بعض اوقات ایک فرد کی محبت اور عقیدت ‘بڑے بڑے ملکوں کی باہمی کشیدگی پر حاوی آجاتی ہے۔1947ء کے خونریز فسادات جن کا کوئی جواز نہیں تھا‘ باہمی قتل و غارت گری کا سبب بن گیا اور ہندوئوں ‘ مسلمانوںاور سکھوں کے درمیان ایسی خون ریزی ہوئی کہ برصغیر کے کسی دوسرے حصے میں اس کی مثال نہیں ملتی۔یہ بڑی درد ناک کہانی ہے۔ پنجاب کی تقسیم کے سوال پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی دشمنی نہیں تھی۔تقسیم سے تھوڑا عرصہ پہلے تک سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان ‘پنجاب کو متحد رکھنے کے مذاکرات چل رہے تھے لیکن عیار ہندو قیادت نے چند بھارتی سرداروں جن میں ایک سرکردہ سکھ لیڈر ‘نجانے کس وجہ سے اچانک ہندوئوں کے فریب میں آگئے اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے خلاف توقع ‘ایسا رنگ بدلا کہ مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان اچانک نفرت کے شعلے بھڑکا دئیے اور ایسے بھڑکائے کہ مذکورہ سکھ لیڈر نے اپنی کمر سے کرپان نکالی اور لہراتے ہوئے اعلان کر دیا کہ مسلمان اور سکھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور مدتوں سے بھائی چارے کی فضا میں زندگیاں گزارنے والے مسلمان اور سکھ‘ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور پھر ایسا خون بہا کہ ایسی مثال میری یاداشت تک‘ برصغیر کی تاریخ میں نہیں تھی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کے درمیان خون کی ہولی کھیلنے والے مسلمان اور سکھ دیکھتے ہی دیکھتے نفرتوں کے شعلوں سے نکل کر امن کی طرف مائل ہو گئے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزراپاکستان اور بھارت کے درمیان لاہور میں ہاکی کا میچ ہوا اور دونوں ملکوں سے مسلمان اور سکھ پرانی محبتیں تازہ کرتے ہوئے یوں گھل مل گئے اورایک دوسرے سے مل کر‘ آنسوئوں میں بھیگے‘ گلے ملنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہاکی میچ کے مناظر پر ایک دوسرے کے حق میں نعرے لگاتے نظر آئے۔ نفرتوں کے وہ دریا جو ہندو کی چال بازی سے اچانک بھڑک اٹھے تھے‘ ایک ہی اجتماع نے پرانی محبتیں بیدار کر دیں۔ وہ دن اور آج کا دن ہمیں جہاں بھی مشرقی اور مغربی پنجاب میں جانے کا موقع ملتا‘ ہم تقسیم کی یادیں بھول جاتے اوراب ہم اِدھر کا پنجاب اور اُدھر کا پنجاب کہنے لگے اور ہر وہ موقع نہیں بھولتے جب ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔ سکھ جب بھی ننکانہ صاحب آتے ہیں‘وہ بے شمار تعدادمیں اپنے گرو کی درگاہ میں حاضر ہوتے اور آنے والے مہمانوں کو پاکستان دل کھول کر اظہار محبت کرتا۔ان دونوں فریقوں کو ملتے دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان کے درمیان کس بے رحمی سے خون بہایا گیا تھا؟ تاریخ بھی بڑی بے رحم ہوتی ہے۔آج ہریانہ اور چندی گڑھ کے شہری اپنے ہی دارالحکومت میں گھل مل کے رہ رہے ہیں لیکن وہ محبت نہیں جو پنجاب والوں کے درمیان ہے۔
بھارتی حکومت نے پاکستان کی جانب سے کرتارپور کی سرحد کھولنے کی پیشکش کو قبول کرلیا جبکہ بھارتی کابینہ نے سرحد کھولنے سے متعلق منظوری بھی دے دی۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ بھارت کی وفاقی کابینہ نے پاکستانی تجویز کی توثیق کردی۔کرتارپور کی سرحد سے متعلق بھارتی حکومت کی توثیق کو فواد چوہدری نے دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کی کوششوں میں جیت
قرار دیا۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ صحیح سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے اور ہم امید کرتے ہیں مستقبل میں ایسے مزید قدم اٹھائے جائیں گے، جس سے سرحد کے دونوں جانب امن فضا قائم کرنے میں حوصلہ ہو۔وفاقی وزیربرائے نشر و اشاعت ‘فواد چوہدری کی یہ تجویز دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم کرنے کی راہیں کشادہ کرے گی۔ بھارت کی وفاقی کابینہ نے پاکستانی تجویز کی توثیق کر دی اور پھر بلّے ہی بلّے۔ بھارت کا کھلنڈرا کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب کے دوران اسی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ‘ جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے مل کر کہا تھا کہ ہم امن چاہتے ہیں اور آئندہ برس بابا گروناک کے جنم دن پر کرتارپور کی سرحد کھول دیں۔ اس کا دونوں طرف کے پنجابیوں نے گرم جوشی سے خیر مقدم کیا لیکن ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے سدھو کے خلاف شدید مظاہرے کئے گئے۔ مجھے پتہ نہیں کہ اس راستے کی نوعیت کیا ہو گی؟لیکن بھولے بھالے سکھ عوام خدا جانے اس کا مطلب کیا سمجھے ہوں گے؟ ویسے میں بھی اسی طرح کا بدھو ہوں۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ کرتا ر پور‘ واہگہ طرز کی کوئی راستہ ہو گا لیکن پتہ چلا کہ کرتار پور نامی گائوں بھارتی حدود سے تین سے چار کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ اس فاصلے کو پکی سڑک کے ذریعے زائرین کی آمدورفت کے لئے‘ سہولت مہیا کر دی جائے گی۔اگر دونوں طرف کے سکہ بند حکام‘ خدا جانے سفر کا کیا راستہ تجویز کریں گے؟ لیکن مست ملنگ زائرین کی مرضی ہو گی‘ کیا انہیں سرکاری راستوں سے ریل گاڑی‘ ٹیکسی کاریں یا دیگر ذرائع آمدو رفت دستیاب ہوں گے؟ پنجاب کے سادہ لوح کسانوں کو اس کی پروانہیں ہو گی۔ پنجاب کے مرد اور عورتیں اپنی پیاری مٹی پر ننگے پائوں چلنا بھی پسند کرتے ہیں۔ یہ مٹی انہیں بہت پیاری ہے۔