تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     24-11-2018

افغانستان کے آبی منصوبے

''بھارت اب افغانستان میں ڈیم بنانے کے لئے سرمایہ کاری کر رہاہے۔یہ ڈیم کابل میں تعمیر ہوگا ‘جو پانی کے بہائوکو روک لے گا ۔یہ منصوبہ دنیا کے لئے نیا تنازع کھڑا کرنے والا ہے۔افغانستان کا جائزہ لیں‘ تو وہاں کاشت کے لئے 60فیصد پانی بارشوں سے حاصل ہوتا ہے ‘جسے ذخیرہ کرکے استعمال میں لایا جاتا ہے یا برفانی پہاڑوں کے گلیشیر پگھلنے سے حاصل ہونے والا پانی استعمال میں لاتا ہے‘‘۔کابل کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ان کے بڑھتے ہوئے مسائل سے حکومت بھی کافی پریشان نظر آتی ہے ۔ موسمی تبدیلیاں بھی وہاں کے رہائشیوں کو پانی کے وسائل دریافت کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہیں‘مگر اصل مسئلہ وہاں نئی تعمیرات بھی ہیں‘ کیونکہ افغانستان اور پاکستان کی سرحدی پر واقع دریا کے حوالے سے دونوںممالک کے پاس کوئی خاطر خواہ منصوبہ جات اور معاہدے نہیں ہیں‘ جن کے تحت دونوں کوئی نئی تعمیر عمل میں لا سکے ‘جو کئی ساری قانون پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔
کابل کے ضلع ''چاہارآسیاب‘‘ میں کابل دریا پر جلد ہی شہتوت ڈیم پر کام شروع ہو جائے گا۔ڈیم 146ملین کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرسکے گااور کابل کے20لاکھ رہائشی استفادہ حاصل کرنے کیساتھ ساتھ 4000ہیکٹر کاشتکاری رقبے کو بھی سیراب کرسکے گا۔یہ پانی نہ صرف کابل شہر‘ بلکہ اسکے ارد گرد نئے بننے والے شہروں جیسا کہ ''دیہہ سبز‘‘ کے بھی استعمال میں آئے گا۔افغانستان نے جنگوں کے بعد اب اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے ایسے منصوبوں پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا ہے‘ مگر ان کا یہ منصوبہ بہت سے شکوک و شبہات رکھتا ہے‘اس منصوبے سے پاکستان کی جانب پانی کا بہاو کم ہو جائے گا؛ اس معاملے پر پاکستانی میڈیا پہلے بھی کئی نقاط زیربحث لا چکا ہے۔خاص طور پر اس سے ملتے جلتے کئی ڈیم پر مزید واویلہ مچنے کے امکانات بھی ہیں۔
شہتوت ڈیم بھی اسی طرز کا ایک منصوبہ ہے ‘جسے خالصتاً بھارت‘ پاکستان کی جانب پانی کے بہائوکوکم کرنے کے لئے فنڈنگ کر رہا ہے۔بھارت کا افغانستان کی جانب جھکائوڈھکا چھپا نہیں اور وہ افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ خصوصاً ہائی وے کے تعمیرات اور نئے ڈیم سر فہرست ہیں۔2001ء میں بھارت نے افغانستان میں تقریبا ً2ارب کی سرمایہ کاری کی تھی ‘ جب افغانستان نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان میں نئے ڈیم وقت کی ضرورت ہیں اور آنے والے وقت میںپانی کے مزید بحران سامنے آسکتے ہیں۔ان سارے منصوبہ جات اور سرمایہ کاری کو پاکستانی حکومتوں نے اہمیت نہ دی‘ مگر بھارتی سرمایہ کاری وقت کیساتھ ساتھ مزید بڑھتی گئی ۔ پاکستان اپنے ہائیڈروپاور منصوبہ بھی نہ لا سکا‘ مگر اب خدشہ یہی پید اہو گیا ہے کہ مستقبل میں پاکستان کو بجلی افغانستان سے ہی نہ لینا پڑ ے گی ۔ امریکی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ نے 2011ء میں پانی پر اپنی رپورٹ بھی پیش کی تھی‘جس میں کہا گیا بھارت‘ شہتوت ڈیم پر سرمایہ کاری کرکے اپنے اہداف پورے کرنے میں کامیاب ہو جائے گا‘ مثبت سوچ نئی راہیں بھی کھول سکتی ہے اور تعمیرات کے لئے نیا دور بھی شرو ع ہو سکتا ہے‘ مگر منفی سوچ ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان کے لئے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ منفی سوچ نہ صر ف پاکستان‘ بلکہ دنیا کے لئے نئے مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔
پانی کی کمی کا یہ مسئلہ علاقائی کشیدگی پیدا کرسکتا ہے ۔پانی کی کمی کی وجہ سے خوراک کی کمی‘ اشیا خورونوش کی قیمتوں میںاضافہ اور دیگر مسائل کو بھی جنم لے سکتا ہے۔یہی پانی کا مسئلہ ہی شام اور یمن کے لئے مسائل کا گڑھ بناتھا۔ معاملہ جنگ کی صورت میں سامنے آیا تھا‘ اسی طرزپریہی معاملات مصر اور ایتھوپیا کے درمیان بھی جنگ کا موجب بنے تھے۔افغانستان کے صدر ‘اشرف غنی نے واضح طور سے کہا ہے کہ پانی کی ذخیرہ اندوزی اور ڈیم کی تعمیرات ان کی اولین ترجیح ہے۔ایسا کرنا ‘ان کے لیے مشکل بھی نہیں ‘کیونکہ 2017ء میں افغان جرمن یونیورسٹی نے اپنی تحقیق میں یہ بات واضح کی تھی کہ افغانستان محل وقوع کے حساب سے پانی ذخیرہ اندوزی کے لئے نہایت موزوں ہے۔
'' افغانستان کے85فیصد لوگ زراعت سے منسلک ہیں‘اسے بھی پاکستان سے تحفظات ہیں کیونکہ دونوں ممالک کی سرحد دریائے کابل سے ملتی ہے‘ مگر بھارت اسے یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ چھوٹے بڑے 12ڈیم بنانے پر وہ 1177 میگا واٹ بجلی پیدا کر سکے گا ‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved