ایاز امیر تونااہلی سے‘ اہلیت تک کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر گئے۔ سوچ رہا ہوںاگر انہی آئینی شقوں کے تحت شورش کاشمیری نااہل قرار پاتے‘تو ان کا کیا بنتا؟ ان کی کتاب ’’اس بازار میں‘‘ 62‘ 63 کی اتنی کھلی خلاف ورزی ہے کہ انتخابی امیدوار بننا تو کجا‘ شورش صاحب کو اسمبلی کی کارروائی دیکھنے کے لئے کارڈ دینا بھی ممنوع قرار دے دیا جاتا۔ عبدالحمید عدم تو ہر چوتھے شعر میںاقراری مجرم ہیں۔ حیران ہوںآئین میں 62‘ 63 کی شقیں شامل ہونے کے بعد‘ ان کی کتابیں ابھی تک مارکیٹ میں کیوں دستیاب ہیں؟ جوش ملیح آبادی کی آپ بیتی ’’یادوں کی بارات‘‘ ناجائز اسلحہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔اگر یہ کتاب موجود رہی‘ تو ایک نہ ایک دن آئین سے 62‘ 63 کو نکلوا دے گی۔اگر ڈریکولین آئینی دفعات کو بچانا ہے‘ تو ’’یادوں کی بارات‘‘ پر بلاتاخیر پابندی لگا دینی چاہیے۔ ان دفعات کے یوں تو ان گنت فوائد ہیں۔ مگر ان کا ایک فائدہ‘ ام الفوائد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو شخص‘ جس منصب پر بیٹھا ہو‘ وہ ان دفعات کو جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ اگر کوئی ریٹرننگ افسر ہے‘ تو وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کے کسی بھی امیدوار کو نااہل قرار دے کر‘ اسے انتخابی عمل سے باہر کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اگر کوئی اس فیصلے کے خلاف اپیل سن رہا ہے‘ تو وہ اسی شخص کو اہل قرار دے کر ‘ نااہلی کے الزام سے بری کر سکتا ہے۔ ہمارے ایاز امیر‘ ایک دن نااہل تھے‘ اگلے روز اہل ہو گئے۔ جبکہ بدلا کچھ بھی نہیں۔62‘ 63 بھی وہی ہیں۔ ایاز امیر بھی وہی ہیں اور ان کا وہ کالم بھی جوں کا توں ریکارڈ کا حصہ ہے‘ جس کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار دیا گیا۔ اسے کہتے ہیں انصاف۔ یہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کے ہاں ملتا تھا یا ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میںملتا ہے۔ بی بی سی نے ہماری محیرالعقول جمہوریت کی ایک خصوصیت تلاش کی ہے کہ اس میں کسی فوجی حکمران کے حق میں یا خلاف ووٹ ڈالنے کا سوال نہیں ہے۔ تو پھر سوال کیا ہے؟ وہ کونسی چیز ہے‘ جس نے فوجی حکمران کی جگہ لے لی؟میں تو سمجھتا ہوں کہ فوجی حکمران بہتر تھے۔ سیاسی لیڈروں‘ محکموں کے سربراہوں‘ وزیروں اور ماتحت حکومتوں کو ایک ہی طرف دیکھنا پڑتا تھا۔ جو فوجی حکمران کہتا‘ اس کی صرف ایک ہی تشریح ہوا کرتی۔ فوج میں یس اور نو کا ایک مطلب ہوتا ہے۔ ان دونوں لفظوں کی تشریح میں مغزماری نہیں کرنا پڑتی۔ جہاں آئینی حکومت ہوتی ہے‘ وہاں ہر چیز آئین کے ماتحت چلتی ہے اور آئین کسی ایک ادارے یا فرد کے قبضے میں نہیں ہوتا۔ ریاست کے تمام ادارے اور عہدیدار ‘ آئین کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ مگر ہم فوج کی حکمرانی کے کچھ ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں صرف اسی کے ڈسپلن میں رہنا نظر آتا ہے۔ آئین کی بالادستی ہو‘ تو ہم جھگڑنے لگتے ہیں۔ جب تک پرویزمشرف کی حکومت تھی‘ اختیارات کی مرکزیت برقرار تھی۔ جیسے ہی پرویزمشرف نے وردی اتاری‘ اختیارات کی مرکزیت کا نظام ٹوٹ گیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ اختیارات کی وہ چھینا جھپٹی شروع ہوئی‘ جو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ پہلے بے وردی صدر اور وکلا کے درمیان جھگڑا شروع ہوا۔ وکلا نے کہا آئین بالادست ہے اور آئین کی تشریح کرنا عدلیہ کے اختیار میں ہے۔ برسراقتدار جماعت کے لیڈروں نے کہا کہ پارلیمنٹ بااختیار ہے اور اس کی بنائی ہوئی حکومت کی مرضی چلے گی۔ اپوزیشن نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ مرضی عدلیہ کی چلے گی اور پھر عدلیہ اور صدرمملکت کے اختیارات پر تنازع کھڑا ہو گیا۔ ایک طرف سے کہا گیا کہ صدر کو فلاں اختیار نہیں۔ دوسری طرف سے جواب آیا عدلیہ کو فلاں اختیار نہیں۔ اسی جھگڑے میں اسمبلی کی مدت ختم ہو گئی۔ اختیارات کی گولیاں مزید بکھرنے لگیں۔ سیاستدانوں نے آئین کے مطابق ایک نگران حکومت بنائی‘ جو اصولی طور پر منتخب حکومت کے مکمل اختیارات کی وارث ہوتی ہے۔ پرانی حکومت رخصت ہونے کے کئی روز بعد تک ‘ نگران حکومت ہی لاپتہ رہی۔انتخابات سر پہ آ چکے تھے۔ جانے والے چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب کر گئے تھے‘ جو آئینی طور پر انتخابی عمل کا مکمل نگران ہوتا ہے اور ہر حکومتی ادارہ‘ انتخابی عمل کی تکمیل کے لئے اس کی مدد کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابتدائی دنوں میں اپنا کام مناسب رفتار سے جاری رکھا۔ اگر نگران حکومت‘ اپنے پیروں پر چل سکتی‘ توذمہ داریاں سنبھال کر چیف الیکشن کمشنر کو تحفظ دے سکتی تھی۔ وہ خود تحفظ کی محتاج نکلی اور جو ادارہ‘ آئین کی تشریح کا اختیار رکھتا ہے‘ اس نے آگے بڑھ کر الیکشن کمیشن کو عدلیہ کا دست نگر بنا دیا۔ خدا جانے وہ کیسے حالات تھے؟ جن میں فخرو بھائی کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے عدلیہ سے افرادی قوت مانگنا پڑی۔ ضروری نہیں تھا کہ سارے کے سارے ریٹرننگ افسر عدلیہ سے لئے جاتے۔ بیوروکریسی کا مجسٹریسی کے اختیارات رکھنے والا حصہ بھی‘ اس مقصد کے لئے بلایا جا سکتا تھا۔ خدا جانے کیوں سارے کے سارے ریٹرننگ آفیسرز عدلیہ سے لے لئے گئے؟ اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان نے براہ راست انہیں خطابات کرنے‘ احکامات جاری کرنے اور ہدایات دینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور کیفیت کچھ ایسی ہو گئی کہ چیف الیکشن کمشنر دفتر میں بیٹھے رہ گئے اور امیدواروں کے کاغذات منظوریامسترد کرنے کا کام عدالتی عملے کے پاس چلا گیا‘ جو ریٹرننگ آفیسرز کی کرسیوں پر بیٹھ گیا تھا۔ کاغذات نامزدگی کی منظوری کے عمل میں جیسے جیسے حیرت انگیز واقعات دیکھنے کو ملے‘ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ تماشا جسے قومی اور عالمی میڈیا میں نمایاں طور سے جگہ ملی‘ دنیا کو مدتوں یاد رہے گا۔ شاید ہی کسی جمہوری نظام کے اندر‘ عوام کے ووٹوں سے ملکی نظم و نسق چلانے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہو‘ جو ہمارے ہاں امیدواروں کے ساتھ کیا گیا۔ انہیں دوسری تیسری جماعت کے بچے سمجھ کر یوں سوالات پوچھے گئے‘ جیسے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور جو لوگ سوال پوچھ رہے ہیں‘ ان کے اختیارات کی حدیںلامتناہی ہیں۔ دنیا اور پاکستان کے عام شہریوں کے نزدیک ملک میں جمہوریت آ چکی ہے اور جمہوریت میں سب سے زیادہ قابل عزت اور ذمہ دار لوگ وہ ہوتے ہیں‘ جنہیں عوام اپنے ووٹوں سے ملکی نظم و نسق چلانے اور قومی پالیسیاں بنانے کا اختیار دیتے ہیں۔ یہی لوگ مل کر ملک کے مقتدر ترین ادارے یعنی پارلیمنٹ کو تشکیل دیتے ہیں۔ ریاستی خزانے سے تنخواہ لینے والا یہ واحد طبقہ ہے‘ جسے آئین‘ شخصی عزت و احترام کا باضابطہ تحفظ دیتا ہے۔ قواعد و ضوابط کے مطابق پارلیمنٹ کے اراکین کو جو استحقاق حاصل ہے‘ وہ ریاستی خزانے سے تنخواہ لینے والے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ ملازم کوبھی حاصل نہیں۔ پارلیمنٹ کے اراکین کے لئے ساری دنیا میں علیحدہ پروٹوکول کا نظام ہے۔ جو بھی الیکشن میں بطور امیدوار اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے‘ وہ مستقبل کا امکانی رکن پارلیمنٹ ہوتا ہے۔اگر کسی ادارے میں کچھ لوگ غیرذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہیں یا کرپشن میں ملوث ہو جاتے ہیں‘ وہ یقینا قابل مذمت ہیں۔ انہیں عام قوانین کے تحت سزا ملنا چاہیے۔ لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ جو کرپشن کے ذریعے دولت جمع کرلیں‘ وہ باعزت ہو جاتے ہیں اورپکڑے جاتے ہیں ایاز امیر اور جمشید دستی۔ اگرپاکستان میں دہشت گرد پائے جاتے ہیں‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہماری پوری قوم دہشت گرد ہے۔ اسی طرح اگر پارلیمنٹ میں کچھ لوگ کرپشن کرتے ہیں‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ کا ہر رکن کرپشن میں مبتلا ہے۔ لیکن ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں امیدواروں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ وہ کچھ اسی طرح کا تھا۔ ہر امیدوار سے ایسے لہجے اور انداز میں سوالات کئے گئے‘ جیسے وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے آئے ہیں۔ کسی ریٹرننگ افسر نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ہم اپنے ملک میں آئندہ حکومت کرنے والوں سے مخاطب ہیں۔ یہ درست ہے کہ آزاد اور جمہوری معاشروں میں سیاستدان کا احتساب سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ مگر احتساب کا یہ مطلب نہیں کہ ہر سیاستدان کو بلاامتیاز تحقیر کا نشانہ بنالیا جائے۔ جوڈیشل بیوروکریسی ہمارے دیگر حکمران طبقوں کی طرح آج بھی اتھارٹی کے آمرانہ استعمال کی عادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ لوگوں کو آئینی حکومت میں عزت ملتی ہے اور نہ آمریت میں۔ جس حکومتی مشینری کے ساتھ عام لوگوں کا ہمیشہ واسطہ پڑتا ہے‘ اس کا طرزکار آمرانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کچھ نہیں بدلتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved