تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-11-2018

تیرےﷺ گُن اور یہ لب

ہجری ماہِ صفر کے آخر میں وزیر اعظم کے کمرے میں 6 لوگوں کی میٹنگ ہوئی۔ اس مختصر اجتماع کا ایجنڈا دل گداز سرشاری اور سرورِ کونینؐ کے حضور تابعداری سے لبریز تھا۔ یک نکاتی ایجنڈا یہ تھا کہ ربیع الاول کے مہینے کو سیرتِ رسولِ خُدا اور بارہ ربیع الاول کو ریاستی سطح پر رحمت للعالمین کے دن کے طور پر منایا جائے۔ آپ ؐ کرۂ ارضی پر دورِ جہالت، اندھیر نگری اور ظلمت کی تاریکی میں سسکتی انسانیت کے لئے مساوات اور انصاف کا سورج بن کر طلوع ہوئے۔
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا 
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا 
گزرے بدھ کے روز بین الاقوامی رحمت للعالمین کانفرنس کی اختتامی نشست مکمل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا‘ جس نے مجھے انسانیت کے لئے اس ماہِ اعزاز کی عیدِ میلاد میں ایک بار پھر شریک ہونے کا موقع عطا فرمایا۔ 12 ربیع الاول دنیا میں ایک نئی تہذیب کا یومِ طلوع ثابت ہوا۔ اس سے کون واقف نہیں کہ آپ ؐ کے تشریف آوری سے پہلے کا زمانہ سفاکیت، بربریت اور جاہلیت کا تھا۔ رشتوں کا تقدس تھا نہ پاکیزگی۔ انسان نے ابنِ آدم پہ قابو پانے کے لئے ویسے قانون بنا رکھے تھے جیسے چوپایوں کے لئے۔ مختلف قبائل نے کمزوروں کو قتل کر کے ان کی زمین پر قبضے کو ملک‘ ریاست اور حکومت کا نام دے رکھا تھا۔ انسانیت گُم کردہ راہ تھی اور بنی آدم، آدمیت کے نام پر دھبہ۔ عام الفیل میں آپؐ کی تشریف آوری نے قبائلی تفاخر اور خون ریزی کو اخوت، بھائی چارے میں تبدیل کر کے مواخات (Treaty of Brotherhood)کی بنیاد رکھی۔
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا 
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
2018ء رحمت للعالمین انٹرنیشنل کانفرنس کی آرگنائزنگ کمیٹی نے Theme of Conference کی روشنی میں تیاری مکمل کی۔ کانفرنس کے 4 تفصیلی سیشن ہوئے‘ جن میں مراکش، شام، سعودی عرب، ایران، لبنان، فلسطین، بھارت، امریکہ، مصر، برطانیہ، عراق، اُردن سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے سکالرز کے علاوہ اسلامی ممالک کے سفیر حضرات بھی شریک ہوئے۔ نوجوان خواتین و حضرات کی تعداد شرکاء میں زیادہ رہی‘ اور ہر اعتبار سے نمایاں بھی۔ کانفرنس کے دوران اور سائیڈ لائن پر عرب اور مغربی دنیا کے سکالرز سے گفتگو میں یہ خوش کُن انکشاف ہوا کہ مسلم دنیا کے سوچنے اور تحقیق کرنے والے‘ تفرقے اور تقسیم سے تنگ آ چکے ہیں۔ 
ان مسلم تھنکرز کے خیال میں اس تقسیم کی پشت پر باقاعدہ ''انویسٹرز‘‘ بیٹھے ہوئے ہیں‘ جو اپنے کمرشل مقاصد کے تحفظ و پروموشن کے لئے سرگرداں ہیں۔ ایک اچھی ملاقات پروفیسر عبدالسلام دائود العبادی سے رہی‘ جو آج کل او آئی سی (OIC) کے شعبہ قانون اور فقہ کے سربراہ ہیں۔ پروفیسر عبدالسلام العبادی ہاشمی سلطنت آف اردن کی حکومت میں وزیرِ اوقاف رہے۔ پھر اہل بیت یونیورسٹی آف ہاشمی کنگڈم آف جارڈن کے صدر بھی رہے۔ ڈاکٹر عبادی صاحب نے فقہ پر معروف کتاب لکھی ہے جو سعودی عرب سے شائع ہوئی اور مغرب میں اس کا انگریزی ترجمہ کیا گیا۔ 
میں نے کانفرنس میں جو معروضات پیش کیں وہ 3 حصوں پر مشتمل تھیں، تھیم آف کانفرنس کی روشنی میں۔ تھیم کا عنوان تھا ''سیرت رسولؐ کی روشنی میں عہدِ حاضر کے مسلمانوں کی ریاستی ذمہ داریاں‘‘۔ میں نے ان ذمہ داریوں کو 3 یونٹس سے متعلقہ ٹھہرایا۔ ریاست کا سب سے چھوٹا یونٹ گھرانے کو قرار دیا۔ مرد جس کا ''قوّام‘‘ ہے۔ جو تحصیلِ رزق اور پروٹیکشن آف فیملی جیسی بنیادی ڈیوٹیاں تو کرتا ہے لیکن اس یونٹ کی سربراہ خاتونِ خانہ ہی ہے‘ جس کی آغوش میں ہمارا اگلا سماج اور آنے والی نسلیں نرسری کی طرح تیار ہوتی ہیں۔ میں نے ذاتی زندگی کا تجربہ شیئر کرتے ہوئے عرض کیا: خاتون خانہ بھی ماں کی طرح جنت کی امین ہوتی ہے۔ ہماری مائوں کے قدموںکے نیچے ہماری جنت‘ جبکہ خاتونِ خانہ کے پیروں تلے اُس کی اولاد کی جنت ہے۔ اس ہستی نے اس کرۂ ارض پر چار دیواری میں بند رہ کر گھر گھر میں ہمارے لیے جنتِ ارضی کا جال بچھا رکھا ہے۔ میں اپنی والدہ زیب النساء بیگم کی وجہ سے اس دنیا میں آنے کے قابل ہوا لیکن اتنی ہی بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ میری بیگم یاسمین نے مجھے اس دنیا میں پر اعتماد اور پر آسائش زندگی گزارنے کے قابل بنا دیا۔ 
ریاست کا دوسرا یونٹ سماج ہے۔ ہماری سوسائٹی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں ایک دوسرے کو Breating Space دینا ہو گی۔ برداشت جس کی جانب پہلا قدم ہے۔ درگزر اور معاف کر دینا اس کی منزلِ مراد ہے۔ یہ دونوں کام افراد نے کرنے ہیں۔ ریاست کا تیسرا وِنگ سب سے اوپر ہے۔ حکمرانی، راج نیتی یا نظمِ ریاست کا۔ مدینے کی ریاست میں رحمت للعالمین نے بحیثیت کمانڈر اِن چیف/ تاجدارِ مدینہ اس کے 3 بنیادی اجزا آشکار کیے۔ آئیے محسنِ انسانیتؐ کے وضع کردہ ریاستی اصول ملاحظہ کریں۔ تاجدارِ مدینہ منورہ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے لوگ اپنی ذات، مال، اولاد سے زیادہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل رحمت للعالمین کانفرنس کے اعلامیے میں حضور نبی کریم ؐ کے اس فرمان کو اہتمام سے شامل کیا گیا‘ اور اس بابت کہا گیا: کچھ مغربی لا علم لوگ رسول اللہؐ کو اپنی جہالت کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اُسے شدید مذمت کے قابل امر گردانا گیا۔ ساتھ ہی کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ان مغربی عناصر کی جانب سے معتبر ترین مذہبی شخصیات اور نظریات پر آزادیٔ اظہارِ رائے کے پیچھے چُھپ کر حملہ کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یورپی یونین کی ایک معتبر عدالت نے آزادیٔ اظہارِ رائے اور مذہبی شخصیات کی تقدیس کو قانونی طور پر علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے۔ کانفرنس نے اس فیصلے کی تحسین کی۔ محسن انسانیت نے دوسرا جزوِ ریاست یہ بتایا کہ تم میں سے جو قرض چھوڑ کر فوت ہوا اس کا قرض میرے ذمے ہے۔ ریاستِ مدینہ کے شہریوں کی کفالت کا یہ اولین قانون آج دنیا میں سوشل سکیورٹی اور فلاحی ریاست کی بنیاد ہے۔ ساتھ تیسرا ارشادِ گرامی آیا کہ تم میں سے جو لوگ ترکے میں مال چھوڑ کر مرے وہ مال اُن کے وارثوںکا ہے۔ کانفرنس کے 2 نامور شرکاء میرے دوست قاری صداقت علی اور امریکہ سے آئے ہوئے کیلی گرافر اور نعت خواں نور محمد جرال صاحب میرے ہاں دعوت پر تشریف لائے۔ کچھ اور دوست بھی موجود تھے۔ دل میں اُتر جانے والی قاری صداقت کی آواز میں تلاوت ہوئی۔ نور جرال صاحب کی عشق کے نئے روپ میں نعت اور مناجات پیشِ خدمت ہیں۔ 
آئینۂِ جمالِ خُدا، سیدالوریٰ
کوئی نہ تجھ سا، تیرے سوا، سیدالوریٰ 
آقا، میرے مدینۂِ ثانی، کی خیر ہو
مٹی ہو اس کی، خاکِ شفأ، سیدالوریٰ
پرچم میرے وطن کا، کبھی سرنگوں نہ ہو 
لہرائے رفعتوں میں سدا، سیدالوریٰ 
سرحد میرے وطن کی، کبھی بے اماں نہ ہو
سایہ فگن ہو، نام تیرا سیدالوریٰ 
ہے آگ کی لپیٹ میں کشمیر کی زمین 
ہر گل بدن ہے، آبلہ پا، سیدالوریٰ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved