تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-11-2018

The Flight of the caged bird (قیدی پرندے کی پرواز)

ہم ایسے نہیں کہ بھارتی وزیراعظم‘ مودی جی کی سبکی پر تالیاں بجائیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ رافیل جنگی طیاروں کی خریداری کے تنازعے نے جہاںبھارت میں سیاسی طوفان کھڑا کر دیا ہے ‘وہیں فرانس بھی اس کے اثرات کی زد میں ہے۔ سیاسی طوفان برپا ہونے کے پیچھے‘ فرانس کے نائب وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ کہ سابق صدر فرانسوا اولاند کے بیان سے تنازعے نے جو شکل اختیار کی ہے‘ اس کے بعد خوف ہے کہ فرانس اور بھارت کے تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔اولاند نے ایک فرانسیسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سودے کے وقت بھارت نے صنعتکار انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس ڈیفنس کا نام پیش کیا تھا اور فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ اویشن کے سامنے کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔اس انکشاف کے بعد کانگرس کے صدر‘ راہول گاندھی نے‘ جو ایک مدت سے اس سودے میں بڑے گھپلے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں‘ وزیر اعظم نریندر مودی پر اپنا حملہ تیز کر دیا ہے۔راہول گاندھی کا الزام ہے کہ مودی نے خود یہ معاہدہ کیا تھا‘ اس لئے اس میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی کا قوی اندیشہ ہے۔ دیگر اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے بھی وزیر اعظم مودی سے وضاحت طلب کی جا رہی ہے‘لیکن مودی جی خاموش ہیں اور حکومت کی جانب سے وزیر دفاع‘ نرملا سیتارمن اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی‘ اس الزام کی سختی سے تردید کرتے چلے آ رہے ہیں۔راہول گاندھی نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے اس سودے کی جانچ کرائی جائے۔ادھر ڈسالٹ اویشن نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے بھارت کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کی بجائے‘ ریلائنس ڈیفنس سے معاہدہ کر ڈالا۔ارون جیٹلی نے اپوزیشن کے مطالبات اور الزامات کو مسترد کر دیا اور جوابی الزام عائد کیا کہ راہول گاندھی اور فرانسوا اولاند میں ساز باز ہے۔
سینئر تجزیہ کار پروفیسر منوج جھا نے کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے سامنے کچھ سوالات رکھے ہیں۔ مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کا مضحکہ اڑانے کی بجائے ‘ثبوتوں کے ساتھ ان سوالوں کے جواب دے۔بقول ان کے‘ سودے کی آنچ وزیر اعظم اور ان کے دفتر پر آ رہی ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کو ہی جواب دینا چاہئے۔ا نہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ایک نیوز کانفرنس کریں اور ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لئے‘ سوالات کے جواب دیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا ‘تو یہ معاملہ 2019ء کے انتخابات تک‘ مودی حکومت کا پیچھا کرتا رہے گا اور ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی کرے۔بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق رافیل تنازعہ اس حکومت کے لیے اسی طرح نقصا ن دہ ثابت ہو سکتا ہے‘ جیسا کہ بوفرز تنازعہ‘ راجیو گاندھی حکومت کے لیے ثابت ہوا تھا۔یاد رہے کہ سابقہ یو پی اے حکومت نے 2012ء میں رافیل جنگی طیارے کا سودا کیا تھا‘ جس کے مطابق ایک طیارے کی قیمت 526 کروڑ روپے تھی اور 18 جہاز تیار حالت میں ملتے اور 108 جہاز بھارت کے اندر بنائے جاتے۔ فرانسیسی کمپنی بھارت کو اس کا لائسنس دیتی اورٹیکنالوجی بھی منتقل کرتی‘لیکن 10 اپریل 2015ء کو وزیر اعظم مودی نے فرانس کے دورے کے وقت اس معاہدے کو رد کر دیا اور ایک نیا معاہدہ کر ڈالا‘ جس کے تحت بھارت کو 36 طیارے ملیں گے اور ایک طیارے کی قیمت 1666 کروڑ روپے ہوگی۔ مودی جی پر الزام ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ دیوالیہ ہوئے انیل امبانی کی مدد کرنے کے لیے کیا۔ یاد رہے کہ انیل امبانی کی کمپنی معاہدے سے محض پندرہ روز قبل قائم ہوئی تھی اور اسے اسلحہ سازی کا کوئی تجربہ نہیں ہے‘ جبکہ ایچ اے ایل کو نصف صدی کا تجربہ حاصل ہے۔
اب رافیل تنازعے کی بھارتی سپریم کورٹ میں سماست ہو رہی ہے ۔ بحث کے دوران کچھ حقائق سامنے آئے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ رافیل میں جو دال پوری کالی ہے‘ اس کا سچ دنیا کے سامنے ضرور آئے گا اور پتا چلے گا کہ چوکیدار کی چوری کیاہے؟ اور کس طرح سے چوکیدار نے پورے ملک کے وقار کو دائو پر رکھ کر یہ کام کیا ہے؟ مودی جی نے ہمیشہ عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی اور ''میک ان انڈیا‘‘ کا نعرہ لگایا۔ کانگرس کے قد آور رہنما سردار پٹیل کا مجسمہ رن فار یونٹی‘ یعنی مجسمہ اتحاد بھی میڈ ان چائنا کا لگوایا گیا۔ عدالت میں وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 25مارچ2015ء کو دی سالٹ اور ہال میں یہ معاہدہ ہوا اور دونوں پارٹیوںنے کہا کہ 95فیصد بات ہو گئی ہے‘ لیکن15دن بعد ہی نئی بات سامنے آئی‘ جس میں 
36 رافیل طیارے پر سودا ہوا او''ر میک ان انڈیا‘‘ کا نعرہ دینے والوں نے اسے کنارے کر دیا۔ وکیل صاحب کا کہنا تھا کہ اس ڈیل کے بارے میں وزارت دفاع کو بھی پتا نہیں تھا اور ایک جھٹکے میں108سے معاملہ36 طیاروںپر جا پہنچا۔انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کہہ رہی ہے کہ انہیں آفسیٹ پارٹنر کا پتا نہیں ہے‘ لیکن پروسیس میں صاف ہے کہ یہ سب بغیر سرکار کی مرضی کے نہیں ہو سکتا۔وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایاکہ مودی سرکار‘ قیمتوںکا نہیں بتا رہی‘ لیکن میرا اپنا ماننا ہے کہ جب سب کچھ دودھ کی طرح صاف ہے ‘تو پھر مودی جی کو بتانے میں کیا حرج ہے؟ اور سرکار اسے کیوں چھپا رہی ہے؟ ایک اور بات اس سے بھی آگے کی ہے کہ مودی سرکار کو جے پی سی سے اعتراض کیوں ہے؟ جب سب کچھ صاف ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ کر رافیل طیاروں کا سودا کیا گیا۔ مودی جی نے جس طرح سے کسانوں اورجوانوں کا پیسہ‘ اپنے سرمایہ دار دوستوں کی جیب میں ڈالنے کی کوشش کی ہے ‘ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ مودی جی بار بار125کروڑ عوام کا نام لیتے ہیں‘ لیکن انہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں۔بھارت کی آبادی اب125کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ جو باقی لوگ بچتے ہیں‘ مودی جی کے دل میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں‘ کیونکہ مودی جی جن کا نام لیتے ہیں‘ جب ان کے لئے ہی ان کے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے‘ تو باقی عوام کی انہیں بھلے کیا پروا ہو گی؟اب سوال یہ ہے کہ جب100کروڑ لوگ بھارت میں در انداز ہیں اور اس میں سے صرف 20کروڑ مسلمان ہیں ‘اس لئے پورے بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ بی جے پی کے سب نشانے پر ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved