جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں‘ بھارت میں رام مندر کا دہکتا ہواشعلہ بھڑکنے والا ہے۔ اہل علم شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ بھارت کا غیر مستحکم امن کسی بھی وقت ریاستی انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہو سکتاہے۔ہندوانتہا پسند بھارت کے غیر محفوظ امن کو ہر قیمت پر فرقہ وارانہ فسادات کی نذر کر کے‘ اقلیتوں کا معاملہ ایک ہی بار طے کرنے پر تلے ہیں۔اس کا مطلب انتہا پسند ہندوئوں کو ہمیشہ کے لئے فیصلہ کن مقام تک پہنچا کر ایک ہی بار تنازع طے کر لیا جائے۔کہنے کویہ آسان ہے ‘لیکن صدیوں کا یہ تنازعہ آسانی سے طے نہیں ہو سکتا۔ بھارت کے متعصب ہندو بھی طے کر بیٹھے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ہر قیمت پر اس جھگڑے کو طاقت کے بل بوتے پر حل کر لیا جائے۔ دوسری طرف مسلمان بھی ہمیشہ کے لئے فساد کی جڑ کو ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔وقت بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔کروڑوں بھارتی ہندو خون کے دریا سے گزر کے دیر پا امن کی امیدوں سے ‘ خوش گوار توقعات نہیں رکھتے۔ انتہا پسند ہندوئوں نے اگر ایک طرف فیصلہ کن معرکے میں کود پڑنے کی ٹھان رکھی ہے‘ تو دوسری طرف بھارتی مسلمان معاشرے کو ہمیشہ کے لئے پر امن کرنے کی امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ متعصب ہندوئوںاورمودی کی شخصی قیادت میں اتنا دم نہیں کہ وہ ایک کھولتے ہوئے ماحول کو معتدل صورت حال کی طرف لے جا سکیں۔
بھارت میں عام انتخابات سے قبل رام مندر کے تعمیری کام شروع کرنے کے لئے مرکزی حکومت پر طرح طرح سے مختلف مذہبی ‘ سیاسی تنظیموں اور پارٹیوں نے دبائو ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ یوگ گرو بابا رام دیو نے رام مندر جلد تعمیر کرنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہے کہ تعمیر میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے مودی حکومت آرڈیننس لائے۔ انہوں نے چلتے چلتے یہ بھی دھمکی دے دی ہے کہ اگر رام مندر کی تعمیر جلد نہیں ہوئی تو سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھارتیوں کی تقسیم ہو گی۔ انہوں نے مودی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اگر را م مندر ابھی تعمیر نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہو سکے گا۔ دوسری طرف شیو سینا کے اودھو ٹھاکرے نے تو مودی جی کو چیلنج کر تے ہوئے کہا ہے کہ ہمت ہے تو وہ آرڈیننس لائے؟ جبکہ اترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہئے یا پھر دونوں فریقوں کے اتفاق سے مندر کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے‘جبکہ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک طرف رام مندر تعمیر کے لئے ماحول بنانے کا کام شروع کر دیا ہے‘ تودوسری طرف یہ بھی کہہ ڈالا کہ عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ انہوں نے اجودھیا میں رام چندر جی کا سب سے اونچا مجسمہ لگانے کے لئے بھی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے فیض آباد ضلع کا نام بدل کر اجودھیا کر دیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ قانون کے دائرہ میں رہ کر کام کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ان کی بڑے پیمانے پر بدنامی ہو گی اور کہا جائے گا کہ حکومت قانون پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔
اگلے ماہ اجودھیا میںوشو ہند پریشد اور سادھو سنتوں کی کانفرنس شروع ہونے والی ہے۔ اس میں رام مندر کی تعمیر کے لئے حکومت پر زوردیا جائے گا۔ اتر پردیش کی ایک وزیر لکشمی نارائن چودھری نے یہاں تک کہہ دیا کہ 2019ء کے انتخابات سے قبل اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد یقینی طور پر رکھا جائے گااور وزیراعلیٰ یوگی اس کا م کو انجام دیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدلیہ اور قانون سازوںکولوگوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ دوسری طرف بی جے پی پارٹی قیادت نے ‘اپنے ممبران پارلیمنٹ کو کہا ہے کہ وہ11دسمبر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران‘ ایوان میں اپنی حاضری یقینی بنائیں۔ اس سے یہ
اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مودی حکومت اور اجودھیا میں مندر تعمیر کے لئے پرائیویٹ ممبر بل یا سرکاری بل لا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے پارٹی قیادت نے ممبران کو یہ ہدایت نامہ جاری کیا ہے۔ اجودھیا کا معاملہ اس وقت سپریم کورٹ کے زیر سماعت ہے اور اس کی اگلی سماعت جنوری میں ہونے والی ہے۔ ایسے میں پرائیویٹ ممبر بل یا سرکاری بل لانا ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس کو کوئی نہ کوئی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دے گا اور یہ معاملہ پھر التوا میں چلا جائے گا۔ مودی سرکاریہ چاہتی ہے کہ کسی طرح انتخابات سے قبل‘ بھارتیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جائے کہ این ڈی اے حکومت‘ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے معاملے میں سنجیدہ ہے اور اسی لئے پارلیمنٹ میں بل لایا جا رہا ہے‘ تاکہ اس کا فائدہ لوک سبھا میں ووٹوں کی صف بندی کے ذریعہ حاصل کیا جا سکے۔
اس معاملے کو ہوادے کر2019ء کے انتخاب میں کامیابی کے لئے بی جے پی ایک حکمت عملی کے طو رپر پیش کرنا چاہتی ہے ‘کیونکہ مودی حکومت 2014ء میں عوام سے وعدوں کے بل بوتے پر ہی اقتدار تک پہنچی تھی۔ان میں سے بیشتر وعدے ابھی تک پورے نہیں کئے گئے۔ ووٹر بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے سیاست دانوں سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ان سے کئے گئے وعدوں کا کیا بنا؟اب تک ان پر ساڑھے چار برسوں میں عمل کیوں نہ کیا گیا؟ ایسے میں بی جے پی کے پاس کوئی جواب نہیں‘ اس لئے ترقیاتی کاموں یا اچھے دن کا معاملہ ہو یا کالے دھن کو واپس لا کر ملک کے لوگوں کے اکائونٹ میں15,15لاکھ روپے دینے کا معاملہ‘ اس پر کوئی بات نہیں ہو گی اور معاملہ اجودھیا کی طرف موڑ دیا گیا ہے‘ تاکہ ایک بار پھر لوگوں سے رام مندر کے نام پر ووٹ حاصل کیا جا سکے ‘لیکن اس حکمت عملی کا شاید ہی ووٹروں پر کوئی اثر پڑے ‘کیونکہ ووٹر اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ صرف جذباتی نعرے یا فرقہ پرستی کو ہوا دے کر‘ ووٹوںکی صف بندی سے پیٹ بھرنے والا نہیں اور نہ ہی عوام میں خوش حالی آنے والی ہے۔ اس لئے وقت بتائے گا کہ رام مندر کا معاملہ انتخابات جیتنے میں کتنا کارگر ثابت ہو گا؟