دنیا کی بے ثباتی سے متعلق نکات سے اردو شاعری بھری پڑی ہے۔ ویسے تو خیر دنیا کی ہر زبان کے شعراء اور ادیب دنیا کی بے ثباتی کے حوالے سے بہت کچھ کہتے اور لکھتے رہے ہیں ‘مگر اردو کا معاملہ قدرے منفرد ہے۔ اِس میں دنیا کے عارضی قیام‘ زندگی کے تلخ و شیریں معاملات اور انسان کی حقیقت کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔ کئی شعراء اس حوالے سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اِن میں خواجہ میر دردؔ بہت نمایاں ہیں۔ اُنہوں نے کہا ہے ؎
تہمتیں چند اپنے ذِمّے دَھر چلے
کس لیے آئے تھے ہم‘ کیا کر چلے
ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
چل سکے بس جب تلک ساغر چلے
آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ
جیسے دُہری دھار کا خنجر چلے
میر تقی میرؔ نے بھی اپنے بہت سے اشعار میں دنیا کے بے حیثیت ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے ‘اس نکتے پر زور دیا ہے کہ انسان کو رُوئے ارض پر اپنے انتہائی عارضی قیام کے دوران یہاں کی چیزوں سے دل لگانے کے بجائے اپنے خالق و رب سے لَو لگانی چاہیے تاکہ ابدی زندگی کی بہتر تیاری ممکن ہوسکے۔ میرؔ کہتے ہیں ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
سامان لُٹا راہ میں یاں ہر سَفری کا
میرؔ ہی نے زندگی کی بے ثباتی یوں بھی بیان کی ہے ؎
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
انسان کے لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ یہاں کیوں ہے یعنی کس لیے بھیجا گیا ہے۔ جس نے کائنات بنائی ہے اُس نے کچھ نہ کچھ سوچا ہوگا تب ہی تو انسان کو خلق کرکے رُوئے ارض پر بسنے کا حکم دیا ہوگا۔ جب ہم کائنات کی کسی بھی چیز کو بے مصرف و غیر مفید نہیں پاتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ مخلوق میں بہترین یعنی انسان کا کوئی مصرف ہی نہ ہو۔ انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد رب کی شناخت ہے۔ انسان کو اپنے فکر و عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ کوئی ہے‘ جس نے اس کائنات کو خلق کیا ہے اور یہ کہ وہی ہر چیز‘ ہر معاملے پر مکمل قدرت کا حامل ہے۔ جب انسان کو اپنے مقصدِ تخلیق کا احساس ہوتا ہے تب زندگی کا رخ بدلتا ہے۔ جب ذہن میں یہ خیال گھر کر جاتا ہے کہ ہمارا کوئی نہ کوئی مصرف ہے تب کچھ کرنے کا عزم پیدا ہوتا ہے اور پختہ ہوتا جاتا ہے۔
ہزاروں سال سے انسان ایسا بہت کچھ کرتا آیا ہے‘ جو اُسے زندہ رکھنے میں معاون ثابت ہو۔ ہر دور کے بہت سے انسانوں نے اپنے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لاکر کچھ نہ کچھ ایسا کیا ہے ‘جو اب تک یاد رکھا گیا ہے۔ انسان کے لیے ایک بنیادی سوال یاد رکھے جانے کا ہے۔ ہر دور کے بہت سے انسان اس بات کے خواہش مند رہے ہیں کہ انہیں یاد رکھا جائے۔ یہ خواہش بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ یہ تحریک نہ ہو تو دل مردہ ہو جاتا ہے‘ زندگی مجموعی طور پر پژمردگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ دل مردہ ہو جائیں تو اُمّتیں دم توڑنے لگتی ہیں۔ اقبالؔ نے اِسی حقیقت کی طرف یوں اشارا کیا ہے ؎
دلِ مردہ دل نہیں ہے‘ اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمّتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
زندگی کا اصل حُسن اور زیور صرف اور صرف مقصد ہے۔ مقصد نہیں تو زندگی جسدِ خاکی ہے۔ انسان جب مر جاتا ہے تو اُسے body‘ یعنی صرف جسم کے نام سے پکارا جاتا ہے! یہی حال زندگی کا بھی ہے۔ انسان کا جینا صرف اُس وقت تک کچھ اہمیت رکھتا ہے جب تک وہ کسی نہ کسی مقصد کے تحت جی رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی مقصد دم توڑتا ہے‘ زندگی محض سانسوں کے تسلسل تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں جینا اور نہ جینا برابر ٹھہرتا ہے۔
1975ء میں ریلیز ہونے والی بھارتی فلم ''دھرم کرم‘‘ میں مجروحؔ سلطان پوری کا لکھا ہوا ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا جو مکیش نے گایا تھا۔ گیت کے بول تھے ؎
اِک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
دوجے کے ہونٹوں کو دے کر اپنے گیت
کوئی نشانی چھوڑ‘ پھر دنیا سے ڈول
یہی انسان کی حقیقت ہے۔ مِٹّی سے آیا ہے‘ مِٹّی میں جائے گا۔ اگر کچھ رہے گا تو بس وہ کہ جو کہا گیا ہوگا‘ کیا گیا ہوگا۔ انسان کو کچھ نہ کچھ ایسا کرکے جانا ہے کہ اُسے تادیر اور اچھے لفظوں میں یاد رکھا جائے۔ مجروحؔ نے مکیش کی زبانی کہا ہے کہ انسان تو چلا جاتا ہے مگر دنیا میں اُس کے بول رہ جاتے ہیں۔ ''بول‘‘ محض استعارہ ہے۔ شاعر نے کہنا یہ چاہا ہے کہ انسان اپنے تخلیقی جوہر کو بروئے کار لاتے ہوئے جو کچھ بھی کہتا ہے‘ کرتا ہے‘ تخلیق کرتا ہے‘ قائم کرتا ہے‘ وہ سب کچھ اس دنیا میں رہ جاتا ہے‘ یعنی نشانی رہ جاتی ہے۔ انسان کی تخلیق کا ایک بنیادی مقصد یہی تو ہے کہ وہ اپنی نشانی چھوڑے‘ کچھ ایسا کرکے جائے جو اُسے ذہنوں سے محو نہ ہونے دے۔
جینا محض اپنے لیے نہیں ہوتا‘جو صرف اپنے لیے ہو‘ اُسے جینا نہیں کہا جاسکتا۔ یہ تو حیوانی سطح ہے‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حیوانوں میں بھی دوسروں کیلئے کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ ضرور پایا جاتا ہے۔ ایسے میں انسان پر لازم ٹھہرتا ہے کہ صرف اپنے لیے نہ جیے‘ بلکہ دوسروں کا بھلا بھی سوچے؛ اگر سارے گیت خود گائے جائیں‘ اپنے ہونٹوں پر سجائے جائیں تو کون سی انوکھی بات ہوئی۔ مزا تو جب ہے کہ انسان دوسروں کے ہونٹوں کو اپنے گیت بخش دے۔ دنیا میں نشانی چھوڑنے کی یہی ایک صورت ہے۔ اپنے حصے کا کام پورا کرنے کے بعد دوسروں کیلئے بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ خود کو ڈھنگ سے زندہ رکھنے کا یہی ایک موثر طریقہ ہے۔ جو صرف اپنے لیے جیے وہ اگر یاد رکھا بھی جاتا ہے تو اچھے لفظوں میں ہرگز نہیں۔
ہمیں اس دنیا میں اپنی کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ کر جانا ہے۔ ویسے تو خیر اولاد بھی موثر نشانی ہی ہے‘ مگر یہ خالص حیاتیاتی اور فطری معاملہ ہے۔ سلسلۂ تولید برقرار رکھنے کے حوالے سے انسان بھی محض حیوان ہے۔ سلسلۂ تولید کا جاری رہنا کائنات کے خالق کا کرم ہے۔ انسان اسے کسی کارنامے کی حیثیت سے پیش نہیں کرسکتا۔ انسانی نسل کا تسلسل و تواتر انفرادی و اجتماعی سطح پر کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ ہر انسان اپنے تخلیقی جوہر سے کام لیتے ہوئے ‘دنیا کا معیار بلند کرے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے حصے کا کام کرکے جانا ہے‘ جو کچھ ہم انفرادی سطح پر زندگی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں‘ وہ تو اہم ہے ہی‘ اُس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنے کی کوشش کریں؛ اگر ہر انسان اپنی ضرورت کے مطابق باعمل رہنے تک محدود نہ رہے اور دوسروں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرنے پر توجہ دے تو دنیا مزید قابلِ سکونت ہوجائے۔ دوبارہ مِٹّی کا ہو جانے سے پہلے ہمیں دنیا کو اپنے بول دینے ہیں‘ دوسروں کے ہونٹوں کو اپنے گیتوں سے نوازنا ہے‘ کوئی نشانی دینی ہے اور پھر اس دنیا سے ڈولنا ہے؛ اگر بامقصد زندگی گزارے بغیر‘ کچھ کیے بغیر ہی چل دیئے تو آپ کے چلے جانے پر کہا جائے گا ع
آئے بھی وہ‘ گئے بھی وہ‘ ختم فسانہ ہو گیا!