تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-11-2018

بے شرمی کی لذت اور شرم کی طاقت

میں نے ایک گانا سنا تھا‘ جس کے بول تھے : ساری نائٹ ‘ بے شرمی کی ہائٹ ۔ بے شرمی میں واقعی بہت لذت ہوتی ہے ۔ اسی لیے مسلمانوں کو یہ کہا گیا تھا کہ جس کی آنکھ سے شرم نکل جائے‘ وہ اپنی مرضی کرے ۔ اس سے پہلے آپ لباس کے بارے میں سنیے ۔ لباس ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں انسان کھال ‘ کپاس اور دوسری چیزوں کی مدد سے اپنے جسم کو ڈھانپتا ہے‘ تاکہ لوگ اس کے اعضا نہ دیکھ سکیں ۔ انسان کے علاوہ دنیا کے کسی جاندار کو اتنی عقل نہیں کہ اپنے آپ کو ڈھانپنے کے بارے میں سوچے۔ جانوروں کو اگر سردی بھی لگ رہی ہو تووہ لباس نہیں پہنتے ‘بلکہ ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف اگر آپ دیکھیں تو جیسے جانوراور پرندے شکار کرتے ہیں ۔ اپنے گھونسلے بناتے ہیں ‘ آپ کو ان میں ان چیزوں کی مکمل سمجھ بوجھ نظر آئے گی ۔ شہد کی مکھیوں اور مکڑے وغیرہ میں تو یہ سب کچھ اتنی باریک پیمائشوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے ۔آپ کسی بلی یا کتے کو پتھر مار کے دیکھیں ۔ وہ اپنی sensesسے انتہائی تیزی سے کام لیتے ہوئے‘ اپنے آپ کو بچالے گا ۔ اس کے باوجود کسی جانور میں اتنی عقل نہیں کہ اپنا ننگا جسم ڈھانپ سکے ۔ 
یہ سمجھ بوجھ ‘یعنی جسم ڈھانپنے کی شرم خدا نے صرف انسان کو دی ۔ جانور ایک دوسرے کے سامنے بالکل ننگے ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب مختلف جانور ‘مثلاً :کتیا یا بھینس جب بچّے پیدا کرنا چاہتی ہے‘ تو وہ ایک خاص قسم کی بو پیدا کرتی ہے یا ایک خاص آواز لگاتی ہے۔ اس بو اور آواز سے سب کو پتا چل جاتاہے کہ یہ حاملہ ہونا چاہتی ہے ۔ انسانوں میں اللہ نے چونکہ شریعت اتاری ‘ انہیں لباس پہنایا ‘ شادی کے قوانین بنائے ‘ اس لیے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی ۔ آپ سوچیں کہ اگر انسانوں میں عورت سے ایسی بو آتی یا انسانوں میں عورت کو ایسی آواز لگانا پڑتی تو ماں باپ کے سامنے بیٹیوں اوربھائیوں کے سامنے بہن کو کس قدر شرمندگی اٹھانا پڑتی ؟ اس کے ساتھ ساتھ صرف انسانوں میں اللہ نے رشتوں کا ایک تقدس بنایا ۔ جانور جب بڑے ہوجاتے ہیں ‘تو ان میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کے رشتے بھی باقی نہیں رہتے ۔
اس طرح اللہ کہتاہے کہ لباس ایک بہت عزت والی چیز ہے ‘جو کہ انسان پر نازل کی گئی ۔ اسی طرح قرآن کہتاہے کہ شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس بنایا گیا ہے ؛ اگر ایک لڑکا یہ خواب دیکھتاہے کہ اس کی ماں اس کے لیے لباس سی رہی ہے اور سی کر تیار کر دیتی ہے‘ تو یہ شادی کا خواب ہے ‘ جو علامت قرآن اور حدیث میں آجاتی ہے ‘ وہ حتمی ہوتی ہے ۔ اسی طرح جب حضرت آدمؑ نے شجرِ ممنوعہ کو چھوا تھا تو وقتی طور پر ان کا لباس ان سے چھن گیا تھا ۔ قرآن میں لکھا ہے ''بدت لھما سو ء تہما‘‘سورۃ الاعراف 22۔ آدمؑ فوراً پتوں سے اپنا بدن ڈھانپنے لگے‘ اس لیے کہ اللہ نے انسان میں ایک شرم رکھی ہے ۔اس شرم میں اتنی طاقت ہے کہ ساری دنیا مل کر بھی اسے زیر نہیں کر سکتی۔دوسری طرف نفس میں بے شرمی کے لیے ایک لذت رکھی گئی ہے اور شیطان اس کی طرف انسان کو اکساتا ہے ۔ اس لیے انسان آج ایسی محفلوں میں شریک ہوتاہے ‘ جس میں وہ دوسروں کے سامنے اپنا لباس اتارتا ہے ۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جس کے بارے میں ہمیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا۔یہ کہ ایک دن آئے گا‘ جب مرد اور عورتیں چوراہوں میں گدھوں کی طرح اختلاط کریں گے اور جو ان سے کہے گا کہ (کم از کم )اوٹ (تو)کر لو تو وہ ولی ہوگا ۔
آج ہم ایک ایسے وقت میں کرہ ٔ ارض پہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں ‘ جب خدا کا نام لینا پسماندگی کی علامت بن گیا ہے ۔یہ انسانی ''آزادی ‘‘کا دور ہے۔یہ انسانی آزادی ہر چیز پر مقدم ہے ۔مغرب میں آج خدا کا نام لینا اور خدا پرست ہونا بہت شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے ۔ انسانی آزادی کا ایک بہت بڑا بت وجود میں آچکا ہے ۔ اس انسانی آزادی کا کرشمہ یہ ہے کہ اب ہم جنس پرستی بری چیز نہیں سمجھی جاتی‘ بلکہ ہم جنس پرستی کو برا کہنا انتہائی بے عقلی اور بدتہذیبی کی بات سمجھی جاتی ہے ۔ 
اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک طویل عرصے تک مشرق اور مغرب میں‘ جولوگ مذہب کو representکرتے رہے‘ وہ بالکل ان پڑھ اور بے علم تھے ۔ وہ متشدد تھے ۔ انہوں نے انسانوں پر جبر کیا ۔جب کہ سرکارؐ نے یہ فرمایا تھا کہ دین میں نرمی اختیار کرو ۔آپ اندازہ لگائیں کہ خدا ‘ جس کی ذات سب علوم کا سرچشمہ ہے ‘ اس کا تعارف ایک ایسا شخص کرا رہا ہو ‘ جس کے پاس ایک ذرہ بھی علم کا موجود نہیں ۔ میں ایک کالم نگار ہو کر کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ ایک بے عقل بندہ میرے کالم کی تعریف کرے۔ ایک شاعر کبھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ ایک بے ذوق اور گنوارآدمی اس کے شعر کی تعریف کرے ‘بلکہ یہ تو اس کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتا ہے ۔ تو تمام علوم کا سرچشمہ ‘ چودہ صدیاں پہلے بگ بینگ کا ذکر کرنے والی ذات کیا یہ چاہے گی کہ ایسے لوگ اس کا تعارف کرائیں ۔ وہ خدا جو ماں کے پیٹ میں بچّے کی تخلیق کا ایک ایک مرحلہ بیان کرتا ہے ۔ 
اب رہ گئی بات 'ساری نائٹ بے شرمی کی ہائٹ ‘ کی تو ایک مسلمان سب کچھ ہو سکتاہے ‘لیکن بے شرم نہیں ہو سکتا۔ وہ چھپ کر گناہ کر لے گا‘ اعلانیہ طور پر نہیں ۔ مسلمان کبھی ہم جنس پرستی کا قانون نہیں بنا سکتے ۔ہم جنس پرست ہر معاشرے میں موجود ہیں‘ لیکن مغرب کے برعکس مسلمانوں میں کبھی اعلانیہ اور فخریہ طور پر ایک قانون پاس کرنے کے بعد وہ اپنے جھنڈے اٹھا کر سڑکوں پر نہیں نکل سکتے ۔اپنے ''حقوق‘‘ نہیں مانگ سکتے ۔ مسلمانوں کے معاشرے میں یہ لوگ اسی طرح چھپ کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے ‘ جیسے کہ قتل یا ریپ کرنے والے ۔ مسلمان معاشرے میں ایک شخص اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر کسی بچّے کے ساتھ زیادتی کا جرم کر دیتاہے اور دوسری طرف ایک مہذب ملک کی پارلیمنٹ میں دانا و بینا قانون ساز اکھٹے ہو کر یہ قانون بناتے ہیں کہ مرد مرد سے شادی کر سکتاہے ۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے ؛ حالانکہ یہ اس قدر بے عقلی کی بات ہے کہ یہ ہم جنس پرست کبھی اپنی اولاد پیدا نہیں کر سکتے اور اگر کریں گے‘ تو وہ ان کی اپنی اولاد نہیں ہوگی ‘ پھر بھی انسانی عقل پہ زوال کی حد آپ دیکھیں کہ پورے یورپ اور امریکہ میں یہ قوانین منظور ہوئے ۔
بے شرمی میں ‘ محفل میں سرِ عام اختلاط کرنے میں لذت تو یقینا بہت ہے ۔ اسی لیے تو ایسی محفلیںسجائی جاتی ہیں ‘لیکن شرم میں بھی بہت طاقت ہے ۔ایسی بے شمار مثالیں آپ کو برصغیر میں مل جائیں گی ‘ جہاں ایک عورت اپنی عزت بچانے کی خاطر اپنی جان لے لیتی ہے ۔ مسلمان معاشرے میں ایسے بے شمار مرد اور عورتیں موجود ہیں ‘ جنہیں آپ ساری دنیا کی دولت دے کر بھی ان کا لباس نہیں اتروا سکتے۔الغرض مسلمان کبھی بے شرمی کر کے اس پر فخر نہیں کر سکتا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved