چیف جسٹس جوہن رابرٹس نے اس وقت بھی خاموشی اختیار کیے رکھی‘ جب جون2016ء میںڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارت کے امیدوار تھے۔انہوں نے اپنی یونیورسٹی کیخلاف فیصلہ آنے پر ضلعی عدالت کے جج ''گونزالوپی کروول‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ''مسلمانوں پر امریکی سفری پابندیاں ‘‘ عائد کیں‘ جسے بعد میں امریکی عدالت نے معطل کر دیا اور اعلیٰ عدلیہ پر صدر کی جانب سے تنقید کے نشتردوبارہ برسائے گئے۔چیف جسٹس نے تب بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور کوئی بیان نہ دیا۔اس طرح کئی فیصلوں پر امریکی صدر عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ۔گزشتہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ نے امریکی شہر سان فرانسسکو کے اس جج کو ''صدر اوباما کا جج‘‘ قرار دیا جس نے رواں ہفتے غیر قانونی تارکین وطن سے پناہ کی درخواستیں نہ لینے کی صدر کے احکامات کو کالعدم قرار دے دیاتھا۔سان فرانسسکو کے اس جج جان ٹیگارکو سابق صدر بارک اوباما نے اس عہدے پر نامزد کیا تھا۔صدر کے بیان پر اپنے رد عمل میں چیف جسٹس رابرٹس نے امریکی وفاقی عدلیہ کی آزادی کا دفاع کیا اور امریکی صدر کے اس تاثر کو رد کردیاکہ ''عدالت کے ججز ان صدور کے وفادار ہوتے ہیں ‘جنہوں نے انہیں نامزد کیا ہو‘‘ ۔سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے بیان میں چیف جسٹس نے کہا ''ہمارے پاس اوبامایا ٹرمپ کے جج،بش کے جج یا کلنٹن کے جج نہیں۔ہمارے پاس صرف ایسے غیر معمولی اور اپنے کام سے لگائو رکھنے والے جج ہیں جو اپنے سامنے پیش ہونے والوں کیساتھ یکساں سلوک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیںــ‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ''آزاد عدلیہ ہی وہ چیز ہے‘ جس پر ہم سب کو شکر ادا کرنا چاہیے ـ‘ ‘ ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے یہ بیان امریکی ادارے ـ''دی ایسوسی ایٹ پریس‘‘ کو دیا گیا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ چیف جسٹس رابرٹس نے صدرٹرمپ کے کسی بیان پر یوں سر عام تنقید کی ہے۔امریکہ کی حالیہ تاریخ میں کسی چیف جسٹس کی جانب سے موجودہ صدر کے بارے میں اس نوعیت کے بیان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔امریکی چیف جسٹس کے بیان کے بعد بھی صدر ٹرمپ نے فوری رد عمل دیا اور ان ججوں کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھا دئیے ‘جن کی تعیناتی ان کے پیش رووں کی نامزدگی پر عمل میں آئی۔ امریکی چیف جسٹس کے بیان کے کچھ دیر بعد ہی فلوریڈا میں واقع اپنی تفریحی رہائش گاہ سے کے جانے والے ٹوئٹ میں صدر نے چیف جسٹس رابرٹس کو نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے کہا میں کہ ان کے اس بیان سے متفق نہیں ،ٹرمپ نے لکھا '' حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں میں اوباما کے جج موجود ہیں ‘جن کے نظریات ان لوگوں سے بہت مختلف ہیں‘ جنہیں عوام نے اپنے ملک کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی ہے۔‘‘
صدر نے امریکہ کی مغربی ریاستوں پر مشتمل عدالتی حلقوں ''نائنتھ سرکٹ‘‘ کا نام لے کر کہاکہ اگر اس کے جج واقعی آزاد ہیں‘ تو آخر کیوں سرحد اور سکیورٹی سے متعلق مخالفانہ مقدمات انہی عدالتوں میں دائر کیے جاتے ہیں ؟اور ان میں سے بیشتر مقدمات کا فیصلہ حکومتی اقدامات کے خلاف آتا ہے ؟ صدر نے مزید کہا کہ ان عدالتوں کے ایسے فیصلے امریکہ کو غیر محفوظ کر رہے ہیں‘ جو ان کے بقول ''انتہائی خطرناک اور غیر دانشمندانہ عمل ہے‘‘۔صدر ٹرمپ اس سے قبل کئی بار ضلعی عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ‘مگر یہ پہلا موقع ہے جب چیف جسٹس رابرٹس نے رد عمل ظاہر کیا۔صدر ٹرمپ سے پہلے امریکی صدور کی جانب سے عدالتوں کے ججز کو ذاتی سطح پر تنقید کا نشانہ بنانے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں،اسی طرح کسی چیف جسٹس کی جانب سے صدر کے بیان کے بعد رد عمل کا اظہار بھی امریکہ کی تاریخ میں انوکھی بات ہے۔''نائنتھ سرکٹ ‘‘ کی بیشتر عدالتوں کے جج لبرل خیالات کے حامل بھی سمجھے جاتے ہیں اور اس لیے صدر کے مخالفین ان کی ان پالیسیوں کے خلاف مقدمات انہی کی عدالتوں میں لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔امریکہ میں جج کے کسی نظریے یا رجحان کا حامل ہونا‘ خلاف معمول بات نہیں اور دعوے دائر کرنے والوں کا اپنے خیالات کے حامی سمجھے جانے والے ججوں کی عدالتوں سے رجوع کرنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔
صدر اوباما کے دورِ صدارت میں بھی ان کے مخالفین ان کے احکامات کے خلاف بیشتر مقدمات ٹیکساس اور ملحقہ ریاستوں کے عدالتی حلقوں ''ففتھ سرکٹ ‘‘ میں دائر کرتے تھے‘ جس کے اکثر ججوں کے خیالات قدامت پسندانہ تھے۔اس بات سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ امریکی وفاقی عدالتوں کے ججوں کی نامزدگی کا اختیار صدر کے پاس ہوتا ہے‘جس کی توثیق سینیٹ کرتی ہے ۔ریپلکن اور ڈیموکریٹک دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے صدور کو اپنی جماعت کے نظریات کے حامل ججوں ہی کو تعینات کرتا دیکھا گیا ہے ۔امریکہ میں جج کا نظریاتی طور پر غیر جانب دار ہونا ضروی نہیں سمجھا جاتا‘ لیکن جج بننے کے بعد اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اپنے نظریات کو ایک طرف رکھ کر صرف شواہد کی بنا پر انصاف کرے گا۔فی الوقت توالزام تراشی کا سلسلہ دونوں جانب سے تھم چکا ہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟