تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-11-2018

سب سے بڑھ کر … انسان، اور کون!

اکیسویں صدی کی کاروباری دنیا میں ہر شخص کو صرف ''انسانی وسائل‘‘ کے نقطۂ نظر سے کام کرنا ہے۔ کسی بھی مشین اور ٹیکنالوجی سے زیادہ قابلِ توجہ انسان ہے۔ انسان ہی پر موقوف ہے کہ وہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ کرے گا بھی یا نہیں۔ 
ہر دور کا انسان بنیادی طور پر یہی چاہتا ہے کہ اُس کے اندر جو بھی جوہر ہے ‘وہ کھل کر سامنے آئے‘ دنیا مستفید ہو اور ستائش کی منزل تک آئے۔ یہ خواہش سربسر فطری ہے۔ انسان جو کچھ بھی چاہتا اور کرتا ہے‘ وہ سبھی کچھ اظہار کے لیے ہے۔ انسان اپنے باطن کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور اسی کے عوض وہ صِلے کے ساتھ ساتھ تحسین کا خواہش مند بھی ہوتا ہے۔ 
انسان جو کچھ بھی کرتا ہے‘ وہ اُس کی صلاحیت اور سکت دونوں کا عملی اظہار ہے اور اگر لگن بھی شامل ہوجائے ‘تو کیا کہنے۔ ایسے میں کام کرنے کا بھی لطف آ جاتا ہے اور کارکردگی کا معیار بھی مطلوبہ معیار تک بلند ہوتا ہے‘ مگر ان تینوں عوامل کو ایک پلیٹ فارم پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘ جس طرف نظر دوڑائیے‘ آپ کو بڑی تعداد میں ایسے لوگ ملیں گے‘ جو انتہائی باصلاحیت بھی ہیں اور کام کرنے کی مطلوب سکت بھی رکھتے ہیں۔ معاملہ یہیں تک رک جاتا ہے۔ کام کرنے کی خواہش اور لگن پیدا کرنا دردِ سر ثابت ہوتا ہے۔ اگر کسی میں کام کرنے کی بھرپور لگن پائی جاتی ہو تو وہ کم صلاحیتوں کا حامل دکھائی دیتا ہے یا پھر اُس میں مطلوب سطح کی سکت نظر نہیں آتی۔ صلاحیت‘ سکت اور لگن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو پائیں تو ناموافق حالات بھی راستے کی دیوار بننے سے کتراتے ہیں۔ 
آج دنیا بھر میں ''انسانی وسائل‘‘ کا غلغلہ اس لیے بلند ہے کہ کسی سے اُس کی صلاحیت اور سکت کے مطابق کام لینے کے ساتھ ساتھ اُس میں بھرپور محنت کی لگن بھی برقرار رکھنا لازم ہے۔ جب تک انسان میں کام کرنے کی لگن نہ ہو تب تک اُس سے بہتر کارکردگی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ ترقی یافتہ معاشروں نے ڈھائی تین صدیوں کی محنت سے عام آدمی کو بھی اس قابل بنادیا ہے کہ وہ بھرپور لگن کے ساتھ محنت کرے اور اپنی صلاحیت و سکت کو بہترین انداز سے بروئے کار لانے پر متوجہ ہو۔ کسی بھی معاشرے میں انتہائی باصلاحیت اور سکت سے بہرہ مند افراد کی تعداد خاصی کم ہوتی ہے۔ عمومی سطح پر لوگ کام کرنے کی معمولی سی لگن سے متصف ہوتے ہیں۔ انہیں آگے بڑھنے کے لیے بھرپور تحریک دینا ہوتی ہے۔ 
ترقی یافتہ معاشروں میں بھی عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ اور اچھا کام کرنے کی لگن سے ہم کنار رکھنا دردِ سر سے کم نہیں۔ مختلف طریقوں سے تحریک دینے کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ تاکہ ادارے کا کم و بیش ہر ملازم اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ بڑے کاروباری ادارے اس حوالے سے خاص تیاری اور اہتمام کرتے ہیں۔ ملازمین کو کام کرنے کی تحریک دیتے رہنے کے لیے مختلف پروگرام منعقد کرتے ہیں‘ انہیں کورسز کے لیے بھیجتے ہیں‘ زیادہ اور معیاری کارکردگی یقینی بنانے کے لیے اضافی معاوضے اور سہولتوں کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ شعبۂ انسانی وسائل (ایچ آر ڈی) کے تحت ہوتا ہے۔ 
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں میں کم و بیش تمام ہی بڑے اور درمیانے حجم کے بیشتر کاروباری ادارے مسابقت کے تقاضے نبھانے کے لیے شعبۂ تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) کو متحرک رکھتے ہیں۔ یہ تو ہوا متعلقہ اشیاء و خدمات کا معاملہ۔ ملازمین کو زیادہ سے زیادہ باصلاحیت بنانے اور اُن سے زیادہ اور معیاری کام لینے کے لیے ایچ آر ڈی کو مضبوط رکھنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کے بیشتر کاروباری ادارے آر اینڈ ڈی اور ایچ آر ڈی پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔ کاروباری اداروں کی انتظامیہ اچھی طرح جانتی ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اشیاء و خدمات کے معیار اور ملازمین کی کارکردگی کے دم سے ہے۔ ملازمین جم کر کام کریں گے تو اشیاء و خدمات کا معیار بلند ہوگا۔ جب ایسا ہوگا تو ادارہ ترقی کرے گا اور یوں ملازمین کو اضافی فوائد حاصل ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں اُن کی کارکردگی بہتر ہوگی اور وہ زیادہ دل جمعی سے کام کرکے اشیاء و خدمات کا معیار مزید بلند کریں گے۔ 
اگر آپ اپنے وجود کا جائزہ بھی آر اینڈ ڈی اور ایچ آر ڈی کے نقطۂ نظر سے لیں تو اندازہ ہوگا کہ آپ کی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے میں کام کرنے کی لگن کا کردار کس قدر اہم‘ بلکہ کلیدی نوعیت کا ہے۔ آج کی دنیا میں انفرادی معاشی کردار بھی ڈھنگ سے ادا کرنے کے لیے آپ کا بہت سے امور سے واقف ہونا اور کام کرنے کے حوالے سے ذہن تیار کرنا لازم ہے۔ آجر آپ کی صلاحیت اور سکت کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتا ہے کہ آپ میں کام کرنے کی لگن کس حد تک ہے اور آپ اپنے وجود کو بروئے لانے کی راہ پر کہاں تک جائیں گے۔ آپ جس قدر پُرعزم اور پُرجوش ہوں گے‘ اُسی قدر اچھا کام کریں گے اور دوسروں کو بھی بہتر کام کی تحریک دینے میں کامیاب رہیں گے۔ 
بہت سوں کو انٹرویو کا مرحلہ عجیب لگتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ جب ذاتی کوائف کی ہارڈ کاپی میں سبھی کچھ درج ہے‘ تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ انٹرویو کے مرحلے میں آپ کے حوالے سے بہت سے اندازے لگائے جاتے ہیں۔ اس مرحلے میں آپ کو اپنے حوالے سے ایسا بہت کچھ بیان کرنا ہوتا ہے‘ جس سے ممکنہ آجر کو اندازہ ہو کہ آپ میں کیا کیا کرنے کی صلاحیت ہے اور آپ مطلوب معیار کے مطابق کام کرنے کے حوالے سے کس حد تک پُرعزم ہیں۔ آپ کا جوش و خروش ہی ممکنہ آجر کو آپ کے حوالے سے کسی فیصلے تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے اور دیتا ہے۔ قابلیت اور سکت تو بہت سوں میں ہوتی ہے۔ سوال کام کے لیے پوری ذہنی تیاری اور لگن کا ہے۔ اس منزل میں بیشتر افراد اٹک جاتے ہیں۔ وہ اپنے گھریلو حالات یا معاشرے کی روش سے تنگ آکر کام کرنے کی لگن سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یوں کام کرنے کی لیاقت اور سکت ہوتے ہوئے بھی اُن کی کارکردگی مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے ناپختہ اور ادھوری سی رہ جاتی ہے۔ 
بہت سے لوگ زندگی بھر یہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ اُنہیں بھرپور لیاقت کے باوجود مطلوب یا معقول معاوضہ نہیں ملا۔ وہ اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اپنی لیاقت کے مطابق کارکردگی کا گراف بلند کرنے پر اُنہوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔ کاروباری دنیا کسی کو محض لیاقت اور سکت سے کہیں بڑھ کر کام کرنے کی لگن اور اُس کے نتیجے میں کارکردگی کے گراف کی بلندی سے جانچتی ہے اور ایک کاروباری دنیا پر کیا موقوف ہے‘ زندگی کا ہر معاملہ اسی پیمانے سے تو جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ 
کسی بھی شعبے میں کیسی ہی ٹیکنالوجی آجائے‘ جب تک ''ہیومین فیکٹر‘‘ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جائے گی کام کا معیار بلند نہ ہوسکے گا۔ آر اینڈ ڈی اور ایچ آر ڈی دونوں ہی شعبے انسانوں کو زیادہ سے زیادہ کارگر بنانے کا ہدف حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ آپ کو بھی یہی نکتہ ذہن نشین رکھنا ہے کہ کسی بھی جدید ترین مشین سے کہیں بڑھ کر انسان اہم ہے۔ کام کرنے کا سوچا جائے گا اور کام کرنے کی لگن ہوگی تو بات بنے گی‘ ورنہ نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved