مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے درمیان انتخابی مفاہمت کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔اس مقصد کے لئے دونوں جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی کوئی پیش رفت نہیں کرسکی۔اس میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے حمزہ شہباز،خواجہ سعد رفیق اور سردار ایاز شامل تھے، جبکہ جماعت اسلامی نے امیر العظیم، میاں مقصود اور نذیر جنجوعہ کو نامزد کررکھا تھا۔ان حضرات کو پرویز ملک، زعیم قادری اور ڈاکٹر وسیم صاحبان کی معاونت بھی حاصل رہی، لیکن کم و بیش ایک ماہ تک جاری رہنے والی یہ کاوش اس نتیجے پر پہنچی کہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی تیرہ اور صوبائی اسمبلی کی چھبیس نشستوں کا مطالبہ کیا تھا، لیکن وہ اس پر بضد نہیں تھی۔ایک ایک نشست پر بحث کے ذریعے استحقاق ثابت کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو مشکلات درپیش ہوگئیں۔خواجہ سعد رفیق نے لیاقت بلوچ سے ملاقات کی اور ان کے سامنے دبے دبے الفاظ میں یہ صورت حال رکھ دی کہ مسلم لیگ(ن) پر اس کے اپنے امیدواروں کا دبائو اتنا زیادہ ہے کہ کسی دوسری جماعت کو دینے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔لیاقت بلوچ نے ان سے گزارش کی کہ وہ خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں بلاتکلف یہ رائے ظاہر کردیں، تاکہ ابہام ختم ہو جائے۔خواجہ صاحب نے ایسا ہی کیا اور اب دونوں جماعتوں کے انتخابی راستے الگ الگ ہوچکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی لاہور میں قومی کی تین نشستوں کی خواہش رکھتی تھی، مسلم لیگ(ن) لاہور کی اکثر نشستوں کو اپنی جیب میں پڑی ریزگاری سمجھتی ہے،اسے یہ ’’قربانی‘‘ دینا گوارا نہ ہوا۔ بات چیت آگے بڑھتی تو شاید لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید پراچہ پر اکتفا کرلیا جاتا، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ اسے بھی بھاری پتھر سمجھا جارہا تھا۔ایک تجویز یہ زیر غور ہے کہ دونوں جماعتوں کے بڑے رہنمائوں کے مقابلے میں کوئی مخالف امیدوار کھڑا نہ کیا جائے، ایسا ہوگیا تو میاں نوازشریف، شہبازشریف کے ساتھ ساتھ لیاقت بلوچ اور جماعت کے ایک دو دوسرے رہنمائوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور جماعت اسلامی کے درمیان قربتوں اور فاصلوں کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور افسوسناک بھی۔دونوں جماعتوں نے ماضی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے بہت کچھ حاصل کیا ہے تو ایک دوسرے سے لڑ کر بہت کچھ گنوایا بھی ہے۔جب مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان محاذ آرائی زوروں پر تھی اور دونوں جماعتوں کے ووٹ بنک کم و بیش یکساں تھے، دو دو تین تین ہزار کے فرق سے امیدوار جیت یا ہار سکتے تھے تو اس وقت جماعت اسلامی کی افادیت کے بارے میں دورائیں نہیں ہو سکتی تھیں۔ نوّے کی دہائی میں جماعت اسلامی کا ووٹ بنک مجموعی ووٹوں کے پانچ تا دس فیصد کے قریب سمجھا جاتا تھا۔درجنوں حلقوں میں اس کے پانچ سے لے کر دس ہزار ووٹ موجود تھے۔اگر 1988ء اور اس کے بعد کے دو، تین انتخابات کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔اس وقت جماعت اسلامی نے مسلم لیگ(ن) کے حق میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا اور اسے آگے بڑھنے میں آہنی بیساکھیاں فراہم کیں۔اگر جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ن) کا مشترکہ سفر جاری رہتا تو کہاجا سکتا ہے کہ جماعت آج قومی کی تیرہ نشستوں سے بھی زیادہ کی طاقت ہوتی لیکن درمیان میں الجھائو پیدا ہوتے رہے اور اس میں جماعت نے خسارہ اُٹھایا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں دیس نکالا دیا گیا تو 2002ء کے انتخابات سے پہلے متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی۔قاضی صاحب کی بے تابیوں نے انہیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے حق میں اُکسا دیا۔امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان پر حملہ آورہوئی تھیں۔پرویز مشرف امریکہ کی جھولی میں بیٹھ گئے تھے، رائے عامہ (خصوصاً خیبر پی کے میں) مشتعل تھی، ایسے میں تمام مذہبی جماعتوں نے متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دیا تو یہ توجہ کا مرکز بن گیا۔قاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن، علامہ ساجد نقوی، پروفیسر ساجد میر، مولانا شاہ احمد نورانی کی صدارت میں یک جا ہوگئے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تمام مسالک کے ’’مولوی صاحبان‘‘ مل کر الیکشن لڑ رہے تھے۔ 2002ء کے انتخابات میں جہاں خیبر پی کے کی حکومت اس اتحاد نے حاصل کرلی، وہاں قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت اس کے ہاتھ میں آ گئی۔پہلی بار پارلیمنٹ میں ایک بڑے گروپ کے طورپر مذہبی جماعتوں نے اپنے آپ کو منوایا۔مولانا شاہ احمدنورانی رخصت ہوئے تو اتحاد کا رنگ بھی اُڑنے لگا۔یہاں تک کہ جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام نے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ لگا لیا۔2008ء کا انتخاب اس شان کے ساتھ لڑا گیا کہ جماعت اسلامی بائیکاٹ کیے بیٹھی تھی اور مولانا فضل الرحمن یکا و تنہا میدان میں تھے۔ان کے کئی امیدوار چند ہزار تو کیا چند سو ووٹوں سے ہار گئے۔اس کے باوجود انہوں نے خیبر پی کے کی اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت حاصل کرلی۔ اگر ایم ایم اے نہ ٹوٹتی تو خیبر پی کے میں آج بھی اس کی حکومت ہوتی…وکی لیکس نے ہمیں اس بات سے آگاہ کردیا ہے کہ خیبر پی کے میں ’’مولویوں‘‘ کی حکومت قومی اور بین الاقوامی طور پر مقتدرعناصر کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی، ایم ایم اے کے انتشار میں ان کے لئے عافیت کا سامان تھا، سو یہ فراہم کردیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن اور(موجودہ امیر جماعت اسلامی) سید منور حسن بھی ان فاصلوں کو کم نہیں کر سکے جو قاضی حسین احمد کی امارت کے دوران پیدا کردیئے گئے تھے۔ دونوں نے نئے اتحادیوں کی تلاش شروع کردی، مولانا کی طرف بھی مسلم لیگ(ن) متوجہ ہوئی، لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات… جماعت اسلامی نے پاکستان تحریکِ انصاف پر بھی دروازے کھلے رکھے، لیکن اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔اب مولانا فضل الرحمن بھی تنہا ہیں اور جماعت اسلامی بھی تنہا ہو چکی ہے۔اپنے اپنے بل پر اپنی اپنی تقدیر سے کھیلنا دونوں کی مجبوری بن گیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے زعماء کا خیال ہے کہ حریفوں کے مقابلے میں اس کا ووٹ بہت بڑھ گیا ہے، اس لئے، تین چار، پانچ، سات ہزار ووٹ اس سے نتیجہ نہیں چھین سکتے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے متوالے اپنی سونامی میں گم ہیں۔وہ اپنے کھمبوں کو جیتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔جماعت اسلامی کا ووٹ بینک ان کو بھی اپنے راستے کی دیوار بنتا نظر نہیں آ رہا۔جماعت اسلامی کے پاس کئی حلقوں میں مضبوط امیدوار موجود ہیں، جمعیت العلمائے اسلام کی طاقت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ جمعیت العلمائے پاکستان نے بھی درجنوں امیدوار کھڑے کردیئے ہیں، ان سب جماعتوں کے رہنمائوں کو غور کرنا چاہیے کہ اگر وہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر اپنے وزن کا احساس تو دلا سکتے ہیں۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved