تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     23-11-2018

حضورؐ کی دریا دلی… حکمرانوں کی تنگ دلی

تورات کے دس احکام میں سے پہلا حکم ''لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہے۔ حضرت محمد کریمؐ نے اپنی دعوت کا آغاز ''صفا پہاڑی‘‘ پر کھڑے ہو کر اسی کلمہ کے اعلان سے فرمایا۔ مکہ کے لوگ ہم وطن تھے‘ ہم زبان تھے‘ رشتہ دار تھے مگر چونکہ بت پرست مشرک تھے‘ لہٰذا فیصلہ یہ کیا کہ ان کی عورتوں سے شادی ناجائز ہے۔ اس کے برعکس یہودی اور مسیحی لوگوں کی عورتوں سے شادی کو بھی جائز قرار دیا۔ انہیں اہل کتاب کہا‘ ان کا ذبیحہ بھی جائز ٹھہرایا اس لئے کہ وہ عقیدے کے میرٹ پر اپنے رشتہ دار قریشیوں کی نسبت مسلمانوں کے قریب تر تھے۔ یعنی حضورؐ دریا دل تھے تو میرٹ پر تھے‘ اس میں قبیلے‘ برادری‘ علاقے اور زبان وغیرہ کا کوئی دخل نہ تھا۔ نماز کی بات کریں تو یہودیوں کا ایک فرقہ آج بھی نماز میں رکوع بھی کرتا ہے اور سجدہ بھی کرتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے کامل ترین صورت میں نماز دی۔ رکوع اور سجدہ کہ جس کو مسیحی بھی چھوڑ چکے‘ یہودی بھی ترک کر چکے۔ ان کا ایک چھوٹا سا فرقہ مسخ شدہ نماز میں سے رکوع اور سجدے کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔ حضورؐ نے ان کو اہم ترین ارکان قرار دیا۔ روزے کی بات کریں تو قرآن نے واضح کیا کہ اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔ جی ہاں! یہود میں بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔ مسیحی لوگوں میں بھی روزے موجود ہیں۔ حتیٰ کہ ہندوئوں میں بھی ''برت‘‘ کے نام سے روزے موجود ہیں مگر سب کی شکلیں مختلف ہیں۔ حضرت محمد کریمؐ نے کامل صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے عطا فرمائے۔ صدقہ و خیرات بھی ہر مذہب میں موجود ہے۔ حضورؐ نے کامل ترین صورت میں ''زکوٰۃ‘‘ اور عشر کا مالی نظام دیا۔ اسلام کے پانچ ارکان ہیں‘ اسلام نے پانچوں ارکان صحیح ترین صورت میں انسانیت کو دیئے اور جس مذہب کے پاس جس قدر صحیح تصور اور عمل تھا اس کو ختم نہیں کیا۔ اسے حق کا حصہ بنا ڈالا۔ ثابت یہ کیا کہ حقیقت اور حق انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ اس میں تعصب کی کوئی گنجائش نہیں‘ لہٰذا حق کو اس کی اصل صورت میں حضرت محمد کریمؐ کی گفتار اور کردار سے واضح کر دیا گیا ہے۔ یہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی دریا دلی ہے۔ انسانوں کو زندگی میں اسی طرزِعمل کو اپنانا چاہئے۔
قارئین کرام! اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک حج ہے۔ مشرکین مکہ جس طرح حج کیا کرتے تھے‘ عمرہ کیا کرتے تھے‘ سب کو اسی طرح برقرار رکھا گیا۔ صرف ان چیزوں کو ترک کیا گیا جن کو مشرکین نے اپنے طور پر بنا لیا تھا۔ احرام اور میقات بھی وہی رہے‘ حدودِ حرم بھی وہی رہے‘ حجراسود اپنی جگہ رہا‘ طواف کے چکر سات ہی رہے‘ صفا مروہ کی سعی بھی وہی رہی‘ لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کا تلبیہ بھی وہی رہا۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ اس تلبیہ میں انہوں نے ''اِلَّا شَرِیکًّا لَکَ تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَک‘‘ کا اضافہ کر لیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں۔ ہاں وہ شریک ہے تیرا کہ اس شریک کا مالک بھی تو ہے اور جس کا وہ شریک مالک ہے اس شئے کا بھی آخرکار مالک تو ہی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا‘ کاش یہ لوگ ''لَاشَرِیکَ لَکَ‘‘ پر ٹھہر جاتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ بہرحال! تلبیہ وہی رہا اور جو اضافہ تھا حضورؐ نے ختم کر دیا۔ یہ نہیں کیا کہ چونکہ مشرکین تلبیہ پڑھتے رہے ہیں لہٰذا سارا ہی بدلا جائے۔ قربان جائوں حضورؐ کی دریا دلی پر کہ میرٹ پر حق ہی کو ترجیح ہے کہ جس کے پاس جس قدر حق ہے اس کو اپنایا گیا ہے اور جو ناحق ہے اس کو مٹایا گیا ہے۔ 
سماجیات اور سوشل سسٹم کا رخ کریں تو صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں نکاح کی چار اقسام تھیں‘ اسلام نے ایک کو اپنا لیا اور باقی تین کو ختم کر دیا‘ جن تین کو ختم کیا ان میں سے پہلی یوں تھی کہ خاوند اپنی بیوی کو کسی اعلیٰ ذات‘ خوبصورت اور مالدار سردار کی خدمت میں پیش کرتا‘ اس لئے کہ اس کا جو بچہ ہو وہ خوبصورت اور اچھی صفات والا ہو۔ یہ حرکت صریحاً بدکاری تھی‘ اسلام نے اس کو ختم کر دیا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ ایک عورت کے تعلقات کئی مرد حضرات سے ہوتے‘ بچہ پیدا ہوا تو عورت نے جس مرد کا نام لے کر کہہ دیا کہ یہ بچہ اس کا ہے معاشرتی سسٹم کے تحت یہ بچہ اسی کا ہوتا تھا۔ تیسری صورت یہ تھی کہ ایک عورت کے پاس اس کی اجازت اور رضامندی سے مختلف لوگ آتے تھے‘ جب بچہ پیدا ہوتا تو قیافہ شناس شخص کو بلایا جاتا وہ قیافے سے جس مرد کی طرف اشارہ کرتا وہ بچہ اسی کا بیٹا قرار پاتا۔ بدکاری کی یہ سب اقسام ختم ہو گئیں اور ہمارے پیارے حضورؐ نے اسی ایک قسم کو باقی رکھا جو اس دور کے خاندانی اور معزز لوگوں میں رواج پذیر تھی کہ ولی کے ذریعے حق مہر طے کر کے خاندان کے لوگوں میں اعلانیہ شادی ہوتی جیسا کہ آج کل ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جاہلیت میں جو اچھی چیزیں تھیں وہ باقی رہیں اور جو غلط تھا وہ مٹا دیا گیا۔
حضورؐنے مکہ فتح کیا تو ارادے کا اظہار کیا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کعبہ کو حضرت ابراہیمؑ کی قائم کردہ بنیاد پر نئے سرے سے تعمیر کر دوں لیکن فرمایا کہ لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں‘ یہ نہ کہیں کہ جناب محمد کریمؐ ہر شئے کو بدل رہے ہیں‘ یعنی آپ فتح مکہ کے بعد سارے عرب کے حکمران ہو کر بھی مصلحت اور حکمت کو سامنے رکھ رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جب مکہ کے حکمران بنے تو انہوں نے کعبہ میں حطیم کو شامل کر کے نئی تعمیر کر دی۔ بعد میں بنو امیہ کے ایک خلیفہ نے بظاہر سیاسی مخالفت میں اسے ختم کر کے حطیم کو کعبہ سے خارج کر دیا۔ پھر ایک نئے اموی حکمران نے حطیم کو شامل کر کے کعبہ بنانا چاہا تو علماء وقت نے اسے روکا کہ حکمران لوگ اگر اللہ کے گھر کو یوں اپنی خواہشات کا مرکز بنائیں گے تو کعبے کی حرمت و توقیر متاثر ہو گی۔ چنانچہ اموی حکمران باز آ گیا اور کعبہ شریف آج تک حکمرانوں کی کھلواڑ سے محفوظ ہے۔ (الحمدللہ) کہنے کا مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں‘ ہمارے حضور رحمۃ للعالمین ہیں۔پوری انسانیت سامنے ہے۔ میرٹ پر حق کا نام اسلام ہے اور وہ ختم المرسلین کے ذریعے آخری اور مکمل دین بن کر آج ہمارے پاس ہے۔
اب آتے ہیں پاکستان کے حکمرانوں کی سیاست اور تنگ دلی کی طرف۔ میاں نوازشریف نے موٹروے کو پانچ لائنوں والا بنایا۔ محترمہ بے نظیر مرحومہ کی حکومت آئی تو تین لائنوں والا بنا دیا۔ لاہور ایئرپورٹ کی جیٹیوں کی تعداد 21تھی۔ پرویز مشرف کا دور آیا تو یہ تعداد 7کر دی گئی۔ چودھری پرویز الٰہی صاحب نے وارڈن پولیس اور ایمبولینس سروس کا بہترین انتظام کیا۔ میاں شہباز وزیراعلیٰ بنے تو دونوں کا ستیاناس کر دیا۔ ایسا تعصب کہ ایمبولنس کا رنگ بدل کر کروڑوں روپیہ ضائع کر دیا۔ اب پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے تو لاہور کی آئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور آئی ٹی بورڈ کے بانی اور دنیا کے مانے ہوئے آئی ٹی ماہر ڈاکٹر عمر سیف کو فارغ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے دور کے دوسرے دیانتدار ماہر ذوالفقار چیمہ جنہوں نے ٹیکنیکل اداروں کی بہتری کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا‘ وہ بھی فارغ ہو گئے۔ ناصر درانی جیسے پولیس افسر بھی گھر بیٹھ گئے۔ بلدیاتی نمائندوں کو پی پی پی اور ن لیگ نے اختیارات سے محروم رکھا۔ سو دن بیت گئے‘ پی ٹی آئی نے بھی محرومی کو برقرار رکھا ہے۔ پولیس کو سیاسی نمائندوں کے اثرورسوخ سے آزاد کرنے کی نوید تھی مگر پی پی اور ن لیگ کا چلن جاری ہے۔ محترم وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب! دریا دل بنئے‘ اچھے لوگوں کو برقرار رکھئے۔ اگر یوٹرنوں سے عظیم لیڈرشپ آپ کا ویژن ہے تو اچھے یوٹرن لیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)
سو دن بیت گئے‘ پی ٹی آئی نے محرومی کو برقرار رکھا ہے۔ پولیس کو سیاسی نمائندوں کے اثرورسوخ سے آزاد کرنے کی نوید تھی مگر پی پی اور ن لیگ کا چلن جاری ہے۔ محترم وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب! دریا دل بنئے‘ اچھے لوگوں کو برقرار رکھئے۔ اگر یوٹرنوں سے عظیم لیڈرشپ آپ کا ویژن ہے تو اچھے یوٹرن لیجیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved