اکیسویں صدی کے سقراط کا نیا ارشاد یہ ہے کہ جس دن ہمارے لکھنے والے اپنی تحریروں کو مذہبی حوالوں سے سجانے کی بجائے دلیل اور منطق کی روشنی میں لکھنا شروع کر دیں گے‘ تو وہ سیکھنے کا پہلا زینہ چڑھ جائیں گے۔کاش! انہوں نے قرآن اور حدیث کو کھول کر کبھی اپنی آنکھوں سے پڑھا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ خدا اور اس کا رسولؐ کہتے کیا ہیں۔ قرآن کہتاہے کہ جو ہلاک ہوا‘ وہ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو زندہ رہا ‘ وہ دلیل پہ زندہ رہا ۔قرآن کہتاہے کہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ ہیں جو عقل نہیں رکھتے ۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے ‘ جب انسان کائنات کے بارے میں بہت کم جانتا تھا‘ وہ کیسے لمحات ہوں گے ‘ جب خدا نے اپنے پیغمبرؐ پہ یہ آیت نازل کی: کیا میرا انکار کرنے والے دیکھتے نہیں کہ زمین اور آسمان تو ملے ہوئے تھے‘ پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے مغرب کے کسی فلاسفر نے زمین اور آسمان کو پھاڑ کر الگ کر دینے کی بات کی ہوتی تو یہ باقی زندگی اس کے چرنوں میں گزار دیتے‘ لیکن ان بیچاروں کا بھی قصور نہیں ہے ۔قرآن اور حدیث کو اپنی آنکھ سے یہ پڑھ نہیں سکے اور جس لٹھ بردار ملّا نے مذہب کو اپنی مٹھی میں لیا ہوا ہے ‘ وہ ایسا جاہل اور متشدد ہے کہ اقبالؔ ساری زندگی اس کی مذمت کرتا رہا ۔اس کا کام ہمیشہ لاشیں گرانا ‘ جبر اور علم دشمنی رہا ۔ یہ تو اپنی جگہ ایک حقیقت ‘لیکن کیا ملّائیت کے ردعمل میں ہم خدا اور اس کے رسولؐ کے اقوال پڑھنا چھوڑ دیں؟ اتنا برا وقت کبھی نہیں آئے گا۔
پیغمبرؐ یتیم پیدا ہوئے‘انہیں ماں باپ کا سایہ نصیب نہیں ہوا‘ جوسکول نہ جا سکے ‘ جنہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا‘ وہ دنیا کے سب سے بڑے معلم بنے۔انہیں مکہ سے غاروں میں چھپتے ہوئے مدینہ جانا پڑا‘ پھر بدر میں وہؐ کس رنگ میں ہمیں نظر آتے ہیں ۔ چند ہی سال بعد وہ ؐ کس شان سے مکہ داخل ہوئے ۔ اتنے بڑے استاد کہ بکریاں چرانے والے ان کے studentsنے اس دور کی عالمی طاقتوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا ۔ دورِ حاضر کے سقراط کے مطابق ان کے ا قوال دہرانا تو کم عقلی ہے ۔جس ہستیؐ نے ایک کمزور سے لشکر سے مکہ والوں کو شکستِ فاش سے دوچار کر دیا ‘ اس کا قول دہرانا کم عقلی ہے ‘ جبکہ افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر ضائع کر کے ڈائپر باندھ کر جنگ لڑنے والے امریکیوں کے اقوال دہرانا عقل کی نشانی ہے ۔
سقراط فرماتا ہے کہ ان کے اقوال نہ دہرائو ۔ مغرب کے سامنے ہولناک احساسِ کمتری کا شکار یہ لوگ ہمیں بتائیں گے کہ عقل والی بات کس کی ہے اور کم عقل کون ہے ۔وہ خدا جو یہ کہتاہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میںعقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ‘ جو یہ کہتاہے کہ انسان پر زمانے میں ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا ‘ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا ۔ جو کہتاہے کہ پانی سے ہم نے ہر زندہ شے کو پیدا کیا۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جو ماں کے پیٹ میں بچّے کی تخلیق کا ایک ایک stepبتاتا ہے ۔ جو یہ کہتا ہے کہ میرے (وہ پسندیدہ ) لوگ زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کرتے رہتے ہیں ۔
ہمارا یہ سقراط کہتا ہے کہ مذہب تو یہ کہتاہے کہ چھ دن میں دنیا تخلیق ہوئی ۔ سقراط کا اعتراض یہ ہے کہ مذہب بگ بینگ کو نہیں مانتا۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ خدا تو زمین اور آسمان کو پھاڑ کر الگ کر دینے کی بات کرتاہے ۔ چھ دن کی داستان تو اس دھماکے کے بعد کی بات ہے ۔ جب پوری تصویر دیکھنی ہی نہیں تو پھر کیا پلّے پڑھنا ہے‘ آپ کے ۔ دنیا میں ایک علم کا ماہر بننے کے لیے قاعدے سے لے کر پی ایچ ڈی تک کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ادھر قرآن اور حدیث کو ایک دفعہ بغور پڑھنا بھی گوارا نہیں‘ جو آیت ہاتھ آئی ‘ اسی پہ سیر حاصل گفتگو کر کے مذہب کو کمتر قرار دے کر بھنگڑے ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں ۔
کوئی انہیں بتائے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہاکہ خدا کو ماننے والے شرمندہ شرمندہ پھریں ۔ یہ تو فخر کرنے کا وقت ہے کائنات کے خالق پہ اور اس کے بھیجے ہوئے کائنات کے عظیم ترین استاد ؐ پہ ۔ جس نے کسی سکول سے پڑھے بغیردنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ دیا۔آج بھی دنیا کے سات ارب افراد میں سے ڈیڑھ ارب جس کا کلمہ پڑھتے ہیں‘ اس پہ درود بھیجتے ہیں ۔ بغیر اسے دیکھے ‘ بغیر اسے ملے ہوئے ۔
خدا نے قرآن کی صورت میں سائنس کی کتاب نہیں لکھی ۔ قرآن زیادہ تر احکامات پر مشتمل ہے کہ نماز پڑھو‘ بے حیائی سے بچو ‘ بیویوں کے حقوق ادا کرو ‘ مشرکوں اور اہلِ کتاب کے ساتھ ایسے ڈیل کرو‘ لیکن جہاں کہیں خدا کاسمالوجی سمیت کسی بھی سائنس پر بات کرے گا‘ وہاں پتا چلتاہے کہ کائنات تخلیق کرنے والی ذات گفتگو کر رہی ہے ۔ بے شک وہ بگ بینگ کی بات ہو یا اس بات کی کہ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھ سے بنایا ''و انا لموسعون‘‘ اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں ۔ اس لیے کہ خدا نے کائنات بنائی۔ کرہ ٔ ارض بنایا اور اسے جانداروں کی رہائش کے قابل بنایا ۔ وہ بار بار کہتاہے کہ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔
جن کی گھٹی میں گوری چمڑی سے مرعوبیت اور اپنی کالی چمڑی سے نفرت پڑی ہو‘ انہیں یہ باتیں کہاں سمجھ آئیں گی کہ خدا ہی تو سب سے زیادہ جدید ہے ۔ وہی تو سب علوم کا سرچشمہ ہے اور اس کا پیغمبرؐ ‘ جس کے ہاتھ سے سب کچھ تقسیم ہوتاہے ۔ خدا تو یہ کہتاہے کہ انسان میرے علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا‘ ہاں البتہ جتنا میں چاہوں اتنا کسی کو دے دیتا ہوں ۔ وہ خدا جو ہمیں بتاتا ہے کہ اختتام پر سورج اور چاند اکھٹے ہو جائیں گے ۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ جائیں گے ۔سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ زمین پگھل جائے گی اور اپنے اندر کے بوجھ نکال پھینکے گی ۔ ستارے جھڑ جائیں گے‘جو کہتاہے کہ تم ہڈیوں کی بات کرتے ہوئے‘ ہم تو تمہاری انگلیوں کے نشان دوبارہ تخلیق کریں گے ‘ پور پور درست کر دیں گے ۔
کاش ان سقراطوں کو معلوم ہوتا کہ جب وہ پینترے بدل بدل کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہے ہوتے ہیں‘ تو اس وقت وہ خدا کے تخلیق کردہ نفس کی ایک معمولی سی جبلت کے تحت متحرک ہوتے ہیں ۔ وہ نفس ‘ جسے خدا نے اپنا سب سے بڑا دشمن کہا۔ کاش! انہیں معلوم ہوتا کہ شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ جیسے استاد اس نفس کی چالاکیوں پہ کس قدر سیر حاصل روشنی ڈال چکا ہے ۔ شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ نے یہ تاریخی statementدی تھی : ہر علم میں سے کم از کم اتنا حاصل کرو کہ خدا کو پہچان سکو۔
لیکن وہ کیسے پڑھتے بے چارے؛ اگر یورپ میں بیٹھ کر بھی اُردو یا عربی پڑھیں گے تو ناک نہ کٹ جائے گی‘ اپنی برادری میں ۔ عقل تو انگریزی میں ہے‘ اپنے تئیں تو اسرائیل سے ''برادرانہ‘‘ تعلقات قائم کرنے کے یہ خواہشمند انگریز بن ہی بیٹھے ہیں ۔ سب سے زیادہ ہنسی کی بات یہ ہے کہ جو اصل انگریز ہیں ‘ وہ انہیں ایک ٹکے کا بھی نہیں سمجھتے ۔ ادھر جن لوگوں نے واقعی اپنی آنکھ کھول قرآن اور حدیث کو پڑھ رکھاہے ۔ جو احساسِ کمتری کے مارے ہوئے نہیں ‘ وہ انہیں آدھے ٹکے کا بھی نہیں سمجھتے ۔ عوام الناس کی نظر میں یہ ویسے ہی قابلِ چھترول ہیں ۔ ہمیشہ یہ خوف زدہ چوہوں کی طرح اپنے بلوں میں دبکے ایک دوسرے پر انگریزی اصطلاحات کا رعب جھاڑتے رہتے ہیں ۔سقراط آج کل ایک بقراط کے اقوال دہرا رہا ہے ۔ کسی دن اس پہ بھی! ۔