ہمارے مرکزی دھارے کے میڈیا میں قومی اور بین الاقوامی ایشوز اور بڑے شہروں کے مسائل و واقعات کو نمایاں کرنے کی روایت خاصی مضبوط ہے لیکن ملک کے دور افتادہ علاقوں کے باسیوں کی سماجی زندگی، تہذیب و ثقافت اور سرکردہ شخصیات کی علمی و سیاسی خدمات کو کوئی خاص اہمیت نہیں ملتی؛ چنانچہ انہی نظر انداز کردہ منطقوں کی کئی عظیم ہستیاں اپنی علمی و سیاسی متاعِ حیات سمیت خاموشی کے ساتھ تہہ خاک سو جاتی ہیں۔
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی، جو پنہاں ہو گئیں
خیبر پختون خوا کے انتہائی جنوب میں بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع ڈیرہ اسماعیل خان اپنی عمیق محرومیوں کے باوجود نہایت مردم خیز خطہ ثابت ہوا، جس کی گداز مٹی نے بڑے بڑے سرمایہ کاروں، قومی سطح کے سیاستدانوں، علماء کرام، شعرا، ادیبوں اور فنکاروں کو جنم دیا لیکن مملکت کے سیاسی مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے ہمارے مشاہیر کو تاریخ کے قومی دھارے میں شایانِ شان مقام نہ مل سکا۔ شاید اسی لئے نئی نسلیں انہیں فراموش کر بیٹھی ہیں۔ آپ کو یہ جان کے حیرت ہو گی کہ اس سرزمین نے سردار گل خان گنڈہ پور جیسے عظیم دانشور کو جنم دیا‘ جس نے علامہ اقبالؒ سے پہلے الگ مسلم مملکت کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبالؒ نے 1930 میں خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کیلئے الگ راہ عمل کا خیال پیش کیا لیکن سردار گل خان نے 3 مئی 1922 کو ٹائون ہال ڈیرہ اسماعیل خان میں انڈیا کی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے ممبران اور انگریز آفیسرز پر مشتمل ''Brray Commission‘‘ کو بیان دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا تھا ''ہندو مسلم اتحاد حقیقت تھا نہ ہی کبھی حقیقت کا روپ دھار سکے گا، میرے خیال میں مملکت کے شمال مغربی صوبوں میں مسلم ریاست ہونی چاہیے تاکہ وہ اسلام اور برٹش کامن ویلتھ کے درمیان رابطہ کا وسیلہ بن سکے، درحقیقت جب مجھ سے پوچھا گیا، اس معاملہ میں میری رائے کیا ہے تو انجمن کے ممبر کی حیثیت سے میں یہی کہوں گاکہ ہمیں ہندو مسلم یونٹی کی بجائے ہندوئوں اور مسلمانوں کی الگ ریاستوں کے قیام پہ توجہ دینی چاہیے، 23 کروڑ ہندوئوں کو راس کماری سے آگرہ تک کا جنوبی علاقہ اور آٹھ کروڑ مسلمانوں کو آگرہ سے پشاور تک کے شمال مغربی خطے میں الگ ہونا چاہیے، یہ ایک دوسرے کو تہس نہس کرنے کا خیال نہیں بلکہ پرامن طور پہ دو طرفہ انتقالِ آبادی کا تصور ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا ''اسلام میں ریاست کو مذہب سے الگ نہیں دیکھا جاتا‘‘ ۔سردار گل خان کے اس بیان کے آٹھ سال، سات ماہ اور سات دن بعد علامہ اقبالؒ نے خطبہ الہ آباد میں فرمایا تھا ''میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے نا امید نہیں ہوں لیکن ان احساسات کو تم سے چھپا بھی نہیں سکتا کہ مستقبل قریب میں اس بحران سے نمٹنے کیلئے ہماری کمیونٹی جداگانہ راہ عمل اپنا سکتی ہے‘‘۔ سردار گل خان کا دستاویزی بیان سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے‘ مگر اس کے باوجود تحریک پاکستان کے نامور مؤرخین‘ بشمول کے کے عزیز اور شریف الدین پیرزادہ‘ نے اپنی کتابوں میں ماسوائے جلدی میں دیئے گئے ریفرنس کے سردار گل خان کو اس تصور کا خالق ہونے کا کریڈٹ دینے سے گریز کیا۔
خان بہادر مولوی احمد دین قریشی‘ جنہیں انڈین پولیٹیکل سروس جوائن کرنے کے بعد انیس سو تیس میں جنوبی وزیرستان ایجنسی کا پہلا مسلمان پولیٹیکل ایجنٹ بننے کا اعزاز ملا، اسی شہر کا فرزند تھا۔ انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں سے قبائلی ایریا میں انگریز آفیسرز کے معیارات کو قائم رکھا۔ ملک خدا بخش ایڈووکیٹ کوہاٹ سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک پورے جنوبی خیبر پختون خوا پہ محیط انتخابی حلقہ سے منتخب ہو کے 1937 سے 1939 تک این ڈبلیو ایف پی اسمبلی میں سپیکر جیسے اہم عہدے پہ فائز رہے لیکن ہم ان کی عظمت کے گُن نہیں گا سکے۔ بعد ازاں نواب آف ڈیرہ اللہ نواز خان چھ سال تک این ڈبلیو ایف پی اسمبلی کے سپیکر اور گومل یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر رہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اسی سرزمین کے باسی سیٹھ داس رام بگئی، سیٹھ بھاٹیہ اور جے سالوٹا کا شمار ہندوستان کے پہلے دس بڑے سرمایہ داروں میں کیا جاتا تھا۔ مسٹر بگئی اپنے عہد کے اے کلاس گورنمنٹ کنٹریکٹر اور ٹرانسپورٹر تھے، خیبر پختون خوا کی جی ٹی ایس (گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) کے تقریباً تمام بس سٹینڈ سیٹھ بگئی کی چھوڑی ہوئی املاک ہیں، داس رام بگئی نے 1938 میں سنٹرل جیل سے متصل اعلیٰ معیار کا ٹی بی ہسپتال بنوایا، ہسپتال کاافتتاح گورنر جارج کنگم سے کرایا گیا۔ محکمہ صحت نے آج کل ٹی بی ہسپتال کی اسی عمارت میں گومل میڈیکل کالج کا گرلز ہاسٹل بنا رکھا ہے۔ زندہ دل لاہوریوں نے گنگا رام کو یاد رکھا‘ مگر ڈیرہ والوں نے مسٹر بگئی کو بھلا دیا۔ انہی تاجروں کی بدولت ڈیرہ اسماعیل خان کلکتہ سے زیادہ اہم تجارتی مرکز تھا‘ جہاں انگریز گورنمنٹ نے ٹیکس فری زون قائم کیا، جسے ہم تجارت گنج کے نام سے جانتے ہیں۔
اس زمانے میں ہندوستان بھر کے تاجر ڈیرہ اسماعیل خان کے اُس تاریخی درہ گومل کے راستے مشرقی یورپ اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کرتے تھے، جہاں سے گزر کے 1025 میں سلطان محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پہ آخری حملہ کیا تھا۔ اس وقت غزنوی فوج نے دریا سندھ عبور کرنے کی خاطر لعل ماہڑہ گائوں کے قرب و جوار میں ڈیڑھ ماہ تک دریا کا پانی اترنے کا انتظار کیا تھا۔ 'تسلسل‘ اور 'آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے‘ جیسے شعری مجموعوں کے خالق غلام محمد قاصر مرحوم جیسے ترقی پسند شاعر اور سرائیکی زبان کے عظیم شاعر نصیر سرمد مرحوم کو بھی اسی دھرتی نے جنم دیا۔ انیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں یہاں مولوی سرسی جیسے شعلہ بیان مقرر کا طوطی بولتا تھا‘ جسے اب ڈیرہ اسماعیل خان میں کوئی نہیں جانتا۔ مولوی سرسی کا مزار موسی کھر گائوں میں موجود ہے۔ ان سب سے بڑھ کے برصغیر پاک و ہند کے معروف عالم دین اور قومی سطح کے سیاستدان مولانا مفتی محمود جیسے فاضل انسان کو بھی اسی مٹی نے پروان چڑھایا۔ انہوں نے ملک کی سیاسی تاریخ پہ ان مٹ نشان چھوڑے۔ مولانا اکبری نے اپنی کتاب ''مفتی محمود‘‘ میں لکھا ہے کہ مفتی محمود جنوری 1919 کو پنیالہ کی خانقاہ یٰسین زئی کے سجادہ نشین سید گل کے خلیفہ مجاز محمد صدیق کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مڈل سکول پنیالہ سے حاصل کی۔ 1933 میں مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہیں جامعہ حلمیہ درہ پیزہ میں داخل کرایا گیا، جہاں سے انہیں ہندوستان کے مدرسہ شاہی مراد آباد پہنچنے کا موقعہ ملا۔ وہیں انہوں نے درس نظامی مکمل کیا۔ حصول تعلیم کے بعد میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے دینی مدرسہ میں پندرہ روپے ماہوار پہ ملازمت حاصل کر کے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1950 میں انہیں ملتان کے مدرسہ قاسم العلوم میں ملازمت ملی، بعد میں اسی قاسم العلوم کے وہ مہتمم بھی بنے۔ 1953 کی تحریک ختم نبوت میں پہلی بار جیل گئے۔ مفتی محمود 1962 میں نواب فتح اللہ خان علیزئی کو شکست دے کر پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اسی دور میں انہوں نے عائلی قوانین کے خلاف تحریک کی قیادت کر کے شہرت پائی۔ دوسری بار 1964 میں وہ فضل کریم قصوریہ سے الیکشن ہار گئے۔ 1970 کے الیکشن میں انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان سے ذوالفقار علی بھٹو کو شکست کا مزہ چکھایا۔ 1977 میں انہوں نے مسٹر بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی نظام مصطفیٰﷺ تحریک کی قیادت کر کے تاریخی کردار ادا کیا۔ مفتی صاحب نے 14 اکتوبر 1980 کو وفات پائی۔
ڈیرہ اسماعیل خان اپنی عمیق محرومیوں کے باوجود نہایت مردم خیز خطہ ثابت ہوا، جس کی گداز مٹی نے بڑے بڑے سرمایہ کاروں، قومی سطح کے سیاستدانوں، علماء کرام، شعرا، ادیبوں اور فنکاروں کو جنم دیا لیکن مملکت کے سیاسی مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے ہمارے مشاہیر کو تاریخ کے قومی دھارے میں شایانِ شان مقام نہ مل سکا۔