تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     11-04-2013

قانون کا امتیازی اطلاق

انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ \"SORROWS ALWAYS COME IN BATTALIONS\"(مصیبتیں ہمیشہ جتھوں کی صورت میں آتی ہیں) اس روز میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ اسلام آباد سے کراچی جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے تین سو ایک کی روانگی کا وقت صبح سوا نو بجے تھا۔ میں اٹک سے اسلام آباد ائیرپورٹ کے لیے صبح ساڑھے چھ بجے روانہ ہوا۔ پونے آٹھ بجے بورڈنگ کارڈ لے کر لائونج میں داخل ہوا تو روانگی والا لائونج مسافروں سے بھرا ہوا تھا۔ دیگر کئی ہوائی کمپنیوں کی پروازیں بھی لگ بھگ اسی دوران تھیں۔ ہماری فلائٹ جمبو جیٹ یعنی بوئنگ 747 تھی اور اس کے اپنے مسافروں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ نو بجے تک جب فلائٹ کی روانگی کے بارے میں کوئی اعلان نہ ہوا تو میں نے پی آئی اے کے عملے سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بڑا سادہ جواب دیا کہ جب ہمیں فلائٹ کی روانگی کا ٹائم معلوم ہوگا ہم آپ کو بتا دیں گے۔ میں نے ڈھیٹ بن کر پوچھا کہ آپ کو کب پتہ چلے گا؟ جواب ملا: پتا نہیں۔ آدھ گھنٹہ بعد اعلان ہوا کہ مسافر جہاز کی طرف روانہ ہوجائیں۔ اعلان ہونے سے بوئنگ 747 کے بھرنے تک تقریباً ایک گھنٹہ درکار ہے۔ ترتیب سے یکسر عاری چار سو سے زائد مسافروں کو لائونج سے نکل کر بسوں کے ذریعے جہاز تک پہنچنے اور اپنے سامان سمیت جہاز میں بیٹھنے تک کم از کم اتنا ہی وقت درکار تھا۔ جہاز اس حساب سے تقریباً گیارہ بجے روانہ ہو سکتا تھا لیکن ابھی مسائل اور مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ باقی تھا۔ جہاز آہستہ آہستہ رینگتا ہوا رن وے کی سمت روانہ ہوا ہی تھا کہ پائلٹ نے اعلان کیا کہ ایک پرواز رن وے پر لینڈ کرنے والی ہے‘ جونہی رن وے کلیئر ہوگا ہم روانہ ہوجائیں گے۔ دس منٹ بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ ایک پرائیویٹ ائیرلائن کا جہاز جس نے ابھی ابھی لینڈ کیا تھا اترتے ہی عین رن وے کے درمیان خراب ہوگیا ہے‘ اسے وہاں سے گھسیٹنے میں آدھا گھنٹہ لگ سکتا ہے۔ چند منٹ بعد پائلٹ ہمارے درمیان سے گزرا تو میں نے اس سے کہا کہ اس جہاز میں چار سو کے لگ بھگ مسافر ہیں‘ ڈیڑھ دو سو اس جہاز کے بھی ہونگے‘ کیا ہم سب مل کر اس جہاز کو ’’دھکا‘‘ لگا کر ایک طرف نہیں کرسکتے؟ پائلٹ کہنے لگا۔ سنا ہے کہ وہ جہاز ہائیڈرالک پرابلم کا شکار ہوگیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اب اس کو ہٹانے میں دو ڈھائی گھنٹے لگ جائیں۔ اسلام آباد ائیر پورٹ تمام فلائٹس کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ قصہ مختصر‘ جہاز بارہ بجے کے بعد کراچی کیلئے روانہ ہوگیا۔ جب کراچی کی فضا میں پہنچے تو پائلٹ نے ایک اور اعلان کیا کہ کراچی ائیرپورٹ وی آئی پی موومنٹ کے باعث بند کردیا گیا ہے‘ جونہی معاملہ کلیئر ہوا‘ ہمیں اترنے کی اجازت مل جائے گی۔ جہاز اس دوران کراچی پر چکر لگاتا رہا۔ لوگ مختلف چہ میگوئیوں میں مصروف تھے۔ ایک مسافر کہنے لگا‘ عجیب ملک ہے‘ کبھی جہاز کو اڑنے نہیں دیتے اور کبھی اترنے نہیں دیتے۔ ائیرپورٹ پر کسی نے بتایا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اسلام آباد روانہ ہونا تھا مگر وہاں کسی سے راکٹ لانچر، بارود اور اسی قسم کا سامان برآمد ہوا ہے لہٰذا وہ اسلام آباد نہیں جارہا۔ اب ائیرپورٹ کلیئر ہے۔ ائیرپورٹ سے اپنے ہوٹل پہنچا تو ہوٹل میں غیر معمولی سکیورٹی تھی۔ کانوں میں ’’ٹوٹیاں‘‘ لگائے سپیشل برانچ اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار اپنی وضع قطع اور رویے کے باعث دُور سے پہچانے جارہے تھے۔ میرا کمرہ تیرہویں منزل پر تھا۔ جب میں لفٹوں کے پاس پہنچا تو وہاں بھی دو سفید پوش ایجنٹ کانوں میں ائیرفون پھنسائے مستعدکھڑے تھے۔ کہنے لگے: سر! چار نمبر لفٹ کے سوا آپ باقی تینوں لفٹیں استعمال کرسکتے ہیں۔ میں نے ہنس کر پوچھا کیا اس لفٹ کے بٹن میں کرنٹ آگیا ہے؟ جواباً وہ اپنی تمام تر کرختگی کے باوجود ہنس پڑا۔ اوپر جانے پر نورالحسن نے بتایا کہ پرویز مشرف بھی اسی ہوٹل میں مقیم ہے۔ یہ ایک نئی مصیبت تھی۔ ہوٹل میں آزادانہ نقل و حرکت کے امکانات خاصے معدوم تھے۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا جس میں خان صاحب کہتے ہیں کہ ’’خوچہ‘ آج تمہارا قسمت ہی خراب ہے‘‘ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ قسمت میری نہیں پرویز مشرف کی خراب ہے۔ میں سارے ملک میں آزادی سے گھوم سکتا ہوں۔ ہوٹل کی لابی میں بیٹھ سکتا ہوں۔ پول سائیڈ پر جا سکتا ہوں۔ تین لفٹیں استعمال کرسکتا ہوں۔ بغیر سکیورٹی اہلکاروں کے باہر آجا سکتا ہوں۔ اصل قسمت تو اس کی خراب ہے جو اوپر کسی فلور میں پابند ہوا بیٹھا ہے۔ راکٹ لانچر والوں کے خوف سے اسلام آباد نہیں جا سکتا۔ خودکش حملہ آوروں کی دہشت سے جس کی جان آدھی نکلی ہوئی ہے اور وہ سوائے اپنی بہادری اور بے خوفی کے بیانات جاری کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر یہ شخص پاکستان کرنے کیا آیا ہے؟ اسے اپنی ذات اور مقبولیت کے بارے میں کیا خوش فہمی تھی جو اسے واپس بھڑوں کے چھتے میں لے آئی ہے؟ میرا خیال ہے کہ اسے اس کی بدقسمتی اور بہت سے لوگوں کی دلی خواہش واپس لائی ہے۔ کمرے میں محفل جمی تو ایک دوست پوچھنے لگا‘ آخر پرویز مشرف واپس کیوں آیا ہے؟ میں نے کہا‘ میری ناقص عقل تو اس بارے میں کوئی معقول نتیجہ اخذ کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ آپ بتائیں کہ آپ کے خیال میں واپسی کی کیا وجوہات ہیں؟ وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا سوائے حماقت، بے وقوفی، بدقسمتی اور خوش فہمی کے اور تو کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آرہی۔ پتہ نہیں کس احمق دوست یا چالاک دشمن نے دبئی میں بیٹھے ہوئے اچھے بھلے عیش کرتے ہوئے سابق آمر کو یہ باور کروایا کہ وہ واپس پاکستان آئیں گے تو ان کے استقبال کے لیے ایک جم غفیر ان کا منتظر ہوگا۔ قوم کو جس نجات دہندہ کا انتظار ہے‘ پرویز مشرف ان کا وہی نجات دہندہ ہے اور لوگ اس کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں۔ خدا جانے مخلوق خدا کو تنگ و پریشان کرنے والوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ معاملات وہ نہیں جو ان کے خیال میں ہیں بلکہ حقائق اس کے بالکل الٹ ہیں۔ ان سے محبت کرنے والوں کو تو شاید اس کی اتنی فکرنہیںمگر اس سے نفرت کرنے والے اسے جس طرح یاد کر رہے ہیں اور موقع کی تلاش میں ہیں‘ اس کا اسے اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے۔ ایک اور دوست کہنے لگا ہمارے ریٹرننگ افسران کر کیا رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن اور عدالتیں کیا کررہی ہیں؟ سیاسی جمہوری قوتیں کس انتظار میں ہیں؟ آئین کو پامال کرنے والے کو کوئی پوچھ نہیں رہا اور ڈگریوں پر سزائیں دی جارہی ہیں۔ آرٹیکل چھ کے بارے میں کسی کو رتی برابر فکر نہیں ہے اور سارا زور باسٹھ تریسٹھ پر لگایا جارہا ہے۔ پانی چوری کے شبہات میں کاغذات نامزدگی مسترد کیے جارہے ہیں اور چونسٹھ کروڑ کے اثاثوں والے ریٹائرڈ جنرل سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ اپنی ساری سروس کی ساری تنخواہ بھی جمع کرلیتا تو چونسٹھ کروڑ کا عشر عشیر نہ بنتا۔ یہ پیسے، یہ جائیداد کہاں سے آئی؟ اس سے کسی ریٹرننگ افسر نے یہ نہیں پوچھا کہ اس نے اپنے اثاثوں میں لندن کے ایجویر روڈ والے فلیٹ کا، ترکی کے شہزادوں کے جزیرے میں ملکیتی وِلا کا‘ دبئی کے گھر کا اور غیرملکی بنکوں میں اربوں روپے کے اکائونٹس کا کیوں ذکر نہیں کیا؟ یہ عجیب ملک ہے کہ یہاں احتساب ان کا ہوتا ہے جن کے پاس ہے ہی کچھ نہیں اور انہیں کوئی پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتا جنہیں پوچھا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنا کرم کرے مگر تاریخ میں ایسی مدنیت کا ذکر ہمیشہ برباد ہوجانے والی مدنیت کے زمرے میں آیا ہے جہاں قانون کا اطلاق پسند ناپسند اور کمزور اور طاقتور کے درمیان امتیاز کے بعد کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved