آہ فہمیدہ ریاض
بہت جرأت مند شاعرہ تھیں۔ خواتین کے حقوق اور جمہوریت کے لیے ان کی کاوشیں لائقِ صد تحسین ہیں۔ کئی کتابیں تخلیق کرنے کے علاوہ ایک عمدہ نقاد بھی تھیں۔ مثنوی مولانا روم کا اُردو ترجمہ کیا۔ میرے کلیات، اب تک‘‘ کی جلد اوّل کا اندرونی فلیپ لکھا جس کا آخری فقرہ تھا' ایسی عمدہ شاعری کے لیے ظفر اقبال، آپ کا شکریہ‘۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہ بھی رہیں۔ واحد بیٹے کی حادثاتی موت کا صدمہ سہا، کافی عرصے سے علیل تھیں، عیادتی فون پر اُن کی ہمشیرہ کی طرف سے بتایا جاتا کہ اب صحت بہتر ہے۔ نظم اُن کا خاص میدان رہا جبکہ غزل کے زیادہ حق میں نہ ہونے کے باوجود متعدد غزلیں بھی لکھیں، اُن کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ ایک دلکش شخصیت کی مالک تھیں، ان کی ادبی خدمات کو ایک عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔کشور ناہیدکو تعزیتی فون کیا تو وہ مسلسل روئے چلی جا رہی تھیں ؎
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
ریکارڈ کی درستی
تلفظ کی غلطیاں ہمارے اخباری اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک معمول کی حیثیت حاصل کرتی جا رہی ہیں جس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً بلند بانگ کو اکثر اوقات بلند و بانگ بولا جاتا ہے جبکہ شیخ زاید کو عموماً شیخ زید لکھا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ چکوال سے ہمارے شاعر دوست مرزا نور احمد طائر نے بتایا ہے کہ رحمت للعالمین لکھتے وقت رحمۃ اللعالمین بھی لکھا جاتا ہے یعنی رحمۃ کے بعد الف کا اضافہ خواہ مخواہ کر دیا جاتا ہے جو کہ غلط اور انتہائی قابل اعتراض بھی ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے، کم از کم اس کی توقیر ہی کا خیال کر لیا جائے اور درویش کی صدا کیا ہے۔
موسم اور موسمبی
موسم کے ساتھ موسمبیاں بھی اپنا رنگ بدل رہی ہیں۔ صبح واک کے وقت خاصا مُکپڑ ہونا پڑتاہے یعنی سویٹر کے ساتھ ساتھ گلے میں مفلر اور سر پر گرم ٹوپی۔ میرے جیسے بزرگ لوگوں کو ٹھنڈ لگنے کا خطرہ زیادہ درپیش رہتا ہے۔ ہمارے دوست اور لیجنڈ فکشن رائٹر انتظار حسین کو ٹھنڈ ہی لگی تھی جو نمونیہ وغیرہ میں تبدیل ہو گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ فُل گرم ٹوپی جسے ہم باندر ٹوپی بھی کہتے ہیں، وہ ضروری ہو گئی ہے چنانچہ جاوید اسلام صاحب سے فرمائش کی ہے کہ اس کا انتظام کریں جن کا کہنا ہے کہ اس کا فیشن چونکہ بہت پرانا ہو گیا ہے اس لئے لاہور سے ملنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ مجھے جلدی ہی اوکاڑہ سے منگوا دیں گے، اگرچہ میرے جیسوں کی موت کو 'قبل از وقت‘ بھی نہیں کہا جا سکتا! یعنی ؎
کھا ہنڈا مویا / تے فیر کی ہویا
میں اپنی واک، جس میں ہلکی، پھلکی ورزش بھی شامل ہوتی ہے، مکمل نہیں سمجھتا جس دن ممولے سے ملاقات نہ ہو جو کبھی کبھار ہی جلوا نما ہوتا ہے۔ میرا دوسرا عشق قمریوں کے جوڑے سے ہے جن کی رونمائی کم و بیش ہر روز ہی ہو جاتی ہے۔ اصل میں یہ دوجوڑے ہیں، اور کبھی کبھار دونوں جوڑے دکھائی دے جاتے ہیں۔ اس ڈیڑھ گھنٹے کے دوران وہ کہاں کہاں بیٹھتی ہیں، مجھے اب زبانی یاد ہو چکا ہے۔ ممولے کا امتیاز یہ ہے کہ بیٹھا ہو یا چل رہا ہو، اپنی خوبصورت دُم اوپر نیچے کرتا رہتا ہے جبکہ قمری بھی خاموش نہیں بیٹھتی بلکہ گردن کو اِدھر اُدھر اور اوپر تلے کرتی رہتی ہے۔ ایک پرندہ ایسا ہے جو نظروں سے پوشیدہ ہے، اس کی منفرد خوبی یہ ہے کہ تین تین سیکنڈز تک اس کی چہچہاہٹ جاری رہتی ہے، لیکن یہ اُس وقت ہوتا ہے جب میں کمرے ہی میں ہوتا ہوں اور صرف اس کو دیکھنے کے لیے باہر نکلنے کا تردد نہیں کیا جا سکتا۔ چہچہانا شاید غلط لکھ گیا ہوں کیونکہ وہ ٹررر ٹررر کی آواز نکالتا ہے جو مسلسل نہیں ہوتی بلکہ ٹکڑوں میں بٹی ہوتی ہے۔ جیسے تسبیح کے دانے ہوں۔
محبی اکبر معصوم جو میری غزلوں کا انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کا فون آیا کہ آپ نے ایک شعر میں ''کسب‘‘ کو ہجر کے وزن پر باندھا ہے جبکہ اسے سحر کے وزن پر ہی باندھ سکتے ہیں، میرا خیال تھا کہ کہ یہ دونوں طرح سے ٹھیک ہے، مثلاً کسب بینک اپنے آپ کو انگریزی میں KASB ہی لکھتا ہے، نیز اس مشہور و معروف مصرعے میں بھی یہ اسی وزن میں باندھا گیا ہے یعنی ؎
کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی
اور، اب آخر میں یہ تازہ غزل جو واقعی خانہ پُری کے طور پر پیش کی جا رہی ہے ؎
بڑی سرمایہ کاری ہو چکی ہے
جو یہ تُم پر ہماری ہو چکی ہے
نکالا ہے جو اسبابِ محبت
یہ گٹھڑی اور بھاری ہو چکی ہے
اب اُس سے جا کے اجرت بھی تو مانگیں
بہت خدمت گزاری ہو چکی ہے
وہ اب تک اجنبی کیوں ہے سرا سر
جو اتنی جانکاری ہو چکی ہے
کہیں بڑھتی نہیں ہے اس سے آگے
اگرچہ دوستداری ہو چکی ہے
تلافی اس کی ہو کس طرح، دیکھیں
جو یہ بے اعتباری ہو چکی ہے
بغاوت کی گھڑی ہے یہ کہ اب تک
بہت کچھ بُردباری ہو چکی ہے
پڑے ہیں بے سروں ساماں کہ ہر شے
ہماری بھی تُمہاری ہو چکی ہے
ظفر، آرام سے سو ہی رہو اب
اگر اختر شماری ہو چکی ہے
آج کا مطلع
وہ رکاوٹ ہوئی روانی میں
مچھلیاں مر رہی ہیں پانی میں