حکومت دینی تعلیم کا بندوبست کیوں نہیں کرتی؟عصری علوم برحق مگروہ ہمارے بچوں کو قرآن کریم‘ سیرت اور حدیث پڑھانے کا اہتمام کیوں نہیں کرتی؟ اسے فرقہ پرست ملّا پہ کیوں چھوڑ دیا‘ جس کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا:
میں جانتا ہوں انجام اُس کا
جس معرکے میں ملّا ہوں غازی
انٹلی جنس بیورو کے نیک نام سربراہ نے اخبار نویس سے کہا: کابل شہر کی اس گلی اور گھر کا نقشہ میںبنا سکتا ہوں‘ ریاض بسرا‘ جس میں مقیم ہے۔ طالبان سے کئی بار ہم نے درخواست کی‘ ایک عشرہ ہوتا ہے مگر وہ اسے حوالے کرنے پہ آمادہ نہیں۔ بے شمار بے گناہوں کا قاتل‘ ان کی پناہ میں تھا‘ جن کے بارے میں دعویٰ یہ تھا کہ صحابہ کا دور‘ ان کے دم قدم سے واپس آ گیا ہے۔
یہ واقعہ آج اس معتبر اخبار نویس نے مجھے سنایا۔ انہی دنوں کالم نگار جاوید چوہدری کے ہمراہ میں عمرہ کرنے گیا۔ حرم کے بابِ فہد کے سامنے‘ اس مکتبِ فکر کے ایک سیاسی رہنما سے اچانک ملاقات ہوئی۔ بہت بشاشت کے ساتھ اس نے بتایا کہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے ‘ طالبان کے فلاں وزیر سے ان کی ملاقات ہوئی۔ عرض کیا کہ ریاض بسرا اور ان کے ساتھی‘ افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔ان سے کہیے کہ ایسے لوگوں کی سرپرستی نہ کریں۔ مولانا میرے دیرینہ دوست اور پڑوسی رہ چکے تھے ۔ آنکھیں چار نہ کر سکے۔ کہا تو یہ کہا: طالبان کہتے ہیں کہ مذہبی فرقہ پرست‘ ہماری اجازت کے بغیر در آتے اور چھپ کر بسر کرتے ہیں۔چھپ کر؟
اللہ کے گھر کے سامنے ہم کھڑے تھے‘ چودہ سو برس پہلے‘ جہاں اللہ کے آخری رسولﷺ نے مشرکین مکّہ سے کہا تھا '' آج تم سے کوئی باز پرس نہیں‘‘۔ وہی بات جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی۔ مشرکین مکّہ وہ تھے‘ جنہوں نے رحمۃ للعالمین کو شہید کرنے کی بار بار کوششیں کیں۔ ان کا بس چلتا تو ایک بھی مسلمان کو زندہ رہنے نہ دیتے۔تاریخ ِ انسانی کے بدترین لوگ۔نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً سب کے سب مسلمان ہو گئے۔آخر کار وہ بھی معاف کر دئیے گئے ‘جن کے بارے میں خود سرکارؐکا ارشاد یہ تھا:کعبہ کے پردوں کے پیچھے ہوں‘تب بھی قتل کر دئیے جائیں۔
مذہبی فرقہ واریت کبھی اس عروج کو پہنچتی ہے کہ مخالف مسلک سے مشرکین سے بھی بدترین سلوک کرنے پہ تل جاتی ہے۔تین برس ہوتے ہیں ایران کی ایک اہم شخصیت نے کہا تھا:عرب حکمران مشرکینِ طائف سے بھی بدتر ہیں۔مشرکین سے بھی بدتر؟ کسی ایک نہیں‘ تمام مکاتبِ فکر کا حال یہی ہے ؛ اگرچہ بعض زیادہ منظم ہیں اور بڑے بڑے عظیم ''کارنامے‘‘ انہوں نے انجام دیئے۔بعض نے پاکستان میں‘ بعض نے ایران توران میں ۔
سب کے سب قصور وار ہیں‘ ہم سب۔ عسکری قیادت‘ ایک کے بعد برسراقتدار آنے والی دوسری حکومت‘ علمائِ کرام‘ سیاسی پارٹیاں‘ فعال طبقات اور مولویوں سے خوف زدہ رہنے والا میڈیا۔ الطاف حسین نے برسوں جسے یرغمال بنائے رکھا‘ تاآنکہ ان کا یومِ حساب آ پہنچا۔
مذہبی انتہا پسندی کی جڑ‘ فرقہ پرستی ہے۔ ہر انتہا پسند دراصل فرقہ پرست ہوتا ہے‘ تنگ نظر اور خود پسند بھی۔
بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست نے مدارس اور مساجد کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ انہی کو کیا قانون دانوں کو بھی کہ ججوں کو یرغمال بنائیں۔ تاجروں کو بھی کہ سیاسی جماعتوں کو چندہ دیں اور ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیں۔ بہت دن تک میڈیا کو بھی کہ جہاں اور جنہیں چاہیں بلیک میلنگ کرتے رہیں۔
ریاست جب قانون نافذ نہیں کرتی تو جتھّے جنم لیتے اور من مانی کرتے ہیں۔ ریاست تبھی قانون نافذ کر سکتی ہے‘ حکمران جب خود قانون کی پیروی کریں۔
حکومتوں نے ‘ بالخصوص فوجی حکومتوں نے ایک کے بعد دوسرے مکتبِ فکر کی سرپرستی فرمائی ہے۔ موجودہ عسکری قیادت اور حکومت کا روّیہ مختلف ہے مگر اتنی سکت ان میں بھی نہیں‘اتنا تدبرّ ان میں بھی نہیں کہ دیر پا منصوبہ بندی کا ایک جامع منصوبہ تشکیل دے سکیں۔ ہر حکومت کو اپنے تحفظ کی فکر لاحق ہوتی ہے... اور ''دشمن‘‘ کو خاک چٹانے کی۔ کچھ حکمران لاہور کا شاہی قلعہ آباد کرتے رہے۔ پھر جمہوریت کے وہ علمبردار نمودار ہوئے‘ اربوں‘ کھربوں جمع کرنے کے باوجود بھی جن کی پیاس نہیں بجھتی۔ ان میں سے بعض غیر ملکیوں سے رہ و رسم رکھتے ہیں۔ جناب عمران خان کے ذہن پر کرپشن کا بھوت سوار ہے۔ معیشت بعد میں سنواری جائے گی‘ سول ادارے پھر کبھی تعمیر کر لئے جائیں گے۔ اوّل اپنے مخالفین کو سپرد خاک کر لیا جائے۔ ارے بھائی‘ سب کام ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ارے بھائی ترجیحات طے کرنا ہوتی ہیں۔
بڑی تصویر جو لوگ نہیں دیکھ سکتے وہ ترجیحات طے نہیں کر سکتے۔جو ترجیحات طے نہیں کر سکتے‘ ان کے نصیب میں فقط مسافت ہو سکتی ہے‘ منزل نہیں۔نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے احتساب سے کیا حاصل کر لیا تھا کہ کپتان کرلے گا؟
مشکل یہ ہے کہ گروہوں کے گروہ جب بخار میں مبتلا ہو جائیں تو بستیوں سے دانش ہجرت کر جاتی ہے‘ بصیرت منہ چھپا لیتی اور حکمت کا کہیں نام و نشان تک نہیں رہتا۔ بس پستول بردار فیصل واوڈا رہ جاتے ہیں یا اداکاری کے جوہر دکھانے والے فواد چوہدری۔ قائداعظم کے بعد ہماری ہر حکومت فیصل واوڈائوں اور فواد چوہدریوں پر مشتمل رہی ... اور ایک آقا ئے ولی نعمت۔ ظلِ الٰہی‘ جس کی شان میں گستاخی کرنے والے مردود ٹھہرتے ہیں۔ عمران خان تو رہے ایک طرف‘ خواہ وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری ہی کیوں نہ ہوں ... پہلے زندانوں میں ڈالے جاتے تھے‘ اب تین حربے ہیں‘ گالی‘ الزام تراشی اور طعنہ زنی۔
یہ دنیا کا واحد ملک ہے‘ جہاں مسجد کا نیم خواندہ خطیب اور مدرسّے کا ملّا آزاد ہے۔ اخبار نویس اور سیاستدان مادر پدر آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے‘ جہاں دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے کردار کشی کے لیے میڈیا سیل قائم کر رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک کا سربراہ اپنے ہر خطاب کا آغاز ''ایّاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ سے کرتا ہے۔
انگریزوں نے مولویوں کو مار ڈالا اور خرید کر ناکارہ کر دیا۔ جہاں تک فسادیوں کا تعلق ہے‘ ایک طیب حکومت خریداری تو نہیں کرے گی ‘لیکن قاتلوں کو وہی معاف کر سکتے ہیں ‘ جن کا احساس اور ضمیر مردہ ہو۔امن قائم کرنے اور قانون نافذ کرنے میں ریاستیں ناکام کیوں ہو جاتی ہیں؟ عدم استحکام سے اقوام طوائف الملوکی تک کا سفر کیسے طے کرتی ہیں۔ عراق‘ شام اور لیبیا کیسے بن جاتی ہیں؟
ہر معاشرے کو شکایات کے ازالے کا ایک نظام درکار ہوتا ہے۔موثر عدالت‘فیصلہ کن پولیس‘ ایک متفقہ آئین‘ جس کے ایک ایک حرف پہ عمل کیا جائے۔ شکایت کا تدارک نہ ہو تو غیبت جنم لیتی ہے۔ بڑھ کر بغض و عناد میں ڈھلتی ہے۔ جتھّے داری کا عمل‘ اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ جتھّے بن جائیں اور طاقت ور ہوتے چلے جائیں تو انارکی‘ شام‘ لیبیا‘ عراق‘ افغانستان!
کسی نیم خواندہ آدمی کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ منبرِ رسولﷺ پہ کھڑا ہو کر خطبہ دے؟ فرقہ پرست ملّا کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ اپنے لاچار طلبہ کو آموختہ پڑھاتا رہے۔ ان کی نگرانی کرنا ہوگی‘ جس طرح کہ ساری دنیا میں ہوتی ہے۔ انہیں قانون کا پابند کرنا ہوگا‘ جس طرح ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ ورنہ ایک فرقہ پرست گروہ کے بعد دوسرا انتہا پسند گروہ نمودار ہوتا رہے گا۔
یہ کام وہی حکومت کرے گی جو سیاستدانوں‘ اخبار نویسوں ‘ تاجروں اور وکیلوں پہ قانون نافذ کر سکتی ہو۔ جس کی پولیس بے رحم اور سفاک نہ ہو۔ جس کی عدلیہ سفارش اور رشوت سے پاک ہو۔ جس کے جج بیس بیس برس تک مقدمات لٹکائے نہ رکھیں۔کبھی کسی معاشرے میں جزیرے تعمیر نہ کیے جا سکے۔کبھی نہ کئے جا سکیں گے۔
حکومت دینی تعلیم کا بندوبست کیوں نہیں کرتی؟عصری علوم برحق ‘وہ ہمارے بچوں کو قرآن کریم‘ سیرت اور حدیث پڑھانے کا اہتمام کیوں نہیں کرتی؟ اسے فرقہ پرست ملّا پہ کیوں چھوڑ دیا‘ جس کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا:
میں جانتا ہوں انجام اُس کا
جس معرکے میں ملّا ہوں غازی