تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-11-2018

جب میں تھانیدار بنوں گا…!

عنوان تو میں نے اپنی اس تحریر کا '' میرا پہلا کالم‘‘ رکھنا تھا‘ لیکن ادھر ادھر سے ہوتے ہوئے کچھ بیرونی ممالک کے اداروں سے تعلق رکھنے والے چالباز قسم کے خوشامدیوں اور موقع پرستوں نے تحریک انصاف میں بڑے بڑے عہدے اور مفادات بھنبھوڑتے ہوئے عمران خان اور تحریک انصاف سے میرے جیسے مخلص کچھ ساتھیوں سے کچھ ایسی چالبازیاں شروع کر دی ہیں کہ جس نے ایک پرانی کہاوت یاد کروا دی کہ کس طرح ایک مجبور اور محنت کش ماں نے بڑے ہی لاڈ ‘ پیار سے اپنے اکلوتے بیٹے کی پرورش شروع کی‘ پرائمری سکول سے میٹرک اور پھر کالج کی سطح تک اس کے وہ وہ لاڈ اٹھائے کہ دنیا بھی تسلیم کرنے لگی کہ دیکھو اپنی دوسری شادی کرنے کی اجازت کے با وجود ‘یہ اتنی تنگدستی کے ہوتے ہوئے‘ کس محنت اور لگن سے اپنا پیٹ کا ٹ کاٹ کر اپنے بچے کے مستقبل کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔
ایک دن جب ماں اپنے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوئے اسے کہنے لگی: پتر میرا دل چاہتا ہے کہ میرا لاڈلا بیٹا‘ پڑھ لکھ کر تھانیدار بنے‘ تو اس پر بیٹے نے ماں کی جانب اکڑ سے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا '' ماں اگر میں تھانیدار بن گیا‘ تو سب سے پہلے تمہیں لتر ماروں گا‘‘۔ یہ کہاوت مجھے تحریک انصاف کے ایسے تمام لوگوں اور ورکروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سلوک سے یاد آ گئی ‘جو ا پنی چالبازیوں سے تحریک انصاف اور عمران خان کے ہر معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لینے والا چوہدری ٹولہ کر رہا ہے ۔ چوہدری ٹولہ ایسے صحافیوں اور لکھنے والوں کے ساتھ‘ جنہوں نے دس بارہ سال مسلسل آصف علی زرداری اور پھر پنجاب اور مرکز میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے وسیع دستر خوان سے فیض یاب ہونے کی بجائے عزت اور وقار کے عمران خان کے ویژن کو پروموٹ کرنے اور اس کے مخالفین کی ٹی وی کی سکرینوں اور اخباری صفحات کے ذریعے کی جانے والی یلغاروں کا اپنی پوری طاقت سے دفاع کیا۔ ان سب سے چوہدری ٹولہ اس ہمت جرأت اور خلوص نیت سے کی جانے والی کوششوں کا یہ کہتے ہوئے انتقام لینا شروع ہو گیا ہے کہ خبردار! اگر آج کے بعد تم نے عمران خان اور تحریک انصاف کے حق میں کوئی ایک بھی لفظ لکھنے اور بولنے کی ہمت اور جرأت کی۔۔۔!
کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ کسی خاص ہدایت پر عمران خان کے گرد چوہدری ٹائپ لوگ‘ جنہیں ادھر ادھر بھاگنے کی عادت ہے‘ تحریک انصاف کے اندر ففتھ کالمسٹ‘ کی شکل میں ہر ایسے شخص اور صحافی سے اس بات کا انتقام لینا شروع ہو گیا ہے کہ تم جیسے بیوقوفوں کا یہی علاج ہے کہ تمہارے ساتھ وزیر اعظم ہائوس کے اندر اور با ہر سے ایسا سلوک کیا جائے کہ غصے اور انتقام سے تم عمران خان پر جھپٹ پڑو۔مجھے دیکھو کہاں کہاں سے گھومتے پھرتے موج میلہ کرتے ہوئے تحریک انصاف اور عمران خان کے گرد کھینچے ہوئے حصار کا چوہدری بن بیٹھا ہوں اور ایک تم ہو کہ میرے یہاں آنے سے پہلے میرے ساتھ ہی عمران خان کے نام پر لڑتے جھگڑتے رہے۔ تمہیں یاد ہے‘ زرداری سے فیض یاب ہورہا تھا ‘تو ایک دن شیخ رشید نے جب عمران خان کے جلسے میں کھڑے ہو کر یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری کے خلاف تقریر کی تھی‘ تو میرے ا یک بیان پر تم نے مجھے وٹس ایپ کیا تھا ‘میں تو اسی دن سے تمہارے جیسوں کے خلاف کھول رہا تھااور آج دیکھو! اس وقت میرے خلاف بولنے کی سزا یہی ہے کہ عمران خان کے پاس ایسے لوگوں کو لے کر جا رہا ہوں کہ جب میںمشرف کے ساتھ تو وہ مشرف کی بات کرتے تھے ‘ جب میں زرداری اور پی پی پی کا جیالا بن گیا‘ تو یہ بھی اپنے قبلہ تبدیل کرتے ہوئے میری ہاں میں ہاں ملانے کیلئے جیالے بن گئے ۔اب عمران خان نے اقتدار سنبھالا‘ تو اب وہی میرے ساتھ شامل ہو کر تمہارے جیسے لوگوں کی جگہ بٹھا دیئے گئے ہیں۔
مجھے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے‘ جو میرے ساتھ چلتے رہیں نا کہ تم جیسے لوگوں کی‘ جنہیں عمران خان کا ویژن ہی سب سے ا چھا لگتا ہے۔ میرے ساتھ تو وہی چلے گا‘ جسے میرا ویژن اچھا لگے گا۔ چوہدری صاحب کا دیا گیا طعنہ اور سبق سنا تو ایسے لگا کہ وہ ان تمام لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ جنہوں نے دس برس سے تمام تکلیفوں اور دھمکیوں کے با وجود عمران خان کی حمایت کا سلسلہ جاری و ساری رکھا۔ یہ لوگ‘ جنہوں نے نواز حکومت کی ہر پیش کش کو ٹھکرانے کی غلطی کی‘ ایسے تمام لوگوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہہ رہے ہو کہ تم نے جو دس برس شریف برادران اور آصف زرداری کی ہر پیش کش ٹھکرا تے ہوئے جاہلوںکی طرح اپنا خلوص دکھاتے ہوئے مفت میں عمران خان‘ عمران خان کرتے رہے ہو‘ اب بھی وقت ہے کہ اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے‘ عمران خان کو رگڑا دینا شروع کر دو‘ ورنہ ہم لوگ جو چوہدری ہیں ‘تمہارے جیسے لوگوں کا اس سے بھی برا حال کر دیں گے۔
حکومت میں ایسا منصب رکھنے والا شخص‘ جس کے فرائض میں ہر وقت چاپلوسی کرنا نہیں‘ بلکہ پاکستان اور اس کے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے‘ اسے خبر ہی نہ ہو سکی کہ دشمن اور اس کے ایجنٹ ایس پی طاہر خان داوڑ کے بہیمانہ قتل سے پہلے کس قسم کے بیانات اور رپورٹس سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں اور ان کے اس پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کیلئے کن حقائق کو سامنے لانا ضروری ہے‘ تاکہ ملکی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف میڈیا ور سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے جھوٹوں کا کسی اچھے اور اثر انگیز طریقے سے سد باب کیا جا سکے‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ‘جس کا نتیجہ طاہر خان داوڑ کے جنازے کے موقع پر منظور پشتین ٹولے کی جانب سے دیکھنے اور سننے کو ملا۔وہ لوگ‘ جسے میرے جیسے اس غریب ملک کے لاکھوں ٹیکس گزاروں کی جمع کی ہوئی پائی پائی سے تنخواہیں الائونس اور شاندار سہولتیں میسر ہوں‘ انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ شہید ایس پی طاہر خان داوڑ کے بہیمانہ قتل اور اس سے بھارت افغانستان اور پشتون تحفظ موومنٹ کی ملک کی سکیورٹی فورسزکے خلاف چلائی جانے والی تحریک کو کس طرح ہوا دی جا رہی ہے اور اس کا توڑ کس طرح کرنا ہے؟ اس کیلئے لانگ ٹرم پلاننگ کیسے کرنی ہے؟یہی وجہ ہے کہ اپنی پسند کے لوگوں کو وزیر اعظم عمران خان سے میڈیا ٹاک کروانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یو ٹرن کا نشانہ بنا کر رکھ دیا۔کیا اس بریفنگ میں شریک کسی ایک نے اصل گفتگو بتانے کی کوشش کی ہے؟
وزیر اعظم ہائوس اور اس کے وزراء کو حق پہنچتا ہے کہ وہ عمران خان کے پیغام کی ترجیحات کیلئے دس برس سے مسلم لیگ نواز کے حامی میڈیا کا مقابلہ کرنے والوں کی بجائے کل تک نواز لیگ کی مدح سرائی کرنے والوں کو اپنے ساتھ ملائے‘ لیکن اس کے ساتھ ملکی سالمیت سے متعلقہ معاملات پر بھی عقل و خرد سے کام لیں‘ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مفاد پرستانہ سیا ست کو فروغ دیتے ہوئے‘ ملکی سالمیت کیلئے اس قسم کے گھن چکر لوگ خطرہ ہی نہ بن جائیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ لاکھوں غریب ورکروں اور مڈل کلاس کے نوجوانوں کی دس سال سے دی جانے والی قربانیوں سے کھیلنے والے لوگ عمران خان کے گرد آکٹوپس کی طرح گھیرا ڈال چکے ہیں۔ یہ لوگ جو مشرف سے زرداری دور میں اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے اب عمران خان کو عوام کے درمیان تنہا کھڑا کر نے میں مصروف ہیں۔یقین کیجئے ‘ایسے ہی کچھ لوگوں کو جب جی ایچ کیواور حساس ادارے کے لوگوں کے ساتھ دیکھتے ہیں‘تو خوف آنے لگتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved