جب سے ہماری یہ زمین وجود میں آئی اور جب سے زندگی نے اس پر جنم لیا تو حشرات‘ پرندوں ‘ میملز ‘ پرائمیٹس اور رینگنے والے کیڑوں (ریپٹائلز) سمیت پانچ ارب قسم کی مخلوقات نے اس پر زندگی گزاری ۔ ان میں سے پرائمیٹس ‘ جن میں گوریلا اور چمپینزی وغیرہ شامل تھے‘ ان میں دماغ کا سائز دوسرے میملز کی نسبت بڑا تھا ۔کبھی آپ جانداروں کی مختلف اقسام کو پڑھیں تو بہت حیران کن اور دلچسپ چیزیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ آپ پرندوں کو پڑھیں ۔آپ/Hominids Great Apesکو پڑھیں ۔ ان میں آپ کو گوریلا اور چمپینزی سمیت آٹھ ایسے پرائمیٹس ملیں گے‘ جو کہ آج بھی کرہ ٔ ارض پہ زندگی گزار رہے ہیں ۔ جب کہ اس میں ہومو سیپینز (ہم انسان )بھی شامل ہیں ۔Genus ہومو میں ہومو نی اینڈرتھل اور ہومو اریکٹس بھی شامل ہیں ‘ جو کہ ہمیشہ کے لیے ختم (Extinct)ہو چکے ہیں ۔
پچھلے پچاس ہزار سال کی مسلسل تحقیق کے بعد یہ معلومات ‘ زیرِ زمین دفن یہ فاسلز انسانوں کو ملے۔پیہم غور و فکر سے کچھ لوگ ڈھانچوں‘ ہڈیوں اور دوسرے اعضا کی ساخت کو سمجھنے لگے ‘یعنی کہ علمِ Anatomyکو ۔ وہی لوگ اس قابل تھے کہ اناٹومی پر ایک تبصرہ کر سکیں ۔جب کہ مسلمانوں نے دوسرے علوم کی طرح اسے بھی نظر انداز کر رکھاہے۔ جو لوگ گاڑیوں کو سمجھتے ہیں ‘ انہیں تو اس بات کا علم ہے کہ کسی بھی گاڑی کے ہر پرزے کی ایک مخصوص جگہ ہوتی ہے ۔ وہاں ایک خاص سائز کا ‘ ایک خاص شکل کا پرزہ ہی نصب ہو سکتاہے ۔ اسی طرح جو لوگ اناٹومی کو سمجھتے ہیں ‘ انہیں علم ہے کہ جسم میں ہر ہڈی‘ ہر عضو کی ایک مخصوص جگہ ہے ۔ وہاں اس کا اپنا عضو ہی پورا آسکتاہے ۔ اگر آپ وہاں کسی اور جاندار کا عضو فٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ اناٹومی کے ماہرین کو دھوکہ دینے کی ایک اتنی بچگانہ سی کوشش ہوگی کہ وہ فوراً پکڑے جائیں گے ۔ یہ ایک پزل کی طرح ہے ۔ اس پزل میں اگر آپ ایک جگہ کا ٹکڑا کسی دوسری جگہ رکھیں گے ‘تو آخر میں تصویر آپ کو چیخ چیخ کر بتائے گی کہ کہاں غلطی ہوئی ہے ۔
انسان کے جسم میں گلے سے معدے تک ایک خوراک کی نالی ہوتی ہے ۔ اس کی ایک مخصوص لمبائی اور موٹائی ہے ۔ اس میں آپ گوریلا کی خوراک کی نالی فٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے مزاح تو تخلیق ہو سکتاہے ‘ سنجیدہ اسے کوئی نہیں لے گا ‘ اسی طرح جسم میں خاص حجم اور شکل کے خانے (Cavities)ہوتے ہیں ‘ جن میں معدہ اور مختلف اعضا کو رکھنے کی جگہ بنی ہوتی ہے ۔ ان میں سے کوئی عضو اگر اپنے خانے سے باہر نکلے تو بیماری پیدا ہوتی ہے ۔ جیسے معدے اگر اپنی cavityسے اوپر کی طرف چلا جائے تو وہ خوراک کی نالی کے اندر گھس جاتا ہے ۔ اس سے خوراک اور تیزاب آسانی سے واپس منہ کی طرف جانے لگتا ہے ۔سینہ اور گلا جلتا رہتاہے ۔ کچھ برسوں میں خوراک کی نالی میں السر بن جاتا ہے ۔ تیزاب لگنے سے ٹانسلز سوج کر بڑے ہو جاتے ہیں اور تکلیف دیتے رہتے ہیں ۔
پھر یہ کوئی صرف ہڈیوں یا اعضا کی بات نہیں ۔ اللہ نے انسان کو دیکھنے ‘ جائزہ لینے اور ہر چیز کا نام رکھنے کی صلاحیت دی ہے ۔ ہمیں آج تک جتنے بھی سیارے نظر آئے ہیں ‘ ہم نے ان کے نام رکھے ہیں ۔ ہر ستارے کا نام رکھا ہے ۔ ہمارے پاس اگر خلا میں دیکھنے والی دوربینیں ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس خلیات کے اند ر دیکھنے والی خوردبینیں بھی ہیں ۔ انسان مختلف بیکٹیریا کی شکلیں جانتا ہے ۔ انسان اپنے جلد کے خلیات پہچانتا ہے ۔ جلد کے اندر موجود ایک خلیے کے اندر موجود ڈی این اے کو بھی ڈی کوڈ کر لیا گیا ہے ۔ اس دوران جتنے بھی جینز دریافت ہوئے‘ ان میں سے ایک ایک کا نام رکھا گیا۔ سائنسدانوں نے یہ جینز دنیا کے سامنے پیش کیے ۔ بڑے سائنسی اداروں نے ان کا جائزہ لے کر درست دریافتیں کرنے والوں کو سراہا‘ انہیں انعامات اور میڈل جاری کیے اور بکواس کرنے والوں کو لات مار کے سائنسی برادری سے نکال باہر کیا ۔ ان جینز میں معلومات درج ہوتی ہیں ۔ان پر سائنسی تجربات ہوتے ہیں ۔ان خلیات کا ‘ ان کے اندر موجود ڈی این اے کو ڈی کوڈ کرنے کا کام دنیا کی مختلف لیبارٹریز میں کیا گیا۔ ان میں دنیا جہان کے اعلیٰ ترین کمپیوٹرز اور آلات استعمال کیے گئے ۔ انسان سٹیم سیل سے اعضا بنانے کی طرف جا رہا ہے ۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ سائنس کی ایک مجبوری ہوتی ہے کہ وہ سچ کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتی۔ سچ بھی وہ ‘ جسے آپ لیبارٹری میں ثابت کر سکیں ‘ورنہ حریف سائنسی اداروں کو یہ موقع مل جاتاہے کہ وہ آپ کی بے عزتی کر سکیں ۔ اسی طرح یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیامیں کسی بھی علم کے جو ماہرین (Experts)ہوتے ہیں ‘ وہ ایک دوسرے کو بخوبی پہنچانتے ہیں ۔ ایک سرجن دوسرے سرجن کو جانتاہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے ۔ اسی طرح ایک جنرل دوسرے جنرل کو جانتا ہے کہ وہ جنگ لڑنے کے قابل ہے بھی یا نہیں ۔ اسی طرح ہر سائنسدان دوسرے کو جانتاہے ۔ آپ خود کو چھپا نہیں سکتے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ شگوفے چھوڑتے چھوڑتے ایک دن اچانک ایٹم بم ایجاد کر لیں ۔ آپ کو ریسرچ آرٹیکلز لکھنا ہوتے ہیں ۔ دنیا ان کو پڑھتی ہے ۔ پڑھتی بھی اسی صورت میں ہے کہ جب وہ شائع ہونے کے قابل ہوں ۔ یہ کالم نگاری نہیں ہے کہ آپ دہی پہ مضمون لکھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں ۔
پچاس ہزار سال تک کی انسانی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ ہو مو نی اینڈرتھل کو ہومو سیپئنز (انسانوں ) نے دریافت کیا۔ ان کے جینز ڈی کوڈ کیے ۔ اس ادارے نے جس میں دنیا بھر سے دس ہزار سائنسدان کام کرتے ہیں ‘ جن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے اور بے شمار ملحد ہیں ۔ ادھر ہمارے فیس بک پر زندگی بسر کرنے والے دانشور فرماتے ہیں کہ نی اینڈرتھل کوئی وجود نہیں رکھتے ۔ اصل میں ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں ۔ہمیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ نی اینڈرتھل کو مانا تو آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے والی داستان میں کوئی فرق پیدا ہو جائے گا ؛حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ صرف ہومو سیپینز ہی ہیں ‘ جن پہ شریعت نازل ہوئی‘ نبوت نازل ہوئی ‘ جنہوں نے ایجادات کیں ‘ لباس پہنااور مردے دفنائے ۔
ویسے آج میں نے لکھنا لباس پہ تھا۔ کئی لوگ مجھے یہ کہتے ہیں کہ تم بہت پیچیدہ چیزیں لکھنے لگتے ہو۔ میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ علم حاصل کرنے میں دقت تو ہوتی ہے ۔ہمیں صرف تالیاں بجوانے کا فرض تو نہیں سونپا گیا ۔ہم نے کسی نہ کسی طرح مخلوق کو فیس بک سے نیچے اتارنا ہے ‘ تاکہ ہمارے لوگ بھی سوچیں اور کوئی ایسی ایجاد کریں کہ مارک زکربرگ کی قوم جسے استعمال کرے۔
ویسے ذاتی طور پر میں نے تعلیم سے متعلق کچھ منصوبے بنا رکھے ہیں ۔ ادھر دوسری طرف ڈاکٹر فیصل مراد جیسے بڑے سرجن کے ہاتھوں میری خوراک کی نالی اور معدے کی سرجری قریب آچکی ہے ۔ ایک اور سرجن صاحب کی دبئی سے پاکستان آمد کا انتظار ہے ۔ ادھر تیسری طرف چوچہ شیخاں میں بچھڑے پالنے کا ایک فارم بن چکا ہے ۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اپنے پائوں جما کر پوری توجہ پڑھنے لکھنے پر‘ تعلیم پر لگا دی جائے اور انشاء اللہ یہ ایک بہت حیرت انگیز تجربہ ہوگا ۔