تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     17-11-2018

پھر وہی موسم‘ وہی اُداسی

روزمرّہ کی زندگی اور مذاق تو چلتے رہتے ہیں۔ کہیں سے قرضہ ملنا ہے یا نہیں اور معاشی محاذ پہ ہم نے کون سے کارنامے سرانجام دینے ہیں۔ یہ بھبکیاں چلتی رہیں گی۔ 
مسلم ممالک میں یہ بھی معمول ہے کہ کسی نواز شریف کو یہ یاد نہیں رہتا کہ اگر اُس کی جائیدادیں باہر ہیں تو وہ کیسے حاصل ہوئیں۔ اُن کا حافظہ اُنہیں اَب یاد دلاتا ہے کہ مشہورِ زمانہ قطری خطوط سے تو اُن کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ شہزادہ جابرالثانی سے اُن کا کوئی معاملہ نہیں رہا‘ اور متذکرہ شہزادے کے خطوط کہاں سے آئے اور کس مقصد کیلئے‘ اُنہیں کچھ پتہ نہیں۔ اگر یہی صورتحال ہے تو ظاہر ہے کہ نواز شریف صاحب کو یہ بھی نہیں معلوم ہو گا کہ اُن کے وکیل جناب اکرم شیخ نے یہ خطوط کیونکر اور کیسے سپریم کورٹ میں پیش کیے۔ 
صرف نواز شریف کی یہ کیفیت نہیں۔ ہمارے سعودی مہربانوں کو بھی کچھ یادداشت اور حافظے کا مسئلہ پیش آ رہا ہے۔ وہ بیچارے معصوم کہہ رہے ہیں کہ اُن کو کچھ معلوم نہیں کہ جمال خشوگی اُن کے استنبول قونصلیٹ میں کیسے مارے گئے اور اُس کا حکم کہاں سے آیا۔ دنیا ہے کہ اُن کی بات پہ یقین نہیں رکھتی اور طرح طرح کے الزامات اور شبہات کا اظہار کر رہی ہے۔ ترک حکام تو ایسے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پہ کوئی نہ کوئی خبر لیک کر دیتے ہیں‘ جس سے ہمارے سعودی مہربانوںکی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک دن خبر آتی ہے کہ اُن کے پاس وہ آڈیو ریکارڈنگ موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب سے خصوصی طور پر بھیجی ہوئی ٹیم جمال خشوگی کے آخری سانس لے رہی ہے۔ کسی دن کوئی اور ایسی خبر آتی ہے جو سعودی حکومت کی طرف سے پیش کی گئی وضاحتوں پہ پانی پھیر دیتی ہے۔ لیکن بنیادی نکتہ تو اپنی جگہ قائم ہے کہ سعودی فرماں روا اور ولی عہد کو قطعاً کوئی علم نہ تھا کہ کسی نے جمال خشوگی کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا حکم صادر کیا ہو۔ 
یہ بات قطعاً نہیں کہ دنیائے اسلام نے جھوٹ بولنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ جھوٹ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی بولے جاتے ہیں اور بہت خوبصورتی سے۔ فرق البتہ یہ ہے کہ جھوٹ پکڑا جائے تو اُس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ صدر رچرڈ نکسن کو بھی کمزور یادداشت کا مسئلہ درپیش ہوا تھا۔ بہت ساری باتیں وہ بھول گئے اور بہت سے انکاری ہوئے‘ لیکن وائٹ ہاؤس ٹیپس برآمد ہوئیں اور اُن کے حافظے کی کمزوریاں سامنے آئیں تو اُن کو غمگین آنکھوں سے ہیلی کاپٹر پہ سوار ہو کر وائٹ ہاؤس سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہونا پڑا۔ 
صدر بل کلنٹن کا بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ تھا۔ اُنہیں یاد نہ رہا کہ نوجوان اور خوبرو مونیکا لیونسکی کے ساتھ اُن کے تعلقات کس نوعیت کے تھے۔ بذریعہ ٹیلی فونک لنک اُن کو سپیشل پراسیکیوٹر سے جرح کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مواخذے کی تحریک بھی اُن کے خلاف شروع ہوئی لیکن ناکام رہی کیونکہ ری پبلکن پارٹی کے پاس کانگریس میں مطلوبہ نمبرز نہیں تھے‘ لیکن بھرپور قسم کی شرمندگی تو برداشت کرنا پڑی۔ وہ تو کلنٹن تھے جو سب کچھ ہو کے بھی سیدھے منہ سے کہتے رہے کہ مونیکا لیونسکی سے اُن کے جنسی تعلقات نہیں قائم ہوئے تھے۔ حالانکہ جو حقائق سامنے آئے اُن سے ہم جیسے عام انسان کو تو یہی سمجھ لگنی تھی کہ یہ بڑے گرم قسم کے جنسی تعلقات تھے۔ صدر کلنٹن کی جگہ کوئی کمزور آدمی ہوتا تو پبلک میں پھر کبھی اپنا منہ نہ دکھا سکتا۔
حال ہی میں امریکہ میں ایوانِ نمائندگان کے ایک ممبر تھے، انتھونی وائنر، جو کہ نیویارک کے میئر کے عہدے کیلئے اُمیدوار تھے۔ اُن کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ اُنہیں اپنی انڈرویئر کی سیلفیاں نوجوان لڑکیوں کو بھیجنے کا بڑا شوق ہے۔ جب یہ بات منظر عام پہ آئی تو وائنر صاحب کو ایوانِ نمائندگان سے فارغ ہونا پڑا۔
قطری خطوط کے حوالے سے نواز شریف کا مؤقف اگر برطانیہ، امریکہ یا کسی دیگر یورپی ملک میں لیا جاتا تو اُس کے ایسے پرخچے اُڑائے جاتے کہ نواز شریف صاحب اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ داد دیجیے ہماری اسلامی مملکت کی آزادیوں کو کہ یہاں کوئی با اَثر یا امیر شخص ہو تو کوئی کتنی اوٹ پٹانگ بات کر دے اُسے کوئی حساب نہیں دینا پڑتا۔ اعظم سواتی کو ہی لے لیجیے۔ اُن کی گائے والا مسئلہ کسی یورپی ملک میں ہوتا کہ کیسے گائے کی وجہ سے ایک غریب خاندان پہ مقدمہ بنایا گیا اور پھر بچوں اور عورتوں سمیت سب کو جیل بھیجا گیا تو ایسا شخص ہمیشہ کیلئے سیاست کا نام نہ لے سکتا۔ لیکن ہماری آزادیاں ہیں کہ اعظم سواتی پھر بھی کابینہ میں بیٹھے ہیں اور نئے پاکستان کے با اُصولوں نے اُن کی چھٹی نہیں کرائی۔
تو چھوڑیں اِن باتوں کو۔ ایسا تو ہوتا رہے گا۔ ہمارا مزیدار قسم کا خمیر ہے۔ یہاں ہر بات چلتی ہے بشرطیکہ جیبیں بھاری ہوں اور آپ معاشرے میں اثر رکھتے ہوں۔ لا چاروں کی اور بات ہے۔ سب قانون اُن کے لئے ہیں۔ اِس لئے مملکتِ خداداد میں آپ لاچار ہوں تو لازم ہے کہ آپ روزمرّہ زندگی میں قدم پھونک پھونک کے رکھیں اور ہر چیز میں احتیاط برتیں۔ 
میں تو بات کرنا چاہتا تھا موسم کی۔ خزاں ختم ہوئی ہے اور سردی کا پہلا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں گرمی اِس شدت سے ہوتی ہے کہ جینا محال ہو جاتا ہے۔ یہی خزاں اور سردیوں کے مہینے ہیں جب اِس جیسا موسم کہیں اور نہیں ملتا۔ آسمان کی رنگت تو اِن مہینوں میں ہمارے سارے علاقوں میں ایسی ہو جاتی ہے اور ہوا کی جو کیفیت رہتی ہے اُس کی اپنی ہی بات ہے۔ زندگی کی مجبوریاں انسان کو نہ ہوں تو سردیاں شروع ہوتے ہی رُخ دیہات کا کرنا چاہیے۔ دِن کو سورج کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ بغیر کچھ اور کیے نشہ سا طاری ہو جاتا ہے۔ شام ڈھلے دل اور وجود میں ہزار نہ پوری ہونے والی اُمنگیں اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ باقی سرزمینوں کو چھوڑیں۔ سردی کے مہینوں میں پنجاب جیسا موسم اور ہوا کی کیفیت شاید اور کہیں ایسی نہ ہو۔ 
جب ایسے میں جی یہ چاہے کہ کسی تندور کے پاس بیٹھ کر سامانِ شب سے مستفید ہوا جائے تو کیا دھیان ڈالیں جناب نواز شریف کے قطری خطوط پہ؟ یا اِس اَمر پر کہ سعودی مہربان جمال خشوگی کے حوالے سے کون سی نئی قلابازی لگا رہے ہیں؟ اِس موسم کے لحاظ سے نازک مسائل اور نوعیت کے ہیں۔ کل شب ہی ایک ہماری جاننے والی خاتون آئیں اور اُنہوں نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔ پوچھا کہ اصلی یعنی ایک نمبر بلیک لیبل کہاں سے ملتی ہے۔ ہم کیا جانیں یہ بلا کیا ہے۔ بس سُنا ہے کہ کسی دور کے سکاٹ لینڈ نامی ملک کی مشہور دوا ہے جس کے با احتیاط استعمال سے اِس موسم میں دِل کو لاحق بیماریوں کا افاقہ ہوتا ہے۔ خاتون کہنے لگیں کہ نیو ایئر نائٹ کی تیاری کرنی ہے اور اُس کیلئے یہ مخصوص دوا مطلوب ہے۔ ہم نے کہا کہ اَب تو ہر جگہ دو نمبری ہے۔ جس ملک میں ادرک، لال مرچ اور گوشت صحیح یا ایک نمبر کا نہ ملے وہاں بلیک لیبل نامی دوا ایک نمبر کہاں سے آئے گی؟ خاتون نے تسلی دی کہ وہ گفٹ نہیں مانگ رہیں، واجب قیمت ادا کریں گی۔ ہم نے سمجھایا کہ یہاں پیسے کی بات نہیں۔ دو نمبری کا مسئلہ ہے۔ پیسہ ہو بھی تو مطلوبہ درست اشیاء دستیاب نہیں۔ اِس کا کیا کیا جائے؟ ہمارے جواب سے اُن کی تسلی نہ ہوئی۔ 
لیکن مسئلہ تو ہمارا یہی ہے۔ باتیں ہر وقت راہ نجات کی۔ مخصوص لاؤڈ سپیکروں سے بے سُرے شور کی گھن گرج ہر وقت۔ شاید ہمارے قرضہ جات کا مسئلہ بھی حل ہو جائے اور آئی ایم ایف سے پروگرام طے پا جائے۔ لیکن اِس نجات ڈھونڈنے والی مملکت میں نیو ایئر نائٹ کا کیا بنے گا؟ یہ نہیں کہ ہم نے کسی نائٹ کلب جانا ہے۔ اللہ کے فضل سے یہاں تو نائٹ کلب ہیں ہی نہیں۔ لیکن اُس شام جہاں کہیں بھی بیٹھیں یہ یقین کیسے ہو گا کہ جو چیز استعمال ہو رہی ہے ایک نمبر ہے؟
جہاں ایسے مسائل درپیش ہوں وہاں یہی بات جچتی ہے جو نواز شریف صاحب نے کہی کہ نہ اُنہیں کچھ قطری خطوط کا پتہ ہے اور نہ یہ کہ لندن فلیٹس کہاں سے آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved