تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-11-2018

خون نا حق چھپے گا کیسے ؟

مقبوضہ کشمیر کے ضلع کلگام کے قریب لارو قصبے میں رات گئے‘ بھارتی فوج کی راشٹریہ رائفلز‘ سینٹرل ریزرو پولیس اور سپیشل آپریشن گروپ نے گھر گھر تلاشی کے دوران14کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا لیا اور جب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں نماز کیلئے نکلنے والوں نے جگہ جگہ اپنے گائوں کے بچوں کی گولیوں سے چھلنی کی ہوئی لاشیں دیکھیں ‘تو پورے گاؤں میں کہرام مچ گیا ۔مائوں کی روتی آنکھوں اور لہو لہو دلوں سے اٹھنے والی چیخ و پکار نے کلیجہ شق کر دیا اور چند گھنٹوں بعد 14 نوجوانوں کے اس قتل عام پر مودی سرکاربجائے شرمندہ ہونے کے وہی رٹا رٹایا جملہ کہہ رہی تھی کہ پاکستان سے آئے ہوئے دہشت گرد بھارت کی سکیورٹی فورسز سے مقابلے میں مارے گئے ۔
بھارت کے اس جھوٹ کاسچ یہ ہے کہ بھارت کے سابق وزیر داخلہ شیو راج پٹیل 7 جولائی2008ء کو جب مقبوضہ کشمیر کے دورے پرجموں اور سری نگر پہنچے‘ تو پاکستان سے لشکر طیبہ اور جیش محمد‘ جیسے جہادی لشکروں کی در اندازی پر پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:
WE SHOULD NOT BLAME PAKISTAN FOR EVERY WRONG THING, EITHER INCREASE IN INFILTRATION OR SPURT IN VIOLENCE HERE. 
بھارت کے وزیر داخلہ کی حیثیت سے انہیں کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تمام خفیہ اداروں کی رپورٹس ملتی رہتی تھیں اور خفیہ اطلاعات تک وزیر اعظم کے بعد وزیر داخلہ کی سب سے زیا دہ رسائی ہوتی ہے۔ پنجاب کے گور نر اور چندی گڑھ کے ایڈمنسٹریٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہنے والے شیو راج کانگریس کی من موہن سنگھ حکومت میں22 مئی2004 ء سے30 نومبر2008ء تک وزیر داخلہ رہے۔ ایسا شخص‘ جو چار سال تک بھارت کا وزیر داخلہ رہا ہو‘ جس کی کشمیر سمیت بھارت کے اندرونی معاملات پر اپنے وزیر اعظم اور خفیہ داروں کے سربراہوں سے چار سال کے عرصے میں بار بار ملاقاتیں ہوتی رہی ہوں۔ ایساوزیرداخلہ بے پرکی نہیں اڑاسکتااور اپنے بیان کے ذریعے اس قسم کا سرٹیفکیٹ ‘ پاکستان جیسے ملک کو دینا‘ جس کے خلاف دنیا بھر میں بھارت کا ایک ہی پراپیگنڈہ چلا آ رہا ہو کہ پاکستان‘ بھارت میں دہشت گردی کراتا ہے‘ غیر معمولی بات ہے۔ 
افسوس کہ ہماری کسی بھی حکومت نے نہ جانے کس وجہ سے شیو راج پٹیل کے پاکستان کو دیئے گئے اس کلیئرنس سرٹیفکیٹ کو دنیا بھر کے سامنے کیوں نہیں رکھا؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اور شاہ محمود قریشی سمیت وزارت خارجہ کو شیو راج پٹیل کے اس بیان کو جو اخبارات میں شائع ہو چکا‘ دنیا کے سامنے لے کر آنا چاہئے‘ جو کچھ شیو راج پٹیل نے بطور وزیر داخلہ کہا‘ اس پر سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہاربھی نہیں کیا تھا‘ سوائے بھارتیہ جنتا پارٹی کے؟ ہماری وزارت خارجہ کو یاد ہو گا کہ جارج فرنینڈس نے بطور وزیر دفاع نئی دہلی پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چین کو بھارت کا دشمن نمبر ایک کہا ہی تھا کہ بھارت کے آرمی چیف نے ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کو بیان دیتے ہوئے کہاکہ چین ہمارا نمبر ایک دشمن نہیں ہے اور پھر سب نے دیکھا کہ وی پی ملک آرمی چیف کے کہنے پر وزیر اعظم واجپائی نے دو ہفتوں بعد اسے وزیر دفاع سے ہٹا کر وزیر ماحولیات مقرر کردیا تھا ۔
شیو راج پٹیل نے جب پاکستان کو بھارت کے اندر دہشت گردی کے الزام سے کلیئر کیا ‘جو کہ بھارت کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون چلا آ رہا ہے‘ تو ان کی وزارت کیوں تبدیل نہیں کی گئیـ؟ پٹیل نے26/11 کے ممبئی حملوں کے خلاف 29 نومبر کو فوج کا کمانڈو مشن مکمل ہونے کے اگلے روز استعفیٰ دیا تھا‘ اس کی وجوہ کچھ اور ہیں(جس کی تفصیلات ا س ماہ اپنی آنے والی کتاب''26/11۔۔۔ اجمل قصاب اور مودی‘‘ میں تفصیل سے بیان کی ہیں) مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حکومت میں شامل ایک با اثرسابق وزیر سیف الدین سوز نے کشمیریوں کی جدو جہدپر مبنی اپنی کتاب:GLIMPSES OF HISTORY & THE STORY OF STRUGGLE میں لکھا ہے کہ کشمیری کسی صورت میں کسی بھی طریقے سے بھارت سے رتی بھر کا تعلق بھی نہیں رکھنا چاہتے ‘وہ بھارت سے مکمل آزادی چاہتے ہیں ۔
کشمیر پر بھارتی قبضہ ناجائز‘ غیر منصفانہ‘ جھوٹا اورUNTENABLE ہے۔یہ تاریخی جملہ دنیا کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کا‘ جو انہوں نے 2ستمبر1998ء کو ڈربن میں ہونے والی NAMکی 12 ویں کانفرنس میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران سامنے نشستوں پر بیٹھے ہوئے بھارتی وفد کے ڈیسک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔نیلسن منڈیلا نے اس خطاب میں اقوام عالم کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کشمیر کا کوئی پر امن تصفیہ جلد نہ کرایا گیا‘ تو یہ گلوبل امن اور علاقائی سلامتی کیلئے اس قدر خطرناک ہو جائے گا کہ اکیسویں صدی کی یہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی اور پھرNAM جیسی تنظیمیں جہاں ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں ‘سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گی ۔
26مارچ 2014ء کو برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا نے ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی میں پاک برطانیہ تعلقات پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان1947ء سے چلا آ رہا‘ کشمیر کا مسئلہ اگر حل ہو جاتا ہے‘ تو اس سے اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے ختم ہو کر رہ جائے گا‘ کیونکہ بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت پر آئے روز ہونے والا ظلم و ستم ختم ہو جائے گا۔ 
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی طوفانی لہر بے بہا جانوں کی قربانی دیتے ہوئے جب بھارت کے کنٹرول سے بے قابو ہو نے لگتی ہے‘ تو پھر اچانکــ بھارت کے کسی بڑے شہر میں خود ساختہ کارروائی کراتے ہوئے‘ امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین کے سامنے اپنے لٹنے پٹنے کا واویلا کرتے ہوئے پوری تحریک آزادی کو دہشت گردی کی چیخ و پکار میں گم کرادیتا ہے۔ کبھی پارلیمنٹ پر حملہ‘ کبھی مالیگائوں بم دھماکے اور سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں کو اس کے مسافروں سمیت بارود اور آگ کی نذر کرا کر الٹا اپنا منہ پیٹتے ہوئے دنیا بھر کے سامنے بین شروع کر ا دیتا ہے کہ ہائے ہم مارے گئے آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ نے سمجھوتہ ایکسپریس کو 69 مسافروں سمیت بم دھماکوں سے اڑا دیا ہے اور دہشت گرد نکلا کون؟ انسداد دہشت گردی کے انسپکٹر جنرل ۔ ہیمنت کر کرے کی لگائی گئی کڑکی میں بھارتی فوج کا کرنل سری کانت پروہت نام کا چوہا ؟بھارت کے سابق سیکرٹری اطلاعات ایس ایس گل اپنی کتاب DYNESTY THE میں لکھتے ہیں:
FOR INDIA, KASHMIR HAS BRCOME A SELF-INFLICTED WOUND THAH HAS BLEND HER OVER THE YEARS & DESTEROYED INDIA'S FOREIGN POLICY PERSPECTIVE.
کانگریس کے مرکزی لیڈر اور بھارت کے سابق وزیر داخلہ چدم برم‘ جنہیںشیو راج پٹیل کے مستعفی ہونے پر تین نومبر کو وزیر داخلہ مقرر کیا گیا‘ اپنے وزارتی عرصے کے دوران کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کے بارے میں انتہائی ذو معنی جملہ بولا تھا : ''جب جموں کشمیر کے لوگ بھارت سے آزادی کے نعرے لگاتے ہیں‘تو ان کا مقصد در اصل یہ ہے کہ وہGREATER AUTOMOMY مانگتے ہیں‘‘۔
بھارت کے ایک اور وزیر داخلہ نے کچھ سچ بولا تو سہی!۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved