دو روز پہلے پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ کراچی کے چینی قونصل خانے پر تین دہشت گرد حملہ آور ہوئے، لیکن پولیس اور رینجرز کی چوکسی نے انہیں ناکام بنا دیا۔ تینوں حملہ آور مارے گئے، دو پولیس اہلکار اور دو شہری شہید ہو گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور قونصل خانے کے اہلکاروں کو یرغمال بنانا چاہتے تھے، لیکن وہ دہلیز ہی پر دھر لئے گئے۔ اسے پولیس کی ایک بڑی کامیابی گردانا گیا کہ بڑی تباہی سے محفوظ رہ گئے۔ اگر چینی اہلکاروں کو نقصان پہنچ جاتا یا اُنہیں یرغمال بنا لیا جاتا تو اس کے اثرات پوری قوم کے اعصاب کو بری طرح متاثر کرتے، لیکن ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جنہوں نے اس اظہارِ اطمینان پر تعجب کا اظہار کیا۔ اُن کی یہ بات بے وزن نہیں کہ کسی ایک جان کے نقصان کو بھی کم تر نقصان قرار دے کر سکون کی گولی نہیں کھائی جا سکتی۔ مثالی صورتِ حال تو یہی ہے کہ ہمارے حساس ادارے اِس قدر چوکس ہوں کہ ایسی کسی بھی کارروائی کا منصوبہ بنتے ہی بھنک ان کے کانوں میں پڑ جائے... لیکن جو کچھ کراچی میں پیش آیا، اسے قانون نافذ کرنے والوں کی یکسر ناکامی بہرحال نہیں کہا جا سکتا، وہ انتہائی تیز رفتاری سے جائے واردات پر پہنچے اور حالات پر قابو پا لیا۔ خاتون اے ایس پی سہائی عزیز تالپور نے اس موقع پر جس قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا، اسے بھی مُلک بھر میں سراہا جا رہا ہے، ان کے لئے قائد اعظم پولیس میڈل کی سفارش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ پولیس کی وردی پہنتے ہی خوف دور ہو جاتا ہے تو سننے والے اُن کی بلائیں لینے پر مجبور ہو گئے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کالعدم تنظیم بی ایل اے (بلوچستان لبریش آرمی) نے اِس واردات کی ذمہ داری قبول کر لی، اور ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے ناموں کی تصدیق بھی ہو گئی۔ کہا جا رہا ہے کہ ان تینوں کے نام ''مسنگ پرسنز‘‘ کی اُس فہرست میں درج تھے، جو ریاستی اداروں کو پیش کی جاتی رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بات زیر بحث ہے، اور اِس حوالے سے ''مسنگ پرسنز‘‘ کے بارے میں مختلف تنظیموں کی جاری کردہ فہرستوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ غائب ہونے والے تمام افراد کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کی بڑی تعداد دہشت گرد تنظیموں کے ہتھے چڑھ چکی ہے، اور ان کے آلۂ کار کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اِس حملے کا ماسٹر مائنڈ اسلم اچھو نامی ایک بڑا دہشت گرد ہے، جو سبّی حملے میں زخمی ہونے کے بعد بھارت فرار ہو گیا تھا، اور اب وہاں کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ حساس اداروں پر لازم ہے کہ اِس حوالے سے مزید مصدقہ تفصیلات فراہم کریں کہ اس کے نتائج انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسے ناقابلِ تردید شواہد سامنے لائے جاتے ہیں، تو چین کی حکومت کو بھی اس کا نوٹس لینا ہو گا۔ بھارتی سرزمین پر بیٹھ کر چینی سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ بندی ایک بڑا سفارتی بحران پیدا کر سکتی ہے۔
کسی بھی مُلک میں قائم کوئی بھی غیر ملکی سفارت خانہ، متعلقہ مُلک کی سرزمین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پر حملہ اُس مُلک پر حملہ تصور ہوتا ہے جس کا سفارت خانہ ہو۔ اگر بھارت میں بیٹھ کر چینی قونصل خانے کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، تو اِسے بھارتی خفیہ اداروں کی کارستانی قرار دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں کراچی کے چینی قونصل خانے پر حملہ پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف بھی ایک بڑا جارحانہ اقدام ہے۔ بھارت اور چین کے تعلقات پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے حساس اداروں کو اچھو کے بھارت میں زیر علاج ہونے کی خبر کو ہوا میں چھوڑ کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے، اس کے مضبوط شواہد اکٹھے کرنے چاہئیں، تاکہ بھارت پر سفارتی دبائو میں اضافہ ہو، اور مستقبل میں ایسی کسی منصوبہ بندی سے پہلے وہ ہزار نہیں لاکھ بار سوچے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اِس حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے، اُسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ارشاد ہے کہ ان کے حالیہ دورۂ چین کے دوران میں بعض ایسے معاملات طے پائے تھے، اور پاکستان کو ایسی معاونت حاصل ہونا تھی، جس کی تفصیلات کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ بقول ان کے، اُن کا یہ خیال تھا کہ اس کا رد عمل ضرور ہو گا، لیکن اس قدر جلد اس طرح کی واردات ہو گی یہ انہوں نے نہیں سوچا تھا۔ وزیر اعظم نے کمال ''معصومیت‘‘ سے اپنے دورے کو تاریخی قرار دے کر، اسے کراچی حملے سے جوڑ دیا ہے۔ اس سے جہاں ہمارے دشمن کی مستعدی کا تاثر پھیلا ہے، وہاں بھارت کی طرف انگلی بھی اُٹھی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کو یہ معاملہ ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا چاہیے، اور بھارت کے ساتھ اس کے تعلق کو واضح تر کر گزرنا چاہئے، اگر بھارت دہشت گردی کا دائرہ چین تک پھیلانا چاہتا ہے، تو پھر اس کی قرار واقعی سزا بھی اُسے بہرصورت ملنا چاہیے۔ بیجنگ اور اسلام آباد کو اس کے لیے سر جوڑنا ہو گا۔
لوئر اورکزئی میں دھماکہ
اسی روز لوئر اورکزئی میں بھی ایک مدرسے کے باہر بم دھماکہ ہوا، جس میں 39 افراد شہید اور 55 زخمی ہو گئے۔ املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس دھماکے کا تعلق افغانستان سے جوڑا جا رہا ہے۔ اسے طالبان کے کسی گروپ کی کارروائی قرار دینے والے بھی موجود ہیں، لیکن مبصرین کی بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ افغانستان میں یکے بعد دیگرے ہونے والے کئی دھماکوں اور ان میں ہونے والی ہلاکتوں کا غصہ یہاں نکالا گیا ہے۔ تفصیل جو بھی ہو، اس دھماکے کا افغانستان کے داخلی امور سے تعلق ناقابلِ تردید ہے۔ ہمارے اداروں کو انتظامی اور سفارتی دونوں سطح پر کارروائی کو تیز کرنا ہو گا، کہ اس طرح کی وارداتوں کو کم سے کم کرنے کا اس کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
تحریک لبیک کے خلاف کارروائی
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے قائدین اور کارکنوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، اور ان میں سے کئی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اطلاع دی ہے کہ مولانا خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ تحریک لبیک کے رہنمائوں نے 25 نومبر کو احتجاج کی کال دے رکھی تھی، اور سوشل میڈیا پر چلنے والے پیغامات کے ذریعے پورے مُلک کو بند کرنے کی ہدایات دی جا رہی تھیں۔ لیاقت باغ میں اجتماع کے بعد فیض آباد میں دھرنے کا پروگرام بھی بنایا گیا تھا۔ آئین اور قانون کے دائرے میں ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کو سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق حاصل ہے، لیکن قانون کو ہاتھ میں لے کر شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے، اور شاہراہوں کو بند کرنے کا جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک لبیک کے رہنمائوں پر لازم ہے کہ وہ ریاست کو چیلنج کرنے کے بجائے پُرامن انداز میں اپنا نقطہ نظر واضح کریں۔ طاقت کا استعمال پسندیدہ نہیں ہے، نہ ہی اس پر اظہارِ مسرت کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں جن عناصر نے بھی یہ راستہ اختیار کیا، انہوں نے اپنی منزل کھوٹی کی، اسلامیانِ پاکستان کو اِس سوراخ سے ایک بار پھر ڈسنے کی نہ کوشش کی جانی چاہیے، نہ اس کی اجازت دی جانی چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)