تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     14-11-2018

بلین ٹری منصوبہ

خیبر پختو نخوا میں پی ٹی آئی کی پہلی حکومت کی ابتداء بلند بانگ دعووں اور ادارہ جاتی نظام میں خوش کن اصلاحات کے آغاز کے ساتھ ہوئی‘خاص طور پرصحت اور تعلیم کے شعبوں میں وسیع تر اصلاحات متعارف کرائی گئیں‘ لیکن بد قسمتی سے تحریک انصاف کی قیادت سسٹم میں پھیلی خرابیوں کی شدت اور سرکاری اہل کاروں کے ذہنی جمود کا درست اندازہ نہ کر سکی؛ چنانچہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کی جانے والی اصلاحات برگ و بار نہ لا سکیں‘حکومت نے پولیس کو ہوم ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی سے نکال کے آئی جی پی کو غیر معمولی اختیارات اور لامحدود وسائل فراہم کر کے تھانہ کلچر بدلنے کی کوشش کی ‘لیکن پولیس ڈیلیور کر سکی نہ اہلکاروں کے رویوں میں تبدیلی آئی‘پچھلے پانچ سالوں میں امن و امان کی صورت حال بدستور دگرگوں اور سٹریٹ کرائمز میں ہولناک اضافہ ہوا‘ تاہم دہشت گردی کی مہیب لہریں پولیس کی ناقص کارکردگی کا نقاب ابہام بنکر عزت سادات بچانے کا وسیلہ بن گئیں؛البتہ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کا جو بلین ٹری سونامی پراجیکٹ شروع کرایا تھا‘اس کے نتائج حیران کن حد تک اچھے برآمد ہوئے۔
افسوس کہ ہمارے میڈیا کا تنقیدی شعور غیر ہمدردانہ اور انداز ناصحانہ ہے۔اس لیے وہ خود کو حضرتِ ناصح کے مقام پہ فائز کر لینے کے باوجود کسی یک چشم شخص کی مانند سسٹم کی خوبیوں اور خرابیوںکو الگ الگ کر دیکھنے کی استعداد سے عاری ہے۔ایک بڑے میڈیا گروپ نے پی ٹی آئی حکومت کی ساری خامیوں کو پس پشت ڈال کے اسی بلین ٹری منصوبہ کے خلاف منفی مہم چلا کر اُسے ناکام ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا‘اپوزیشن جماعتوں اور رائے عامہ بھی اس غیر روایتی پراجیکٹ کی افادیت کا درست ادراک نہ کر سکی‘صوبائی اسمبلی میں بیٹھی اپوزیشن اور عام لوگوں نے بھی میڈیا کی پیروی میں صحت‘تعلیم اور پولیس نظام میں پائی جانے والی خامیوں سے صرف نظر کر کے اُسی بلین ٹری منصوبہ کو ہدف تنقید بنانے میں دلچسپی دیکھائی‘ جو پی ٹی آئی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کا واحد حصول اور طرہ امتیاز ثابت ہوا۔چترال سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خان تک پندرہ سو کلو میٹر ایریا پہ محیط شمال مغربی خطہ کی آبادی کا بڑا حصہ درختوں کو کاٹ کے گزر اوقات کرنے کا عادی اور جنگلات کی افزائش کے طریقوںسے نہ آشنا تھا۔ایک ایسا سماج جس کے لئے شجر کاری مہمات کی اہمیت اور درختوں کے ذخیروں کی حفاظت کی رضاکارانہ ذمہ داری کا تصور محال ہو اور جہاں سیاسی پشت پناہی کا حامل طاقتور ٹمبر مافیاز جیسے کئی منظم گروہ سرگرم ہوں وہاں پہلے سے موجود جنگلات کی حفاظت اور وسیع پیمانے پہ نئی شجرکاری کا فروغ آسان کام نہیں تھا۔واقعی یہ ایک بڑا چیلنج تھا ‘جسے دلیرانہ انداز میں نمٹایاکیا گیا۔
خیبر پختونخوا کے مضافاتی علاقوں میں پہلے سے ہی قانون کی عمل داری کمزور اور روایات و عادات کی پیروی کا رجحان نہایت توانا تھا‘مستزاد یہ کہ جنگ دہشت گردی کی خونخوار لہروں نے رہی سہی حکومتی رٹ کو ختم کر کے معاشرتی نظم و ضبط کو تحلیل کر ڈالا‘پچھلے اٹھارہ سال میں سرکاری اداروں نے معاشرے کو ریگو لیٹ کرنے کی بجائے خود اپنی بقاء کی جنگ لڑی‘ایسے میں جنگلات کی افزائش جیسا نازک عمل بظاہر ایک ناممکن ٹاسک نظر آتا تھا ‘لیکن حکومت کے غیرمتزلزل عزم اور سیکریٹری ماحولیات و جنگلات سید نذر حسین شاہ کی غیر مختتم جدوجہد نے اس مشکل ہدف کے حصول کو ممکن بنا کے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیابی پائی۔
دسمبر دوہزار تیرہ میں شروع ہونے والے چارسالہ بلین ٹری پراجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ 46 ارب روپے لگایا گیا‘ لیکن فارسٹ ڈیپارٹمنٹ نے اسے 27 ارب روپے کی لاگت سے ڈھائی سال کی قلیل مدت میں پایا تکمیل تک پہنچا کے عالمی ریکارڈ قائم کر دیا۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویش آف نیچر(IUCN) ورلڈ اکنامک فورم اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ(WWF) نے بلین ٹری منصوبہ کی 80 فیصد کامیابی کی توثیق کر کے صوبائی حکومت کی مساعی کو سراہا‘واشنگٹن پوسٹ اور ہندوستان ٹائمز جیسے طاقتور اخبارات نے بلین ٹری منصوبہ کی تعریف میں آرٹیکل لکھے اورالجزیرہ جیسے عالمی نشریاتی ادارہ نے بلین ٹری پراجیکٹ پہ خصوصی پروگرامات نشر کرکے اس کی افادیت کو واضح کیا۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس بلین ٹری منصوبہ کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے دوران فارسٹ ڈیپارٹمنٹ نے اربوں روپے مالیت کی ایک لاکھ اکتالیس ہزار پانچ سو تین کنال سرکاری اراضی بھی واگزار کرا لی‘صرف گلیات‘شنکیاری اور مکھنیال میں دو ارب مالیت کی قیمتی زمین لینڈ مافیا کے قبضہ سے چھڑانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا‘ڈیرہ اسماعیل خان کے موضع دھپ چبک میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ کنال اور ضلع بھکر کی حدود میں خیبر پختونخوا حکومت کی اٹھارہ ہزار کنال اراضی ناجائز قابضین سے واگزار کے وہاں خوبصورت شجرکاری کی گئی‘چشمہ رائٹ بنک کینال اور گومل زام ڈیم کے کمانڈ ایریا سمیت ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دو کروڑ سے زیادہ درخت لگائے گئے‘جو اس وقت گھنّے جنگلوں کی صورت اختیار کر چکے ہیں‘جس سے جنگلی حیات کی بقاء کے اسباب اور اس خطہ کے ماحول پہ مثبت اثرات مرتب ہوئے‘جنگلات کی بہتات کے باعث بارشوں کی مقدار بڑھنے سے فضائی آلودگی میں کمی آئی‘جس سے ماحول میں خوشگوار تبدیلی رونما ہونے لگی۔
سب سے بڑھ کر اس منصوبہ کی بدولت فارسٹ جیسے جمود پرور محکمہ کے مضمحل اہلکاروںکو ایسی حیرت انگیز فعالیت ملی کہ اسکے بہادر کارکنان نے دن رات جنگی بنیادوں پہ کام کر کے ڈھائی سال میں ایک ارب تیرہ کروڑ درخت لگانے کا معجزہ ممکن کر دیکھایا‘اس مہم کے دوران جنگلات کے اہلکاروں کو اوور ٹائم ملا نہ اضافی مرعات دی گئیں‘حتّہ کے فیلڈ میں کام کرنے والے چھوٹے اہلکاروں کو موٹر سائیکل کا تیل تک نہیں دیا گیا‘اسی شجرکاری مہم کے دوران لینڈ مافیاسے لڑائیوں میں محکمہ جنگلات کے گیارہ اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوئے‘جن میں سے تین عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے‘مجھے اچھی طرح یاد ہے‘دسمبر دوہزار سترہ کی شام اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں اس منصوبہ کی اختتامی تقریب میں عمران خان کی موجودگی میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے محکمہ جنگلات کے افسران کے کام کی ستائش کرتے ہوئے فارسٹ گارڈز کو انعام کے طور پہ نواں گریڈ دینے کا وعدہ کیا تھا جو آج تک وفا نہیں ہو سکا۔اس منصوبہ کی تکمیل کے دوران حکومت کو یہ سبق بھی ملا کہ کام کی کثرت اور مربوط مصروفیت نہ صرف محکموں کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے‘ بلکہ اس سے اہلکاروں کی صلاحیتوں کو بھی جِلا ملتی ہے‘لامحدود فرصت اور بیکاری سرکاری کارکنوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود اورمحکموں کی مجموعی کارکردگی کو گھٹا دیتی ہے‘فارغ اہلکاروں کے اذہان کی یبوست سرکاری محکموں کو سازشوں اور بددیانتی کا گڑھ بنا دیتی ہیں‘بیکار لوگ ایک ناقابل فہم قنوطیت کی آغوش میں سو جاتے ہیں‘غم انکی ذات میں مسکن بنا لیتے ہیں اور وہ امید کے باغوں سے نکل کے خوف کی تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔
بلین ٹری منصوبہ کی کامیابی کی خاطر ناظمین‘کونسلرز اور سماجی کارکنوں نے آگاہی مہم چلا کر سوسائٹی کو درختوں کی آفادیت اور ہمارے کرہ ارضی کی بقاء کیلئے پلانٹیشن کی اہمت سے روشناس کرا کے عوام کے دل و دماغ میں زرخیزی پیدا کی‘بلاشبہ اس وقت ہزاروں لوگ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے اپنی لاکھوں کنال نجی اراضی پہ جنگلات لگا کے کروڑوں روپے کمانے کے ساتھ ساتھ ماحول کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved