تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-11-2018

یو ٹرن تو اچھے ہوتے ہیں!

دو دن قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک ایسی بات کہی ‘جسے سُن کر ہمیں 1975ء میں ریلیز ہونے والی ڈائریکٹر اقبال گل کی فلم ''فرض اور مامتا‘‘ میں عالیہ پر فلمائے جانے والے مشہور گانے کا مکھڑا یاد آگیا۔ رونا لیلیٰ کی آواز میں ریکارڈ کیے جانے والے گانے کا مکھڑا تھا ع
پکارا جب چلے آئے‘ محبت ہو تو ایسی ہو 
جب کبھی ذہن کہیں پھنس سا جاتا ہے ‘تب وزیر اعظم اور اُن کی ٹیم کی طرف سے کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور سُننے کو ملتی ہے‘ جسے سُن کر بُجھی بُجھی سی طبیعت کِھل اُٹھتی ہے‘ فضاء ذرا رنگین ہو جاتی ہے۔ 
ایک زمانے سے عمران خان کو یو ٹرن کے حوالے سے ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ سبھی کو یہ شکایت رہی ہے کہ وہ یو ٹرن لینے کے معاملے میں بہت آگے جاچکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا مشورہ تو یہ ہے کہ جہاں بھی یو ٹرن کا بورڈ لگانا ہو‘ وہاں عمران خان کی تصویر لگادی جائے! 
وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد لازم ہوگیا تھا کہ عمران خان یو ٹرن کے حوالے سے کوئی ایسا یو ٹرن لیں کہ دنیا دیکھتی اور سوچتی رہ جائے۔ اسلام آباد میں اخباری کالم نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے دانش کے درجۂ کمال کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا ''یو ٹرن نہ لینے والا کبھی لیڈر بن ہی نہیں سکتا۔ ہٹلر اور سٹالن نے یو ٹرن نہ لے کر دنیا کو تباہی کی طرف دھکیلا۔ حالات کے مطابق یو ٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر ثابت نہیں ہوتا۔ جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا‘ اُس سے بڑا بے وقوف لیڈر کوئی نہیں۔‘‘ 
لیڈر شپ اور یو ٹرن کے باہمی تعلق و تفاعل کو اس طور بیان کرنے کا حوصلہ اور سلیقہ عمران خان ہی میں پایا جاسکتا تھا اور پایا گیا۔ یو ٹرن کے حوالے سے یہ عہد آفریں نکتہ سُن کر ہم پہلے انگشت بہ دنداں اور پھر سر بہ گریباں ہوکر رہ گئے۔ اپنی محدود اور جیسی تیسی عقل کے ساتھ ہم بس یہی کرسکتے تھے۔ 
مرزا تنقید بیگ ؛البتہ نکتہ سرائی کی یہ نادر مثال دیکھ کر پھڑک اٹھے۔ وہ ایک زمانے سے عمران خان کو یو ٹرن کے حوالے سے ''ناپسندیدہ شخصیت‘‘ قرار دیتے آئے ہیں! مرزا کا استدلال ہے کہ عمران خان نے کرکٹ والی عادتیں سیاست میں بھی ترک نہیں کیں۔ اچھی خاصی باؤلنگ کرتے کرتے کوئی ایک آدھ گیند خاصی کم رفتار سے پھینکنا یعنی بیٹسمین کو دھوکا دینا کرکٹ میں عام ہے۔ سیاست میں عمران خان نے بعض مقامات پر یہی تکنیک آزمائی ہے۔ یو ٹرن لینا بھی عمومی رفتار سے ہٹ کر گیند پھینکنے کے زُمرے ہی میں آئے گا۔ مرزا کہتے ہیں ''یو ٹرن نہ لینے کے نقصان کی توضیح کے لیے ہٹلر اور سٹالن کی مثال دینا کچھ عمران خان ہی کا خاصہ ہے۔ وہ اگر چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ دنیا کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے امریکا نے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کے موقف پر یو ٹرن لیا اور دو جاپانی شہریوں پر جوہری بم گراکر دوسری جنگِ عظیم کی بساط لپیٹ دی۔‘‘ 
مرزا کے ذہن کی پتیلی میں جب کچھ پکتا ہے تو ایک دنیا اُس کی ''خوشبو‘‘ سے حواس باختہ ہوئی جاتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ عمران خان نے یو ٹرن کے حوالے سے اپنے ہر گزشتہ مؤقف پر یو ٹرن لیتے ہوئے‘ جس خوبصورتی سے معاملات کا رخ ہٹلر اور سٹالن کی طرف موڑا ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ فی الواقع عظیم لیڈر بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔ جب یو ٹرن کے حوالے سے یو ٹرن لینے کا بات چل ہی پڑی ہے‘ تو وزیر اعظم کو عالمی سیاست و معیشت کے حوالے سے امریکا اور یورپ کے ہر یو ٹرن کی مثال بھی ضرور دینی چاہیے تھی۔ معاملہ سرد جنگ کا ہو یا ویتنام کا‘ افغانستان کا ہو یا مشرق وسطٰی کا ... امریکا نے ہر معاملے میں ایسے یو ٹرن لیے ہیں کہ عمران خان اگر امریکی یو ٹرنز کی ٹائم لائن پڑھ لیں تو عظیم لیڈر بننے کی نصف تربیت تو بیٹھے بٹھائے مکمل ہوجائے! 
اپنے ''قائد‘‘ کی ''یو ٹرن پسندی‘‘ کی تصدیق و توثیق کرت ہوئے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے ''میں خود بھی یو ٹرن لیتا رہا ہوں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ صورتِ حال کے بدلتے ہی نئے اور مختلف نوعیت کے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔‘‘ 
بات صرف یو ٹرن تک رہتی تو کچھ غم نہ تھا۔ انٹر نیشنل سائیکیاٹرسٹس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر علوی نے قومی اسمبلی کو بھی لپیٹ دیا۔ ان کا کہنا تھا ''قومی اسمبلی میں بھی ایسے کئی افراد ہیں جن کے ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔ ذہنی امراض کے ماہرین کو قومی اسمبلی پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔‘‘ 
صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی میں پائے جانے والے ذہنی مریضوں کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اُس پر ہم کچھ بھی کہنے سے گریز کریں گے کیونکہ ہمیں بھی جان پیاری ہے! اور ویسے ہی یہ سیاست دانوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ ہم کیوں بیچ میں پڑ کر اپنی عزت اور جان داؤ پر لگائیں؟ کل کو یہ سب پھر ایک ہو جائیں گے اور ہم تماشا دیکھتے رہ جائیں گے۔ ذہنی امراض کا دائرہ اِتنا وسیع ہے کہ اب کوئی بھی اس سے باہر نہیں۔ اگر پارلیمنٹ کو ڈسکس کیا جائے گا‘ تو بات ریاست کے چوتھے ستون تک جا پہنچے گی۔ 
ویسے صدرِ مملکت نے یو ٹرن کے معاملے میں اپنے قائد کی تائید کرکے ایک طرف تو حقِ دوستی ادا کیا اور دوسری طرف آئینی طور پر وزیر اعظم کا بیان مستند ہوگیا کہ اُس کی تائید و توثیق کسی اور نے نہیں‘ صدرِ مملکت نے کی ہے۔ یہ تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر عارف علوی ڈینٹسٹ ہیں اور کراچی میں ایک زمانے سے پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ بات ہمارے دائرۂ علم سے باہر تھی کہ یو ٹرن کے حوالے سے بھی ڈاکٹر عارف علوی کی پریکٹس خاصی وقیع و مستند ہے! مگر خیر‘ ہم ''توہینِ صدارت‘‘ کے خوف سے اِس بارے میں کوئی رائے دینے سے گریز کریں گے! 
کل ہم دمِ دیرینہ محبوب بھائی کا فون آیا۔ وہ عام طورپر کالمز کے بارے میں پوچھنے یا کچھ بتانے سے گریز کرتے ہیں ‘مگر اس حوالے سے یو ٹرن لیتے ہوئے انہوں نے پوچھا یو ٹرن پر کوئی کالم تیار ہو رہا ہے یا نہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ اپنی سی کوشش تو ہم بھی کر رہے ہیں۔ محبوب بھائی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو اللہ نے بہت دور تک پہنچنے والا ذہنِ رسا عطا فرمایا ہے ‘جبھی تو وہ یو ٹرن کے فوائد گِننے کے بعد گِنوا بھی رہے ہیں۔ محبوب بھائی کا موقف یہ تھا کہ ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ بے چارے اپنی سادہ لوحی کے ہاتھوں مارے گئے اور ساتھیوں کو بھی ''بے فضول میں‘‘ لے ڈوبے؛اگر وہ میر صادق اور میر جعفر کی بات مان کر یو ٹرن لے لیتے تو جان کی امان پاکر سلطنتِ انگلشیہ کے سایۂ عافیت میں جیتے اور خطے کی تاریخ کا رخ موڑ دیتے! 
محبوب بھائی نے یو ٹرن کے حوالے سے انتہائی مستند رائے دے کر بس یہ سمجھ لیجیے کہ قلم توڑ دیا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یو ٹرن کے موضوع پر اپنی بات کو کیونکر آگے بڑھائیں۔ ایسے میں ہمارے پاس صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ یو ٹرن لیتے ہوئے کالم کو اسی مرحلے میں اُصولی و منطقی نیند سُلادیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved