اس بے کراں کائنات کے خالق نے زندگی کو تنّوع میں پیدا کیا اور ہمیشہ وہ ایسی ہی رہے گی۔ کارکردگی پہ حکم لگانے کا وقت ابھی نہیں آیا‘ مگر یہ ایک مزاحیہ حکومت ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ اپنے سربراہ کی افتادِ طبع کے طفیل۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔
اللہ نے ایک پُرعزم اور مستقل مزاج کرشماتی شخصیت اسے عطا کی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ استثنیٰ کے سوا بہت کم جامع الصفات مردانِ کار فطرت پیدا کرتی ہے۔ عمران خان کبھی ایک مردم شناس اور معاملہ فہم آدمی نہیں بن سکتے۔ رہی بھاگ دوڑ اور ڈٹ جانے کی سکت تو کم ہی لوگ اس کے ہم پلّہ ہو سکتے ہیں۔ مسلسل چار میچ ہار کر‘ کرکٹ کا عالمی کپ جیتنے والا‘ وہی ایک ہے۔ ہمیشہ سے وہ ایسا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔
جاوید غامدی نے کہا تھا: وہ ایک بچہ ہی تو ہے۔ میرا خیال ہے کہ بعض اعتبار سے ہمیشہ وہ ایک بچہ ہی رہے گا۔
یہ وہ ہے‘ بہترین لوگوں کے سمجھانے کے باوجود جو طالبان کو ایک اثاثہ سمجھتا رہا۔ صوبے کی حکومت سنبھالنے کے بعد اگرچہ ان سے نالاں ہوا۔ نسلی تعلق کی بنا پر لیکن ہمیشہ اس کے دل میں ایک نرم گوشہ ان کے لئے موجود رہے گا۔
وہی ہے‘ جو کہہ سکتا ہے کہ تاریخ میں حضرت عیسیٰؑ کا کوئی ذکر نہیں۔ وہی ایک ہے‘ جو دعویٰ کر سکتا ہے کہ یوٹرن لینے والے لیڈر عظیم ہوتے ہیں۔
خود کو وہ برگزیدہ سمجھتا ہے اور ہمیشہ سمجھتا رہے گا۔
بہت کامیابیاں اس نے حاصل کی ہیں۔ کامیابی ایک گمراہ کر دینے والی چیز بھی ہوتی ہے‘ زعم اور عجب پیدا کر دے۔ ناکامی اچھی ہوتی ہے‘ سبق سیکھنے پر اگر آمادہ کرے۔
بہت زیادہ ورزش کرنے اور خوشامدیوں میں گھرے رہنے والے حد سے زیادہ اعتماد کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں سروے سائنس سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ معتبر اداروں کے کسی سروے میں غلطی کا احتمال ایک سے تین فیصد ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے کاروباری ادارے اور سیاسی رہنما ان پہ انحصار کرتے ہیں۔ مگر اس کے بقول یہ محض شعبدہ بازی ہے۔ اپنے خیالات کی دنیا میں بہشتِ بریں آباد رکھنے والا وہ ایک خوش فہم آدمی ہے۔
ایک کے بعد دوسری شادی کرتے ہوئے‘ اس نے اپنی پسند اور ناپسند ہی کو ترجیح دی‘ حتیٰ کہ اپنے خاندان سے کٹ کر رہ گیا۔ ایسا نہیں کہ اسے اس کی پروا نہ ہو۔ وہ گوشت پوست کا آدمی ہے۔ ایک بار ناچیز سے اس نے کہا تھا کہ وہ محبت کر سکتا ہے مگر اس کا اظہار نہیں۔
98 روزہ کاروبارِ حکومت میں‘ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئے۔ آپ اس کے ساتھ محبت میں مبتلا ہو سکتے ہیں‘ جیسے کہ لاکھوں نوجوان ہیں۔ ان کے سوا جنہیں وہ ہدف کرتا اور نمٹا دینے کا تہیہ کر لیتا ہے‘ آسانی کے ساتھ‘ کوئی اس سے نفرت نہیں کر سکتا۔ اس کی شخصیت کے کئی پہلو بہت دلکش ہیں‘ مثلاً وہی اس کی حیران کر دینے والی سادگی۔
میانوالی کے دیہات میں عوامی رابطے کی مہمات کے دوران کھانے کا وقت آتا تو پانی پینے سے وہ گریز کرتا۔ خیال تھا کہ بہت احتیاط پسند واقع ہوا ہے؛ تاآنکہ ایک واقعہ کا علم ہوا۔ میانوالی کے ایک گائوں میں‘ میز پہ رکھّا مشروب پینے کے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا تو حفیظ اللہ خان نے کہا: یہ جوہڑ کا پانی ہے۔ ''نہیں نہیں‘ سکنجبین ہے‘‘ اس نے کہا۔
گدلے پانی کو وہ سکنجبین سمجھ سکتا ہے۔ مردانِ کار کے بارے میں بھی اس کا اندازِ فکر یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ارد گرد سنپولیے پائے جاتے ہیں اور سرکاری خزانے سے وہ انہیں دودھ پلا رہا ہے۔
سنپولیے نہ سہی‘ کچھ بالکل ہی ناکردہ کار ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا پرنسپل سیکرٹری اور ایک سیاسی مشیر‘ جن کے ہاں ناپسندیدہ مہمانوں کا ہجوم رہا کرتا‘ حتیٰ کہ اسے مطلع کیا گیا کہ قومی سلامتی کے نقطۂ نظر سے ایسے لوگوں کی موجودگی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ایف بی آر کا چیئرمین‘ جس کی وجہ سے‘ ٹیکس وصولی کی شرح پیہم گر رہی ہے۔ وہ لوگ‘ جنہوں نے اسے مشورہ دیا ہے کہ سٹیل مل‘ پی آئی اے اور سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والے دوسرے اداروں کی نجکاری نہیں کرنی چاہئے۔ حالانکہ لٹیروں کے مقابلے میں‘ جرأت مندی کی اس سے امید تھی۔ پانچ سو ارب روپے سالانہ کے نقصان سے وہ ملک کو بچا سکتا ہے۔
پنجاب ایسے وسیع و عریض اور پیچیدہ صوبے میں اس نے عثمان بزدار اور پختون خوا میں محمود خان کا انتخاب کیا ہے۔ عثمان بزدار کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ بڑا ہو کر وہ وسیم اکرم بنے گا‘ حالانکہ وہ منصور اختر کی طرح ہے‘ 1980ء کے عشرے میں‘ جسے اس نے قومی ٹیم میں شامل کیا تھا۔ دو برس بلا چلانے کے بعد وہ گھر لوٹ گیا۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ کرکٹ کو وہ خوب سمجھتا ہے۔
وہ اپنے آپ سے محبت کرنے والا آدمی ہے۔ وہ مزاج ماہرین نفسیات‘ جسے ''اپنے آپ سے ہمدردی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اسی بنا پر فواد چوہدری اور نعیم الحق ایسے لوگوں کا وہ انتخاب کرتا ہے‘ جو ہمیں طلال چوہدری اور دانیال عزیز کی یاد دلاتے ہیں۔ وہ مخالفین پہ زبانِ طعن دراز کرتے اور اس کے جذبۂ انتقام کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ انگریزی کا وہی مشہور محاورہ: A man is known by the company he keeps آدمی ان لوگوں کے طفیل پہچانا جاتا ہے جن کے ساتھ رہنا وہ پسند کرتا ہو۔
ایسے لوگ اسے پسند ہیں‘ دن رات جو اس کی تعریف کرتے رہیں۔ جلد یا بدیر ان لوگوں سے وہ چھٹکارا پا لیتا ہے‘ جو اسے ٹوکنے کے عادی ہوں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کی جگہ‘ جن کا وہ بے حد معترف ہے‘ ایک دوسرے ''ماہر‘‘ کا انتخاب‘ اس کی ایک مثال ہے۔ 2013ء میں ڈاکٹر صاحب کی منت سماجت کرکے انہیں پختونخوا کا محتسب بننے پر آمادہ کیا گیا تھا‘ لیکن پرویز خٹک اور جہانگیر ترین غالب آئے۔ بھلا آدمی خاموشی سے الگ ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ احتساب کا ادارہ مذاق بن کر رہ گیا۔ دوسری طرف صوبے کے ہسپتالوں اور سکولوں کو بہتر بنا کر ایک کارنامہ اس نے انجام دیا۔ اس سے بھی زیادہ پولیس اور افسر شاہی کو آزادیٔ عمل دے کر۔
سول ادارے تعمیر کرنے کے لئے اس کی دلی تمنا کے طفیل ہی‘ ناصر درّانی ایسا پولیس افسر ہمارے قومی منظر پہ ابھرا۔ لیکن آخرکار کیا ہوا؟ ڈاکٹر سڈل ہی کی طرح اس نے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا۔
اب اس کے گرد خوشامدیوں کا ہجوم ہے۔
حال ہی میں مذہبی انتہا پسندوں پہ ہاتھ ڈال کر ایک بار اس نے ایک کارِ عظیم کی بنیاد رکھی ہے۔ اس عمل کو اگر وہ نبھا سکا۔ اگر ایک بار پھر خوشامدی اس کی راہ کھوٹی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو شورش گھٹتی اور امن بڑھتا جائے گا۔ تازہ ترین یہ ہے کہ خوف زدہ مولانا فضل الرحمن مفاہمت پہ آمادہ ہیں۔
مخالفین سفید جھوٹ بولتے ہیں کہ پختون خوا کے میدانوں‘ وادیوں اور کوہساروں میں ایک ارب درخت نہیں گاڑے گئے۔ درحقیقت اس سے بھی زیادہ۔ ملک بھر میں دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ بھی یقینا پروان چڑھا سکے گا۔ ان احمقوں کے بارے میں البتہ کیا کہا جائے‘ جن کے مشورے پر میڈیا کے اشتہارات بند کرنے کا فیصلہ ہوا۔ عمران خان کی خوش بختی یہ ہے کہ لٹیروں کے بعد اسے اقتدار ملا۔ کوئی خوش بختی مگر مستقل نہیں ہوتی۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ بس ایک مہلت!
غیر ضروری اشتہار یقینا اسراف تھے اور اسراف کا ارتکاب احمق کیا کرتے ہیں۔ مگر جدید زندگی کا تشہیری مہمات کے بغیر تصّور ہی نہیں ۔ پبلسٹی کا بجٹ کم ہونا چاہئے۔ دس فیصد یا پچاس فیصد۔ اس کا تعین ماہرین کو کرنا چاہئے۔ گرین پاکستان کا ہدف اشتہارات کے بغیر حاصل نہ کیا جا سکے گا۔ اسی طرح جلد یا بدیر اسے نعیم الحقوں‘ عثمان بزداروں‘ محمود خانوں اور نالائق سرکاری افسروں سے نجات حاصل کرنا پڑے گی۔
اس بے کراں کائنات کے خالق نے زندگی کو تنّوع میں پیدا کیا اور ہمیشہ وہ ایسی ہی رہے گی۔کارکردگی پہ حکم لگانے کا وقت ابھی نہیں آیا مگر یہ ایک مزاحیہ حکومت ہے اور ہمیشہ ایسی ہی رہے گی۔ اپنے سربراہ کی افتادِ طبع کے طفیل۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔