تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-11-2018

میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں…(2)

خیرات کی طرح احتساب بھی گھر سے شروع ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے آدمی کو اپنے گریبان میں جھا نکنا چاہئے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ارشاد کیا تھا: پہلا پتھر وہ مارے‘ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
''ڈونلڈ ٹرمپ بھی میری طرح ہے‘‘۔ اخبار نویسوں کے ساتھ ایک ملاقات میں عمران خاں نے کہا تھا ''ہماری ملاقات ہو تو نجانے کیا ہو‘‘۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔فارسی کی کہاوت یہ ہے دیوانہ بکار خویش ہوشیار ہوتا ہے۔
وزیراعظم کے جملے سے یہ ضرور آشکار ہوا کہ کسی نہ کسی درجے میں وہ خود کو سرپھرا سمجھتے ہیں۔ حکمران یارعایا ‘ عالم یا عامی‘ جرائم پیشہ یا اولیائ‘ کمزور پہلو ہر شخصیت کے ہوتے ہیں۔صداقت کی تمنا ہو تو ان کمزوریوں کا تدارک مشاورت سے ممکن ہے۔د وسروں کا ذکر ہی کیا‘ سرور کائناتؐ اپنے اصحابؓ سے مشورہ کیا کرتے۔ جنگِ احزاب سے پہلے جو خندق کھودی گئی‘ اِسی طرح کھدی۔ ایران نژاد جناب سلمان فارسیؓ نے یہ سجھایاتھا۔بڑے جنرلوں میں جناب ِفارسی کا شمار نہیں لیکن تجسس میں ان کا ثانی روئے ارض پہ نہ تھا۔
فاروق اعظمؓ کے بارے میں معلوم ہے کہ طویل اور باقاعدہ مشاورت کے عادی تھے۔ تقریباً ہر روز کہیں سے ایک وفد مدعو ہوتا۔مگر ایسے پیچیدہ مسائل بھی ہوتے کہ یکسوئی برپا نہ ہو پاتی۔ قبائلی سردار‘ عظیم سپہ سالار اور اہل علم بھی جب متفق نہ ہوتے۔تب وہ مدعو کیے جاتے‘ پیغمبرانِ عظام کے بعد‘ جو تاریخ کی لوح پر سب سے زیادہ جگمگائے ہیں۔دائم جگمگاتے رہیں گے...اصحابِ بدر!
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ ان کا عہد اس قدر تابناک کیوں نہیں؟ فرمایا: اُن کے مشیر ہم تھے‘ ہمارے مشیر تم ہو۔ کشمکش کے مہ و سال میں ‘ ایک بار اہل کوفہ سے آپ نے کہا تھا: گرما میں جنگ کے لئے کہتا ہوں تو تم جواب دیتے ہو کہ گرمی ہے۔ سرما میںبلاتا ہوں تو کہتے ہو سردی ہے۔ اس کے برعکس‘ اصحابِ رسولؐ میں سے ایک نے‘ غالباً گروہِ انصارکی نمائندگی کرتے ہوئے جو کچھ کہا تھا؛ اس کا خلاصہ یہ ہے: ہم گزری امتوں کی مانند نہیں‘ ہم آپ پہ جانیں نچھاور کردیں گے۔
جان نچھاور کرنا تو دور کی بات ہے‘ الاماشاء اللہ ہماری سیاسی اشرافیہ ادنیٰ سا مفاد چھوڑنے والی بھی نہیں۔ پچھلے ہفتے پنجاب میں پی ٹی آئی کے درجن بھر ممبروں نے اپنے لیڈر سے غداری کی۔ ان میں سے اکثر خواتین تھیں۔ اب جہاں تک عام الیکشن کا تعلق ہے‘ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ امیدواروں میں سے مقبول کون ہے۔ خواتین میں سے اخذ کرتے ہوئے فقط دو نکات ملحوظ رکھنا ہوتے ہیں۔ ایک سیاسی سوجھ بوجھ ‘ ثانیاً وفاداری۔
عام انتخابات سے قبل پختونخوا سے سینیٹ کے الیکشن میں بیس ارکان بِک گئے۔ ان میں بھی خواتین نمایاں تھیں۔ ان سب کو پارٹی سے نکالنا پڑا ۔ اس کے باوجود پنجاب میں ایسا کیوں نہ ہوا۔ آزاد اور حلیف ارکان ساتھ چھوڑ جائیں تو ایک بات ہے‘ اتنی آسانی سے خواتین کیسے بکیں؟
کوئی مشتری ہو تو آواز دے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
کم از کم تین دن پہلے عثمان بزدار‘ چوہدری سرور‘چوہدری پرویزالٰہی اور علیم خان کو معلوم تھا کہ کون کون سے ارکان مشکوک ہیں۔جہانگیر ترین چوہدری پرویزالٰہی سے جا کر ملے‘ نون لیگ میں جنہوں نے نقب لگا رکھی ہے۔ نتیجہ مگر کیا ہوا۔ چوہدریوں کی شہرۂ آفاق مہارت دھری کی دھری رہ گئی ۔ اس سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں‘ عثمان بزدار کے پڑوس‘ تونسہ کے ایک رکن پر‘ علیم خان سے استدعا کی گئی۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ خواتین ارکان کو وہ ترقیاتی فنڈز فراہم کرنے کا یقین دلائیں۔ انہوں نے ایسا کیا مگر یہ بھی کہا: یہ کام وزیراعلیٰ کو کرناچاہئے۔ فیصلے انہیں صادر کرنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی بات کا زیادہ اثر ہوگا۔ چودھری سرور اور چوہدری پرویزالٰہی سے بھی مدد مانگی گئی مگر...
عثمان بزدار وہ ہیں‘ بڑے ہو کر جنہیں وسیم اکرم بننا ہے۔ 
ترقیاتی فنڈز کیاکروڑوں کی نقدی کا بدل ہو سکتے ہیں؟ نوا زشریف کا عہد تو یہ ہے نہیں کہ اپنی مرضی کا ٹھیکیدار رکنِ اسمبلی چنے اور 24 فیصد نقد بٹور لے۔ ایسا آدمی پانچ سات کروڑ کی مزاحمت کیسے کر سکتا ہے‘ رزقِ حلال کا جو خوگر نہیں۔ انگریزی کے لافانی ادیب آسکروائلڈ نے کہا تھا: I can resist anything except temptation ۔غالب آنے والی ترغیب کے سوا‘ ہر چیز کی مزاحمت میں کر سکتا ہوں۔
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف اور نون لیگ کی لامتناہی جنگ میں پی ٹی آئی کے دلاور نون لیگ کے پٹواریوں کو پیہم یاددہانی کراتے رہتے ہیں کہ ان کا لیڈر ایک ایماندار آدمی ہے۔بے شک وہ ایماندار ہے‘ اس لئے وہ بیچاری علیمہ خاں پہ حملہ آور ہوتے ہیں۔
بیرون ملک جس نے روپیہ کمایا اور دبئی میں رکھ چھوڑا۔ ہزاروں نے ایسا کیا لیکن وہ ماری گئیں کہ عمران خاں کی بہن ہیں۔ اپنے حریفوں کے لئے ترازو گاڑنے والے کے لئے خلقِ خدا بہت سخت معیار بنایا کرتی ہے۔ علیمہ خاں سے جو غلطی ہوئی‘اس کی قیمت بھائی کو چکانا پڑی۔
شوکت خانم کے چند کروڑ سے بیرون ملک ضرور سرمایہ کاری ہوئی ۔ خسارہ ہوا تو یہ فیصلے کی غلطی ہے‘ نیت کی خرابی نہیں۔ عمران خاں کو روپیہ بنانا ہوتا تو اپنی حیثیت استعمال کر کے‘ اتفاق سٹی ایسا کوئی ہسپتال ہی بنا لیتا‘ جو اس کی آبائی زمینوں سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ جاتی عمرہ سے ادھر یہ تین ہزار کینال نہ سہی مگر اس کے حصے میں سینکڑوں کینال ضرور آتی ہے۔ شریفوں کی طرح‘ وہ بھی سڑک بناتا‘ سوئی گیس لے جاتا۔
میرے پر جوش بھائی خاور گھمن کپتان کی دیانت کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ تنگ آ کر میںکہتا ہوں کہ آگے پیچھے‘ دائیں بائیں '' تھنک ٹینک‘‘ کی دیواروں پہ اس کی دیانت لکھ دو۔پھر سوچتا ہوں 
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں 
محمد علی جناح نے‘ لیڈروں کے اس لیڈر نے کہا تھا: آدھی جنگ موزوں لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔ جی ہاں آدھی جنگ۔ یہ ایک اختلافی امر ہے کہ عمران خاں ایک موزوں لیڈر ہے یا نہیں۔ آنے والے وقت کو ابھی فیصلہ صادر کرنا ہے۔ اس میں تو مگر کوئی کلام نہیں کہ پی ٹی آئی میں بھی ویسا ہی کچرا بھرا ہے‘ جیسا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں۔
جسٹس وجیہہ الدین نے پوری طرح واضح کر دیا تھا کہ 2012ء میں پارٹی کے الیکشن میں‘ جو ایک احمقانہ فیصلہ تھا‘ بڑے پیمانے پر ووٹ خریدے گئے۔ یہ بھی آشکار ہے کہ پارٹی فنڈز میں خردبرد کی گئی۔ یہ بات تو خود عمران خاں بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پارٹی کے ٹکٹ بیچے گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان میں سے کسی ایک شخص کو بھی سزا نہ دی گئی۔ اس کے بعد کون سی ایمانداری اور کیسی ایمانداری؟ مزید یہ کہ ان جرائم سے مفاہمت کے بعد‘ کس منہ سے عمران خاں حریفوں کے احتساب کی بات کرتے ہیں۔کپتان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے عدنان عادل سمیت‘ غیر جانبدار اخبار نویسوں کی اکثریت کہتی ہے کہ شب و روز احتساب کا رزمیہ عمران خاں ایک وجہ سے گاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا لہو گرمانے کے لئے۔ اپنے ووٹروں کو نفسیاتی طور پہ آسودہ رکھنے کے لئے۔
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
ختم المرسلینﷺ کی بارگاہ میں ہم حاضر ہوتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب کے اوراق میں ہم ڈھونڈتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہؓ بھی اگر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائیگا۔ اللہ کی کتاب میں یہ لکھا ہے: ولکم فی القصاص حیاۃ یا أولی الالباب۔ معاشرے کی بقا کا انحصار قصاص پہ ہوتا ہے۔
انتقام نہیں قصاص۔ جتنا جرم اتنی سزا۔ عدل یہ ہے کہ صرف ہونا ہی نہیں چاہئے‘ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔آئین کی رو سے اس باب میں اولین اصول یہ ہو گاکہ احتساب اگر ہوگا تو '' نیب‘‘ کرے گی‘ عدالت کرے گی۔ وزیراعظم کو یہ کہنے کا کوئی حق نہیں: میں کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔ جہانگیر ترین کو انہوں نے چھوڑ دیا۔
خیرات کی طرح احتساب بھی گھر سے شروع ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے آدمی کو اپنے گریبان میں جھا نکنا چاہئے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ارشاد کیا تھا: پہلا پتھر وہ مارے‘ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved