ریکارڈ کی درستی
مسمی ایم ابراہیم خان بالعموم اپنے کالم کو اشعار سے سجاتے ہیں اور جو اکثر اوقات‘ بلکہ ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے اپنے کالم بعنوان ''کوئی نشانی چھوڑ پھر دنیا سے ڈول‘‘ میں کم و بیش نو شعر درجے کیے ہیں ‘جن میں سے یہ شعر : ؎
دُوجے کے ہونٹوں کو دے کر اپنے گیت
کوئی نشانی چھوڑ پھر دنیا سے ڈول
جو صرف ایک لفظ کی وجہ سے خارج از وزن ہو گیا ہے‘ جو لفظ ''کوئی‘‘ ہے ‘جبکہ اس کی بجائے مصرعہ اس طرح ہونا چاہیے تھا:ع
کچھ نشانی چھوڑ پھر دنیا سے ڈول
لُطف یہ ہے کہ یہی ناقص مصرع ‘انہوں نے اپنے کالم کا عنوان بھی بنایا ہے!
درستی در درستی
خاکسار نے اپنے پرسوں والے کالم میں لفظ ''کسب‘‘ کے وزن پر بات کرتے ہوئے کسب بینک کی بھی مثال دی تھی‘ جو انگریزی میں KASB لکھا جاتا ہے‘ لیکن ملتان سے برادرم خالد مسعود خان نے فون پر بتایا ہے کہ یہ نام اس بینک کے مالک (اگر مجھے ٹھیک یاد ہے) خادم علی شاہ بخاری کے نام کے مخفف سے کام لے کر بنایا گیا ہے۔ بہت شکریہ خان صاحب!
تھوڑی سی مزید درستی
ہمارے دوست ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے پچھلے دنوں اپنے کالم ''حکم اذاں‘‘ میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے : ؎
کس کس کو یاد کیجیے کس کس کو رویئے
آرام بڑی چیز ہے مُنہ ڈھک کے سویئے
اس کا دوسرا مصرع بے وزن ہو گیا ہے‘ یعنی صرف ایک لفظ کے آگے پیچھے ہونے سے۔ اصل مصرع شاید اس طرح ہوگا: ع
آرام چیز ہے بڑی مُنہ ڈھک کے سویئے
صبا اکرام:ہی یا شی؟
آرٹس کونسل آف پاکستان ‘کراچی کے زیراہتمام اُردو کانفرنس کی ایک رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ معروف شاعرہ صبا اکرام نے ''پاکستان میں جدید نظم کے چند اہم نام‘‘ کے موضوع پر مقالہ پڑھا۔ ہم تو صبا اکرام صاحب کو ہی جانتے ہیں‘ جن کے ساتھ فون پر کبھی کبھار رابطہ بھی رہتا ہے کہ وہ جناب شمس الرحمن فاروقی کے دوست ہیں اور ان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔میں نے فاروقی صاحب کو اپنی کوئی کتاب بھجوانی ہو تو بالعموم اُنہی سے درخواست کرتا ہوں ‘جبکہ ان کی آواز بھی خاصی مردانہ ہے۔ اب یا تو یہ پرنٹ کی غلطی ہے‘ جس میں اچھے بھلے صبا اکرام کو شاعرہ بنا دیا گیا ہے یا صبا اکرام نامی کراچی میں واقعی کوئی شاعرہ بھی ہیں ‘کیونکہ لفظ ''صبا‘‘ تو یقینا مونث ہے اور اگر صبا اکرام واقعی کوئی خاتون (شاعرہ) بھی ہوں تو ہمارے دوست کو چاہیے کہ اپنے نام کے ساتھ بریکٹ میں مرد ضرور لکھوایا کریں‘ جبکہ خاتون صبا اکرام بھی اپنے نام کے ساتھ خاتون لکھوایا کریں‘ تاکہ خواہ مخواہ مغالطہ پیدا نہ ہو۔
باندر ٹوپی
مُبارک ہو کہ باندر ٹوپی بالآخر دستیاب ہو گئی ہے اور وہ بھی لاہور ہی سے‘ کیونکہ عزیزی جاوید اسلام نے اندازہ لگایا کہ یہ قدیم شہر کی کسی دکان سے مل سکتی ہے اور اُن کا اندازہ سو فیصد درست رہا۔ سب سے پہلے اسے پہن کر دیکھا کہ ہم اسے پہن کر کہیں بندر تو نہیں لگ رہے۔ آئینہ منگوا کر بغور دیکھا تو کچھ زیادہ نہیں لگ رہے تھے‘ جس سے تسلی ہوئی۔ اسے پہن کر صرف آنکھیں‘ ناک اور ہونٹ نظر آتے ہیں‘ اس لیے اس کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر شکل و صورت اچھی نہ ہو تو کافی بچت ہو جاتی ہے۔ اسے پہن کر ایک تو اپنا یہ شعر یاد آیا ؎
نانِ جویں پہ نام ہمارا بھی تھا‘ مگر
تقسیم کے لیے کوئی بندر بٹھا دیا
اس کے علاوہ پورا بندر نامہ‘ یعنی اپنا مجموعہ ہے ''ہے ہنومان‘‘ جس کے بارے میں ہمارے کرم فرما جناب گوپی چند نارنگ نے کہا تھا کہ ظفر اقبال کی ''ہے ہنو مان‘‘ اس صدی کی سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والی کتاب ہوگی‘ لیکن ہم نے ان سے اس کی تصدیق کرنا چاہی ‘تو نہ وہ اقرار کر سکے‘ نہ انکار۔ لطف یہ ہے کہ اس پر کوئی کام ہی نہیں ہوا‘ اگلے روز پروفیسر امجد شاکر نے فون پر بتایا کہ انہوں نے اس کتاب پر ایک مبسوط مضمون لکھا ہے‘ جو ''ادبِ لطیف‘‘ میں چھپا ہے۔ اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
رابطہ کوئی نہ کچھ عرض گزاری رہے گی
غیر مشروط محبت ہے یہ‘ جاری رہے گی
بیٹھ جائے گی بالآخر مری اُڑتی ہوئی خاک
اور کچھ روز یہی گرد و غباری رہے گی
بدسلوکی تری مجھ پر اثر انداز نہیں
کچھ دنوں تک مری آواز ہی بھاری رہے گی
ہجر کا رنگ ہی چھائے گا نہ دُوری کی ہوا
کیفیت اور ہی کوئی یہاں طاری رہے گی
اسی مستی میں گزر جائے گی یہ عمر تمام
مئے نایاب ہے جو اس کی خماری رہے گی
حسرت و یاس کے یہ پھول کھلیں گے ہر سو
میرے گلشن میں تری بادِ بہاری رہے گی
اپنے اپنے ہی شب و روز میں اُلجھے رہیں گے
فرصتِ شوق نہ میری نہ تمہاری رہے گی
آپ ہی جانتے ہیں کیا ہے بُرا‘ کیا اچھا
طبع اپنی تو یونہی عقل سے عاری رہے گی
نا امیدی نہیں روکے گی مری راہ‘ ظفرؔ
کبھی آئے کہ نہ آئے‘ مری باری رہے گی
آج کا مطلع
اس کا ایماں ہی پائیدار نہیں
آپ کا جو گناہ گار نہیں