کون کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا یہ بحث فضول ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور جو کچھ کرسکتے ہیں ‘وہ کرنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ہم اگر کوئی دعوٰی کرتے ہیں‘ تو اُس دعوے کو مضبوط کرنے کی خاطر کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا بھی پڑتا ہے۔ دنیا عمل مانگتی ہے۔ دعوے اور وعدے کرنے والے قدم قدم پر ہیں اور ''ایک ڈھونڈو‘ ہزار ملتے ہیں‘‘ کی صورت ٹکراتے رہتے ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ہم جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں‘ اُس کے درمیان پائے جانے والے فرق ہی کی بنیاد پر لوگ یہ طے کرتے ہیں کہ ہمیں احترام کی نظر سے دیکھا جائے یا نہ دیکھا جائے؟ حق تو یہ ہے کہ ہم عمل ہی کی بنیاد پر قابلِ احترام ٹھہرتے ہیں۔
کہنے اور کرنے کے فرق کو سمجھانے کے حوالے سے ممتاز دانشور بیک مِنسٹر فُلر نے بہت کام کی بات کہی ہے۔ فُلر کہتے ہیں ''ہم زندگی بھر بڑے پیمانے کی تبدیلیوں کے لیے کوشاں رہتے ہیں یا کم از کم تاثر تو کچھ ایسا ہی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی موجود حقیقت سے لڑکر‘ متصادم ہوکر کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ کسی بھی موجود ماڈل کو ناکام بنانے کے لیے اُسے ختم کرنا واحد اور بہترین آپشن نہیں۔ بہترین آپشن یہ ہے کہ ہم کوئی نیا ماڈل تیار اور پیش کریں؛ اگر یہ ماڈل بہتر‘ کارگر اور پُرکشش ہوگا تو پُرانا‘ یعنی موجود ماڈل خود بخود غیر متعلقہ اور غیر مؤثر (obsolete) ہو جائے گا۔‘‘
بات پتے کی ہے۔ حقیقت کی دنیا میں یہی تو ہوتا ہے۔ اگر کام کرنے کا کوئی ڈھنگ ہماری نظر میں غیر متعلق‘ غیر موثر‘ غیر بارآور یعنی مجموعی طور پر ناکارہ و ناکام ہے‘ تو اُس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے‘ موقع ملتے ہی اُسے تنقید کا نشانہ بنانے میں اپنی توانائی ضائع کرنے سے کہیں بہتر آپشن یہ ہے کہ اپنے حصے کا کام کیا جائے‘ یعنی کام کرنے کا نیا اور ایسا ڈھنگ متعارف کرایا جائے‘ جو زیادہ پُرکشش آپشن کا درجہ رکھتا ہو۔ دنیا ہر بات‘ ہر عمل اور ہر چیز کو حقیقت پسندی کی کسوٹی پر پرکھتی ہے‘ جو کچھ اس کسوٹی پر کھرا اُترے وہی کھرا ہے‘ باقی سب اضافی ہے۔
دنیا بھر میں ہوتا یہ ہے کہ اقتدار کے ایوان میں نئے لوگ آتے ہیں ‘تو پہلے والوں کو لتاڑنے میں وقت اور توانائی ضائع کرتے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس قبیح عادت سے اب تک چھٹکارا نہیں پایا جاسکا۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کا حال جو کچھ کہ ہے ‘سب کے سامنے ہے۔ ہمارے ہاں ہر حکومت پچھلی حکومت کو روتی رہتی ہے کہ وہ ایسے مسائل چھوڑ گئی ہے‘ جو حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ جو وقت پچھلوں کو رونے میں ضائع کیا جاتا ہے‘ وہی وقت اگر اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بروئے کار لایا جائے ‘تو معاملات تیزی سے درست ہوں اور ملک ترقی و استحکام کی طرف بڑھے۔
تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کے نعرے کی لہر پر چڑھ کر اقتدار کے ایوان تک پہنچی ہے۔ پوری قوم آس لگائے بیٹھی ہے کہ نئی حکومت تبدیلی کے حوالے سے اپنے وعدوں اور دعووں پر عمل کرے گی۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوم کو حقیقی ‘یعنی مثبت تبدیلیوں کا انتظار ہے۔ یہ تبدیلیاں کس طور ممکن بنائی جاسکیں گی‘ اس کا اندازہ تو خود عمران خان اور ان کے ساتھیوں ہی کو ہوسکتا ہے۔ ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ تبدیلی کبھی واقع نہیں ہوتی ‘بلکہ یقینی بنائی جاتی ہے۔ کوئی بھی انقلاب برپا ہوتا نہیں‘ برپا کیا جاتا ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم اگر کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے تو لازم ہے کہ عمل کے میدان میں اُن کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ آئے۔ سارا کھیل استقامت کا ہے۔
یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ بیک مِنسٹر فُلر کے ''فارمولے‘‘ کے مطابق سابق حکومت کی کارکردگی کا ماتم کرنے کے مقابلے میں مائل بہ عمل رہنے کو ترجیح دی جائے‘ جو کچھ نواز شریف اور اُن کے رفقاء نے کیا وہ اچھا تھا یا بُرا‘ گزر گیا۔ محاسبہ اپنی جگہ ‘مگر مجموعی طور پر اُس پورے دور کو بُھلاکر نئے سِرے سے کام کرنے کو اولین ترجیح کا درجہ دیا جانا چاہیے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی نیا ماڈل پیش کرنے کی بجائے زمینی حقیقت سے نبرد آزما رہنے کو چلن کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ عمران خان مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور کسی بھی صورتِ حال میں خاصی استقامت کے ساتھ کھڑے ہوکر بہت کچھ کرنے کا سیاسی عزم بھی رکھتے ہیں‘ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ اُن کے رفقاء میں عزم و عزیمت کا گراف کس مقام پر ہے۔ کیا وہ بھی کسی بڑی تبدیلی کی خاطر بھرپور کوشش کے لیے تیار ہیں؟
اس وقت پاکستان کو غیر روایتی حکومت درکار ہے۔ ہمارے ہاں اب تک رونے پیٹنے کا چلن رہا ہے۔ ہر نئی حکومت پچھلوں کو روتے روتے میعاد گزار دیتی ہے۔ سوال دوسروں کو رونے کا نہیں ‘بلکہ خود کچھ کر دکھانے کا ہے‘ جو کچھ ہوتا آیا ہے وہ اگر بہت بُرا ہے اور خرابیاں پیدا کر رہا ہے‘ تو کوئی نیا ماڈل پیش کیجیے؛ اگر نیا ماڈل کچھ ہوا تو پچھلا ماڈل خود بخود غیر متعلق اور غیر موثر ہو جائے گا۔ لوگ ہر اس چیز کو تسلیم اور قبول کرتے ہیں‘ جس میں اُن کے لیے افادیت ہو۔ کسی بھی نئی حکومت کے لیے سب سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو یقین دلادے کہ اُس کے پاس کچھ ہے‘ یعنی وہ کچھ کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتی ہے۔ یہ یقین ہی حکومت میں عوام کے اعتماد کا گراف بلند کرتا ہے۔
عمران خان اور اُن کی ٹیم کے سامنے کئی چیلنج ہیں اور جتنے چیلنج ہیں‘ اُتنے ہی آپشن بھی ہیں۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ ہر چیلنج اپنی اصل کے اعتبار سے آپشن ہی ہوتا ہے۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات عمران خان بھی جانتے ہوں گے؛ اگر واقعی ایسا ہے‘ اور ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہے‘ تو پھر عمران خان اور اُن کی ٹیم کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک کو بہت کچھ دینا چاہتے ہیں۔ اُنہیں کوئی نیا انتظامی اور معاشی و سیاسی ماڈل پیش کرنا چاہیے‘ تاکہ اندازہ ہو کہ وہ ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی لانے کے محض خواہش مند نہیں‘ بلکہ اس کی صلاحیت و سکت بھی رکھتے ہیں۔
پاکستان کے مسائل گوناگوں ہیں۔ ایک طرف ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کا معاملہ ہے۔ دوسری طرف کالے دھن کو سفید کرنے کے عمل کی روک تھام کا چیلنج درپیش ہے۔ ریاست کی انتظامی مشینری کی اصلاح بھی لازم ہے اور معاشرے کی اصلاح بھی وہ معاملہ ہے ‘جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سب کچھ ایک ساتھ نہیں ہوسکتا اور ایسا کچھ کرنے کی کوشش کرنی بھی نہیں چاہیے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو کچھ ہے اُسے زیادہ چھیڑے بغیر‘ خرابیوں کا رونا روئے بغیر اپنے حصے کا کام شروع کیا جائے اور پھر پوری رفتار اور جوش و خروش کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ جہد مسلسل ہی سے خیر کی راہ نکلتی ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل اس امر کے متقاضی ہیں کہ نیک نیتی کے ساتھ کام کیا جائے اور ہاتھ نہ روکا جائے۔ نئی حکومت جو کچھ کرسکتی ہے‘ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ کر گزرے۔ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے