیدادیں لوگ کس طرح بنا لیتے ہیں۔ یقینایہ سوال حکومت وقت کیلئے بھی اتنا ہی اہم ہونا چاہئے جتنا ایک عام آدمی کیلئے ۔کیا یہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے لئے سوالیہ نشان نہیںکہ کروڑوں روپے کے بے نامی اکائونٹ کیسے کھلتے ہیں۔اربوں کے بوگس قرضے کیسے جاری ہوتے ہیں ۔یہ سب کچھ اتنا آسان کیسے ہو جاتا ہو اور ان تمام مراحل میں سہولت کار کون ہوتا ہے؟ یہ وارداتیں یقیناََ بینک انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں‘ تو پھر سٹیٹ بینک ان ساری ''وارداتوں ‘‘سے بے خبر اور غافل کیسے ہے؟ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا اور متعلقہ ذمہ داران سے جواب طلب کرنا ‘حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔دبئی‘سوئٹزر لینڈ اور دیگر ممالک میں جائیدادوں اور اکائونٹس کی تحقیقات ضرور کریں۔ بے دردی سے لوٹی گئی دولت ضرور واپس آنی چاہئے۔ایک نظر وطن عزیز میں موجود ایسے'' شرفا‘‘ پر بھی ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ جن کی جائیدادوں کے ''پوشیدہ ذخائر‘‘کا طویل سلسلہ ہے‘ ان کو بے نقاب کرنا کو ئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔چند روز قبل شائع ہونے والے کالم ''ننھے منے شریف زرداری‘‘میں انتہائی کارآمد'' نسخہ نما‘‘ مشورہ دے چکا ہوں‘ جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے ایف آئی اے کی سربراہی میں ایف بی آر اور محکمہ مال پر مشتمل با اختیار اور شفاف ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو ملک بھر کے پٹواریو ں کو پابند کرے کہ ایک خاص حد سے زیادہ (حد بھی حکومت خود طے کرے)جائیداد اور رقبوں کے مالکان کی نشاندہی کرے‘ اورحکومتی فارمولے کے مطابق ایسے تمام افراد کی فہرست مرتب کی جائے جوطے کی گئی حد سے زیادہ جائیدادوں اور رقبوں کے مالک ہیں۔مذکورہ افراد کو بڑی عزت اور احترام سے بلوایا جائے اور ان کے سامنے ان کی پراپرٹی کی تفصیل رکھ کر ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے یہ جائیداد کب کیسے اور کن ذرائع سے خریدی ۔ اور ان سے اس کے دستاویزی ثبوت کے ساتھ منی ٹریل بھی طلب کی جائے۔با خبرذرائع کے مطابق بے شمار ایسے کیسز سامنے آ جائیں گے جن میں یہ شرفادو یا چار دہائیوں سے پہلے کی منی ٹریل یا جائیداد سے متعلق دستاویزی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہیں گے۔اور رہا سوال بے نامی جائیدادوں کا تو پٹواری سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ ان جائیدادوں کا ''بینی فیشری‘‘کون ہے؟اسی طرح بینکوںمیں بے نامی اکائونٹ بھی بینک انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر کیسے کھل سکتے ہیں؟ اکائونٹ کھلواتے وقت ذمہ دار بینک افسر اس امر کی تصدیق اور تسلی کرتا ہے کہ اکائونٹ ہولڈر خود بینک آیا ہے اس نے اپنے دستخط اس کے سامنے کئے ہیں اور فنگر پرنٹ بھی اکائونٹ ہولڈر کے ہی ہیں۔جبکہ اکائونٹ کھلوانے کے لئے ضروری دستاویزات بھی اکائونٹ ہولڈر نے خود فراہم کی ہیں۔اور اکائونٹ ہولڈر کا اصل شناختی کارڈ بھی موقع پر موجود ہونا اکائونٹ کھلوانے کی ناگزیر شرائط میں سے ایک ہے‘ اور بائیو میٹرک کی پابندی کے باوجود اکائونٹ ہولڈر کوئی اور ہو اورچیک بک پر دستخط کرنے والا ''بینی فیشری‘‘ کوئی اور‘تعجب ہے۔ فنگر پرنٹس جب تک دستخط کرنے والے شخص کی تصدیق نہ کریں‘ تو بینکنگ سسٹم اسے کیسے تسلیم کر سکتاہے۔
جائیدادوں کی منی ٹریل اور دستاویزی ثبوت نہ فراہم کرنے اور بے نامی اکائونٹس کے'' بینی فیشری ‘‘شرفا کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے جائیدادیں اور بے نامی اکائونٹس کا پیسہ بحق سرکار ضبط کیا جائے۔ سو بڑی مچھلیاں عنقریب پکرنے کے حکومتی دعوے بھی آج کل زیر بحث ہیں۔ ''بڑی مچھلیاں‘‘ضرور پکریں‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان ''بڑی مچھلیوں‘‘ کی افزائش کیسے اور کہاں ہوتی ہے؟ان حکومتی اداروں اور ذمہ دار افسران سے کون پوچھے گا کہ بڑی مچھلیاںکیسے وجود میں آئیں؟اور تم کہاں سو رہے تھے؟ان اداروں سے یہ پوچھا جانا بھی عین منطقی ہے کہ اس لوٹ مار کے کارِ بد کی بہتی گنگا میں تم نے کتنی ڈبکیاں لگائیں‘ذمہ دار سرکاری مشینری کو بھی احتساب کے کٹہر ے میں لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا بڑی مچھلیوںکو پکڑنا۔یہ امر بھی انتہائی توجہ اور احتیاط طلب ہے کہ احتساب اور پکڑ دھکڑ اس سلسلے میں کوئی تاثر نہیں نظر آنا چاہئے کہ یہ احتساب اور شکنجہ صرف اپوزیشن کے لئے مخصوص ہے‘بلکہ ''ورائٹی‘‘ کے لئے حکومت اپنے قریبی اورارد گردافراد کے ساتھ ساتھ شریک اقتدار حریف جماعتوں پر بھی نظر ڈال لے تو بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ احتساب بلا امتیاز اور سب کیلئے ہے۔